ایک پرانے لفظ کا پُنر جنم

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 14 نومبر 2020
barq@email.com

[email protected]

جی خوش ہو جاتا ہے جب کوئی پرانا یار آشنا مل جائے یا کسی پرانی بات کو دہراتا ہوا دیکھ لے۔ ایک شاعر نے بھی کہا ہے کہ

یار بچپن کا کوئی پرانا ملے

کاش گزرا ہوا زمانہ ملے

ہمیں کوئی یار بچپن کا تو نہیں ملا ہے بلکہ جو ابھی تک زندہ ہیں اور شرمندہ بھی نہیں ہیں وہ ہمیں کچھ زیادہ اچھے بھی نہیں لگتے بلکہ سچ کہیے تو زہر لگتے ہیں کیونکہ ہماری تمام تر اسٹوپڈ حرکتوں کے چشم دید بلکہ چشمہ دید گواہ ہیں۔ لیکن ’’پرانا زمانہ‘‘ تھوڑا سا مل گیا ہے اور ایسا لگنے لگا ہے کہ شاید ہمارا پرانا زمانہ خود کو دہرانے لگا ہے۔

اور یہ سب مہربانیاں ہماری اس بابرکت، باانصاف، بانصیب، با ادب اور با وژن حکومت کی مہربانیاں ہیں۔ وہ الفاظ جن کے ہماری کان بلکہ اخباروں میں آنکھیں ترستیاں تھیں وہ نئے سرے سے جلوہ گر ہونے لگے ہیں یا یوں کہیے کہ ان کا ’’پُنر جنم‘‘ ہوا ہے، یہ الفاظ تھے، غدار، وطن دشمن، قوم دشمن اور ملک دشمن۔

جب جینے کا شوق تھا تو دشمن ہزار تھے

اب مرنا چاہتا ہوں تو قاتل نہیں ملتا

جو ان الفاظ کے آخری پالن ہار شیخ مجیب کے ساتھ ہی رخصت ہو گئے تھے۔ اصل میں تو یہ الفاظ اور خاص طور پر ’’غدار‘‘ تو باچا خان اور جی ایم سید کی ملکیت تھے۔ وہ جب تک زندہ رہے وہ ان الفاظ کو پالتے رہے اور دوسرے پوستے رہے ان کے جانے کے بعد یہ سارے الفاظ اور خاص طور پر ’’غدار‘‘ کا لفظ تو بالکل یتیم و یسیر ہو کر رہ گیا تھا، بیچارا سارے ملک میں روتا رہا اور ٹسوے بہاتا رہا۔ بارے اس کی سنی گئی اور شیخ مجیب الرحمٰن نے ان کو گود لے کر ’’لے پالک‘‘ بنا لیا لیکن:

مقدر میں جو سختی تھی وہ مر کر بھی نہیں نکلی

قبر کھودی گئی میری تو پتھر ملی زمیں نکلی

شیخ مجیب اس لفظ کو بڑی اچھی طرح پالتا پوستا رہا۔ اسے کبھی پرایا یا لے پالک نہیں سمجھا اور ’’محب وطن‘‘ لوگوں نے مل کر اسے تسلیم بھی کر لیا تھا لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا شاید دیوتا اس سے ناراض ہو گئے کہ شیخ مجیب کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا: ع

شہادت تھی مری قسمت میں جو دی مجھے یہ خو

جہاں تلوار کو دیکھا جھکا دیتا تھا گردن کو

آدھے پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو کر پاکستان کو بچا لیا گیا۔ اس کے مخالفوں یحییٰ خان، ٹکا خان، قیوم خان اور قائد عوام کی سعی ممنون کامیاب ہوئی۔ اور لفظ ’’غدار‘‘ پھر بے یار و مدد گار ہو گیا نہ جانے کس جہاں میں کھو گیا تھا شاید وہاں چلا گیا جہاں مرشد کے مطابق

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

خود ہماری خبر نہیں آتی

لیکن بندہ پریشان اللہ مہربان۔ اس کی بھی سن لی گئی اور انیس بیس کی اکثریت سے ہماری موجودہ انصاف دار۔ وژن دار اور فائیو اسٹار حکومت برسر اقتدار آ گئی۔ اس کا وژن تو نیا پاکستان بنانا تھا لیکن بن گئی ریاست مدینہ، گویا آگ لینے گئے تھے پیغمبری مل گئی۔

فقط ایک کا ہونے میں ہی حسن بندگی ہے غالب

جو روز قبلہ بدلتے ہیں وہ بے دین ہوتے ہیں

اس نے سوچا اور بہت سوچا کہ ’’یوٹرن‘‘ لینا کوئی بری بات نہیں بلکہ یوٹرن ہی سیاست کا جوہر ہے۔ یا یوں کہیے کہ یو ٹرن ہی سیاست ہے اور سیاست ہی یوٹرن ہے۔ اوپر سے یہ سیاست ’’کفایت شعار‘‘ بھی بلا کی تھی۔ تو اس نے سوچا اور بہت سوچا بلکہ اچھے سے بھی اچھا سوچا۔ کہ خواہ مخواہ فضول کا خرچہ اٹھا کر ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کی ضرورت کیا۔

عرض نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا

جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

کیونکہ پرانے ہی کو چونا سفیدی کر کے اور ضروری مرمت کر کے نیا نکور بنا دے اس طرح جو رقم فالتو میں خرچ ہونے سے بچ جائے وہ بھی اپنے ’’بال بچوں‘‘ کے کام آ جائے گی جو خیر سے پچھلے زمانوں سے چار گنا ہو گئے یعنی پوری ’’جھول‘‘ ہے۔ اور یوں لفظ غدار کی بھی بن آئی۔ اسے بھی جھاڑ پونچھ کر رنگ پالش کر کے چمکا دیا گیا کہ پرانے پاکستان کی ساری زینت اس سے ہوا کرتی تھی۔ چنانچہ دوبارہ اس لفظ کی گونج چاروں اطراف سے سنائی دینے لگی۔

جناب وژن نے میر جعفر میر صادق اور میر ایاز صادق دریافت فرمانے اور ابھرتی ہوئی سیلبرٹی شبلی فراز نے کہا کہ اپوزیشن کا بیانیہ مودی کا بیانیہ ہے ابھی تو ابتدا ئے عشق ہے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ گیارہ جماعتیں ہیں اور گیارہ کی گیارہ غدار ہو گئی ہیں۔ ہم ریاضی میں کمزور ہیں لیکن کوئی ریاضی دان یہ حساب لگا سکتا ہے کہ آدھا پاکستان تو بہت پہلے غدار ہو کر خیلج بنگال میں ڈوب گیا تھا۔ اب اس آدھے میں سے بھی کم سے کم گیارہ کے حساب سے غدار شمار کر لیجیے۔ باقی بچا ایک۔ یوں وہی پرانا حساب بیٹھ گیا۔

صرف پندرہ فی صد ایسے رہ گئے ہیں جو غدار نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ ہی وطن بھی ہیں دین بھی ہیں ملک بھی ہیں اور قوم بھی۔ اور یہ روایت تو یہاں ابتدا ہی سے چلی آ رہی ہے کہ اقلیت ہی اکثریت کو غدار بناتی ہے کیونکہ کوئی حکومت کسی طرح بھی قابض ہو جائے وہ اس کے چٹے بٹے ہی ملک وقوم اور وطن بن جاتے ہیں یا سگے کہیے۔ اور سگوں کا تو دستور ہے کہ سوتیلوں کو غدار قرار دیں کیونکہ وہ سگے ہوتے ہیں اور ’’سگے راسگے می شناسد‘‘ بہرحال ہمیں امید چلی ہے کہ شاید ’’گزرا‘‘ ہوا زمانہ ملے۔کیونکہ یار بچپن کا یہ پرانا مسمی غدار تو مل ہی گیا ہے۔

اتنا تو مجھے یاد ہے کچھ اس نے کہا تھا

کیا اس نے کہا تھا یہ مجھے یاد نہیں ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔