معلّم انسانیت ﷺ

عمران احمد سلفی  جمعـء 13 نومبر 2020
خود نبی کریم ﷺ نے اپنی بعثت کے مقصد کو اُجاگر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا: ’’مجھے مُعلّم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘ فوٹو : فائل

خود نبی کریم ﷺ نے اپنی بعثت کے مقصد کو اُجاگر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا: ’’مجھے مُعلّم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘ فوٹو : فائل

انسانیت جب مقام آدمیت سے گِر کر ظلمت کی پستیوں میں گھری ہوئی تھی، ایک مقدس رات، مقدس سر زمین مکّہ میں تقدس و عظمت کے مالک حقیقی کے مقرب و مقدس فرشتے جبرائیلؑ نے افضل و اکمل ہستی اقدس حضور کریم ﷺ پر پہلی وحی القاء کی۔ جس نے سارے عالم کو علم کی اہمیت و فضیلت سے آگاہ کردیا ۔ یعنی پہلی وحی کا آغاز عقیدے یا اعلان نبوت کے کسی خاص پیغام سے نہیں بل کہ لفظ ’’اقرا‘‘ سے ہوا۔ یعنی اگر پڑھنے اور علم حاصل کرنے سے انسان کا تعلق قائم ہوجائے تو خالق و مالک کی معرفت حاصل ہوسکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی وحی کی پہلی آیتِ مبارکہ میں ارشاد ہو ا، مفہوم: ’’پڑھیے اپنے ربّ کے نام سے، جو ہر چیز کا خالق ہے۔‘‘

ہر علم پسندیدہ اور محمود نہیں ہے کیوں کہ بہت سے علوم تو ایسے بھی ہیں جو بہ جائے خود انسانیت کے لیے نقصان اور ضرر کا باعث ہیں اس لیے علم وہی پسندیدہ، نافع اور باعثِ خیر و برکت ہوسکتا ہے جس کا تعلق خالق سے جڑا ہُوا ہو۔

اﷲ تعالیٰ نے اس اُمتِ آخر کے لیے جس نبی رحمت ﷺ کا انتخاب فرمایا، انہیں اُمَّی رکھا کیوں کہ جسے مُعلم انسانیت ﷺ بننا تھا وہ کسی انسان کا شاگرد کیسے بنایا جاسکتا تھا۔ اس لیے سورۃ رحمٰن میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’رحمٰن وہ ہے جس نے قرآن سکھایا۔‘‘

خود نبی کریم ﷺ نے اپنی بعثت کے مقصد کو اُجاگر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا: ’’مجھے مُعلّم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘

نبی کریم ﷺ نے مکّہ مکرمہ میں دارِارقم کو اسلام کی پہلی اور مدینہ منورہ میں مسجد نبویؐ سے متصل چبوترے کو دوسری باقاعدہ درس گاہ بنایا۔ ویسے تو آپ ﷺ کے گھر بھی ایک طرح سے تعلیمی ادارے ہی تھے کہ سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓ سے اُمت نے آدھا دین سیکھا ہے اور اُن کی تعلیم و تربیت خود نبی کریم ﷺ ہی نے فرمائی تھی اور آپ ﷺ ہی کی تعلیم و تربیت یافتہ آپ ﷺ کی چہیتی صاحب زادی سیّدہ فاطمہ زھرا ؓ ہیں جنھوں نے اپنے بچوں خاص طور پر حسنین کریمینؓ کی ایسی تعلیم و تربیّت فرمائی کہ حق کی راہ میں اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا اور رہتی دنیا تک انسانیت کے لیے روشن و تابندہ مثال بن گئے۔

معلّم انسانیت ﷺ کی حیثیت سے حضور کریم ﷺ کی سب سے اعلیٰ اور ارفع بات قول و فعل میں ہم آہنگی تھی۔ آپ ﷺ جو تعلیم دوسروں کو فرماتے پہلے خود اُس پر عمل کرتے نظر آتے۔ اپنے لیے عزیمت کا راستہ اختیار فرماتے اور دوسروں کے لیے رخصت اور سہولت کا راستہ بتاتے۔ نبی کریم ﷺ کے فلسفۂ تعلیم میں تدریج کو نمایاں حیثیت حاصل ہے یعنی یک دم بھاری بھر کم نصاب کے بہ جائے تھوڑا تھوڑا سکھانا، جس کا مقصود حاصل ہو۔ یعنی وہ علم انسان کے اخلاق و کردار کا حصہ بنتا چلا جائے ورنہ نتیجہ وہی ہوتا ہے جو ہمارے معاشرے میں پڑھے لکھے احمق کے عنوان سے نظر آتا ہے۔

اسی طرح آسان سے مشکل کی طرف تعلیم آج مہذّب دنیا نے نبی کریم ﷺ کی تعلیمات سے سیکھی ہے، جب آپ ﷺ نے سیّدنا معاذ بن جبلؓ کو یمن کا امیر بنا کر بھیجا تو انہیں خاص ہدایت فرمائی کہ اپنے احکامات و معاملات کو لوگوں کے لیے سہولت کا باعث بنانا، دشواری و مشکل نہ بنانا اور انہیں خوش خبریاں دینا، اُنہیں خوف زدہ مت کرنا۔ اسی طرح ایک مرتبہ کچھ لوگوں نے اپنے پش امام کے حوالے سے آپ ﷺ سے شکایت کی کہ یہ بہت لمبی نماز پڑھاتے ہیں تو آ پ ﷺ نے خفگی کا ا ظہار فرمایا اور ہدایت فرمائی کہ نماز کی امامت کراتے ہو ئے خیال رکھو کہ بزرگ، بیمار اور اپنی ضرورت سے جانے والے لو گ بھی نماز میں شامل ہوتے ہیں۔

نبی کریم ﷺ کے نظام تعلیم میں دینی، دنیاوی تعلیم کی تفریق نہ تھی بل کہ ہر وہ علم جو نیک نیّتی کے ساتھ مخلوق کے فائدے کے لیے ہو وہ دینی علم ہی شاخ تصور کیا گیا۔ غزوۂ بدر میں وہ جنگی قیدی جو اپنی رہائی کے لیے فدیہ نہ دے سکتے تھے، اُن کے لیے کہا گیا کہ وہ مسلمانوں کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں تو یہی اُن کی طرف سے فدیہ ہوگا۔

اگر آج بھی ہم معلم انسانیت ﷺ کے نظریۂ تعلیم کے مطابق اپنے تعلیمی نظام کی تنظیم نو کریں تو مدرسہ اور اسکول، جامعہ اور یونی ورسٹی کا فرق ختم ہوجائے گا، مسٹر اور مولوی کی تفریق مٹ جائے گئی اور دینی و دنیاوی علوم و فنون کے حسین امتزاج کے ساتھ قوم کو صالح اور حقیقی دانش مند قیادت میّسر آئے گی۔

سیرتِ مصطفویؐ اور نظام تعلیم محمدی ﷺ ہی دراصل وہ صراطِ مستقیم ہو جس میں کوئی ٹیڑھ، مشکل اور پیچیدگی نظر نہیں آتی۔ اس کے علاوہ جس تعلیمی نظام کو بھی لیا جائے اس میں خوبیاں ہیں تو خامیاں بھی موجود ہیں۔ لیکن نبی کریم ﷺ کے تعلیمی نظام میں خوبیاں تو ہیں لیکن خامی کجی یا کمی کوئی بھی امکان نہیں ہے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ چودہ سو سال پُرانا وہ نظام، دورِ جدید کے لیے اُسی طرح کارآمد اور سُودمند ہے جس طرح قرون اولٰی کے لوگوں کے لیے فائدہ مند تھا۔

اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں معلم انسانیت ﷺ کا نظام تعلیم نصیب فرمادے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔