کورونا آگاہی مہم کی ضرورت

ایڈیٹوریل  ہفتہ 14 نومبر 2020
حکومت سزا سے زیادہ عوام اور کاروباری افراد کو سہولتیں دینے اور اپنی کورونا آگاہی مہم کو موثر بنائے۔ فوٹو: فائل

حکومت سزا سے زیادہ عوام اور کاروباری افراد کو سہولتیں دینے اور اپنی کورونا آگاہی مہم کو موثر بنائے۔ فوٹو: فائل

ملک بھر میں کورونا کے وار جاری، چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ کورونا وائرس کے باعث انتقال کر گئے، 24 گھنٹوں میں مزید 26 افراد جاں بحق، 1815 نئے کیسز رپورٹ، فعال کیسز کی تعداد 22 ہزار 88 اور متاثرین 3 لاکھ 51 ہزار 69 جب کہ 3 لاکھ 21 ہزار 215 صحتیاب اور اموات 7 ہزار 71 تک پہنچ گئیں۔

ترجمان پشاور ہائیکورٹ کے حوالے سے بتایا گیا کہ چیف جسٹس اسلام آباد کے نجی اسپتال میں زیر علاج تھے، ان کی طبیعت کچھ دنوں سے خراب تھی۔ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار نے ملک بھر میں یوم سوگ کا اعلان کیا اور اپنے تعزیتی پیغام میں کہا ہے کہ جسٹس وقار سیٹھ کے انتقال سے ملک بہترین منصف سے محروم ہوگیا، چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ وقار احمد سیٹھ کی نماز جنازہ ہفتہ کو دوپہر ڈھائی بجے کرنل شیر خان اسٹیڈیم پشاور میں ادا کی گئی۔

چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کے انتقال کی خبر بلاشبہ صدمہ انگیز تھی اور جن لوگوں کے دلوں میں اس وبا کے حوالہ سے مختلف النوع شکوک وشبہات تھے، مابین ظن و یقین کی کیفیت سے دوچار تھے اور بعض بے بنیاد تاثرات اور اوہام میں مبتلا بھی تھے کہ شاید وبا کی اتنی شدت نہیں جتنی کہ عوام میں بلاوجہ پھیلائی گئی ہے لیکن اعلیٰ عدلیہ کی ایک ممتاز شخصیت کے دار فانی سے کوچ کر جانے کے المیہ نے اس حقیقت کو واضح کیا کہ کورونا کی دوسری لہر کم ہولناک نہیں، لہٰذا عوام کو اپنی اور دوسرے ہم وطنوں کی صحت کے لیے نہایت سنجیدگی سے کورونا سے بچاؤ کے لیے حکومتی صائب ہدایات اور مشتہر ایس اوپیز پر عمل کرنا چاہیے اور اپنا قومی کردار اس خطرناک وبا کے سدباب میں بھرپور طریقے سے ادا کرنا چاہیے۔

این سی اوسی کے مطابق چوبیس گھنٹوں میں 36 ہزار 686 ٹیسٹ جن میں سندھ میں 11 ہزار 146، پنجاب میں 13 ہزار 545، خیبرپختونخوا میں 3 ہزار 303، اسلام آباد میں 6 ہزار 879، بلوچستان میں 482، گلگت بلتستان میں 345، آزاد کشمیر میں 986 ٹیسٹ شامل ہیں، 3 لاکھ 20 ہزار 849 صحتیاب ہو چکے، بلوچستان میں کورونا کا کوئی مریض وینٹیلیٹرز پر نہیں جب کہ ملک بھر میں 1 ہزار 856 وینٹیلیٹرز پر کورونا کے 189 مریض ہیں۔

کیسز کے حوالے سے آزاد کشمیر میں 5 ہزار 139، بلوچستان میں 16 ہزار 226، گلگت بلتستان میں 4 ہزار 409، اسلام آباد میں 22 ہزار 765، خیبر پختونخوا میں 41 ہزار 258، پنجاب میں 1 لاکھ 8 ہزار 221 اور سندھ میں 1 لاکھ 53 ہزار 51 مریض ہوچکے، سندھ میں اموات 2 ہزار 704، پنجاب 2 ہزار 439، خیبر پختونخوا میں 1 ہزار 302، اسلام آباد میں 248، بلوچستان میں 154، گلگت بلتستان میں 93، آزاد کشمیر میں 116 ہوئیں، ملک بھر میں 48 لاکھ 10 ہزار 186 ٹیسٹ کیے جا چکے،736 اسپتالوں میں 1 ہزار 296 مریض زیر علاج ہیں۔

ادھر پنجاب میں 390 نئے کیسز ہو چکے، ترجمان پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کے مطابق لاہور 124، راولپنڈی 36، ڈیرہ غازی خان 7، شیخوپورہ 1، لیہ18اور ملتان میں 63 کیسز رپورٹ، گوجرانوالہ11، سرگودھا2، راجن پور1، میانوالی 3، خانیوال 7، پاکپتن 3 اور فیصل آباد میں 16، مظفر گڑھ 4، بہاولپور25، سیالکوٹ 10، ٹوبہ 7، بہاولنگر5، رحیم یارخان3 اور اوکاڑہ میں2 ، لودھراں21، جھنگ9، وہاڑی7 جب کہ حافظ آباد، جہلم، ساہیوال، بھکر اور اٹک میں ایک ایک کیس رپورٹ ہوا، مزید9 ہلاکتیں ہوئیں، اب تک1,714,383  ٹیسٹ کیے جا چکے،97,691 صحتیاب ہو چکے۔

ادھر سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کا بھی کورونا ٹیسٹ مثبت آ گیا، بیٹے نے بتایا کہ ان کے والد نے تمام مصروفیات منسوخ کر دی ہیں اور دعا کی اپیل کی ہے۔ دریں اثناء صوبائی وزیر جنگلی حیات و ماہی پروری صمصام بخاری کا کورونا ٹیسٹ مثبت آگیا اور انھوں نے خود کو گھر پر قرنطینہ کر لیا، انھوں نے جلد صحتیابی کے لیے عوام سے دعا کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ دوسری لہر زور پکڑ رہی ہے، لہٰذا سب لوگ احتیاط کریں۔

راولپنڈی میں احتساب عدالت دو کے جج چوہدری انوار احمد خان کورونا کا شکار ہوگئے انھیں فوری اسپتال میں داخل کرا دیا گیا ہے جب کہ ان کے گن مین ظہور الٰہی کا بھی کورونا ٹیسٹ مثبت آگیا جس کے بعد احتساب کی تینوں عدالتوں کے مکمل اسٹاف کے فوری ٹیسٹ کیے گئے ہیں ادھر جوڈیشل کمپلیکس راولپنڈی میں سول جج قمر عباس تارڑ بھی کورونا کا شکار ہوگئے ہیں اور وہ گھر قرنطینہ میں چلے گئے ہیں، چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل کا کورونا ٹیسٹ بھی پازیٹو آ گیا انھوں نے خود کو گھر پر آئیسولیٹ کرتے ہوئے دفتری امور گھر پر ہی نمٹانے شروع کر دیے۔

ترجمان کے مطابق ایک قریبی عزیز سے ملاقات کے بعد وہ متاثر ہوئے۔ وفاقی وزارتوں، محکموں و ڈویژنز میں کورونا کے وار جاری، نجکاری کمیشن اور کابینہ ڈویژن کے افسران و ملازمین بھی کورونا کا شکار ہو گئے ہیں، کابینہ ڈویژن نے کورونا سے پیدا صورتحال کے تناظر میں ملازمین کے لیے ایڈوائزری سرکلر جاری کر دیا ہے، کورونا کے مثبت کیسز کے باعث ہری پور میں خواتین نادرا سینٹر ایک ہفتہ، گڑھی حبیب اللہ میں سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے 14 دنوں کے لیے بند کر دیے گئے۔

میڈیا کے مطابق انڈس میڈیکل کالج ٹنڈو محمد خان کے سی ای او، وی سی سمیت 7 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ جس پر کالج دس روز کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کورونا کی دوسری لہر کے باعث وزارت تعلیم کی طرف سے پنجاب بھر میں سیرت النبیؐ کوئز مقابلے منسوخ کر دیے گئے، نیا شیڈول بعد میں جاری کیا جائے گا۔

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے مطابق 24 گھنٹوں میں مزید 14 مریض جاں بحق اور 979 نئے کیسز رپورٹ اور 314 افراد صحت یاب ہوئے، سندھ میں ابتک کورونا کے 1773517ٹیسٹ اور 153051 کیسز رپورٹ ہوچکے اور صحتیاب ہونے والے افراد کی تعداد 141760 ہوگئی ہے۔ علاوہ ازیں دوسری لہر کے پیشِ نظر اسلامیہ یونیورسٹی میں تمام تعلیمی سرگرمیاں معطل کر دی گئیں، یونیورسٹی مراسلے کے مطابق نوٹیفکیشن کا اطلاق16 نومبر سے نافذ العمل ہو گا۔

اس منظرنامہ کو دیکھتے ہوئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ ارباب اختیار نے سابقہ حکومتی میکنزم سے کیا فیڈ بیک لیا ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں، خود مختار اداروں اور اتھارٹیز میں کام کرنے والے عملے کی فوج ظفر موج سے کورونا سے متعلق کس نوعیت کے حفظان صحت کے انسدادی کام لیے جا رہے ہیں اور دوسری لہر کو روکنے میں کیا اضافی حکمت عملی اپنائی گئی، کیا پولیو جیسی مہم کی طرز پر ملک بھر میں چھڑکاؤ کیا گیا، گھر گھر ماسک کے پیکٹ پہنچانے والے والنٹیرز مقرر کیے گئے، ٹائیگر فورس کو بھی متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔

اس ضمن میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ شادی ہالز پر حکومت کا دہرا معیار کیوں ہے، کیا سیاسی جماعتوں کے جلسے کرنے سے کورونا نہیں پھیل رہا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے شادی ہالز میں تقریبات پر پابندی کے خلاف درخواست پر این سی او سی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ایک ہفتے میں جواب طلب کرلیا۔

دلچسپ ایڈوائزری پنجاب حکومت نے جاری کی ہے، جس میں کہا گیا کہ کورونا کے تیزی سے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے درخواست کی جائے گی کہ وہ جلسے نہ کریں جب کہ ایڈوائزری ایک ایسے وقت جاری کی جا رہی ہے جب پی ڈی ایم 13دسمبر کو مینار پاکستان پر ایک بڑا جلسہ کرنے جا رہی ہے، جب کہ اس سے پہلے پشاور، جنوبی ملتان اور دیگر مقامات پر بھی جلسوں کا شیڈول تیار کیا گیا ہے، تین جلسے ہوچکے ہیں۔

تاہم ایڈوائزری میں پی ٹی آئی سے جلسے نہ کرنے کی کسی درخواست کا ذکر موجود نہیں جب کہ گلگت بلتستان کی انتخابی مہم کے دوران تینوں بڑی سیاسی جماعتیں جلسے کرچکی ہیں جس میں شرکا کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ اسی لیے عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ عام آدمی پر تو ایس او پیز کی پابندی کا دباؤ ہے مگر پر ہجوم سیاسی اجتماعات پر کوئی روک ٹوک نہیں، یہ دوعملی ناقابل فہم ہے، اس کے خلاف ریاست کو اپنی رٹ قائم کرنی چاہیے۔

اور حکومت ماسک پہننے، سماجی فاصلہ رکھنے اور ہجوم سے دور رہنے کی پابندی پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنائے اور اس کے بعد ہی اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ اسمارٹ لاک ڈاؤن کے نفاذ کے ساتھ ہی اس پالیسی کا کیا بنا جس کے تحت وزیر اعظم نے کہا تھا کہ لاک ڈاؤن کی موثر ترین پالیسی پر نتیجہ خیز عمل ہونا چاہیے تاکہ لوگوں کا کاروبار بند نہ ہو، بے روزگاری نہ پھیلے، مہنگائی اور کورونا کی بندشیں عوام کی زندگی کو مصیبت میں نہ ڈالیں، اسی کے پیش نظر شادی ہالز اور ریسٹورینٹس کے لاک ڈاؤن پر نظر ثانی ناگزیر ہے۔

اصولاً شادی ہالز اور ریسٹورنٹس میں داخلہ کے وقت سینیٹائزیشن اور ماسک پہننے میں کوئی مسئلہ نہیں، شادی کا ہنگامہ دو تین گھنٹے پر موقوف ہوسکتا ہے اور ریسٹورنٹس میں کھانا کھانے کے بھی اوقات میں باقاعدگی پیدا کی جاسکتی ہے، ریسٹورنٹس سے کھانا سپلائی بھی ہو سکتا ہے، یہ تجاویز قابل عمل ہیں بہ نسبت ان تادیبی کارروائیوں کے جن کا اطلاق ریسٹورنٹس پر کیا گیا اور انھیں بند کر دیا گیا۔ حکومت سزا سے زیادہ عوام اور کاروباری افراد کو سہولتیں دینے اور اپنی کورونا آگاہی مہم کو موثر بنائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔