یوریشیا: مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

اکرام سہگل  ہفتہ 14 نومبر 2020

سال کے آغاز میں جب کورونا وائرس کی وبا پھوٹی تو اندازے یہی تھے کہ اس سے بین الاقوامی تعلقات جمود کا شکار ہوجائیں گے۔ بعض لوگوں کو توقع ہوچلی تھی کہ عالمی معیشت اور سیاست میں قائدانہ کردار کی جانب چین کے بڑھتے قدم رُک جائیں گے، اسی طرح چین اور روس کا اتحاد بھی وبا سے پیدا شدہ حالات کو سہار نہیں پائے گا۔ لیکن حالات ان توقعات کے برعکس ثابت ہوئے۔

پاکستان اپنے محل وقوع اور کسی حد تک اقتصادی شناخت کے حوالے سے گومگو کا شکار رہا ہے۔ جغرافیائی اور تاریخی اعتبار سے یہ جنوبی و وسطی ایشیا اور مشرق وسطی کا حصہ ہے۔ یوریشیا میں شامل خطہ بحرالکاہل کے ساحلوں سے اٹلانٹک تک پھیلا ہوا جس میں مشرقی ، جنوب مشرقی ایشیا اور یورپ بھی شامل ہیں۔ سو برس قبل یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ یہ خطہ تاریخ کا محور بننے جارہا ہے اور آج ہم اسے حقیقت ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

دوراندیشی پر مبنی چین کا بیلٹ روڈ انیشی ایٹیوو اس طویل و عریض خطے کو سڑکوں، ریل ، پائپ لائن اور بحری راستوں کے ذریعے باہم مربوط کرنے کے لیے شروع کیا گیا ہے۔ ققنس کے مانند سوویت یونین کی راکھ سے جی اٹھنے والا روس نہ صرف مختصر وقت میں اس قابل ہوگیا کہ مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا ہے بلکہ اب مشرق میں چین سے ٹھوس اتحاد کی تشکیل کے بعد جنوب میں بحیرہ ہند پر اس کی نگاہیں جمی ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم اور دیگر ایسی ہی اقتصادی تنظیمیں اسی یوریشیائی رشتے کو مضبوط کرنے کے لائحہ عمل کی جزئیات طے کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔

اس اتحاد میں ترکی اور ایران نیا اضافہ ہیں۔ نیٹو میں شامل ہونے کے باوجود مغرب اور امریکا کی بے اعتنائی کے زخم سہنے والا ترکی ایک ابھرتی ہوئی علاقائی طاقت ہے جسے یوریشیا کا زمینی پُل تسلیم کرنا چاہیے۔ چار دہائیوں تک بے رحم معاشی پابندیاں اور قدغنیں برداشت کرنے والا ایران بدلتے حالات میں دوبارہ اپنی تمام تر قوت بروئے کار لانے کے لیے پُرعزم ہے۔ یوریشیائی برادری کی تشکیل کے ساتھ ہمارے حالات بھی مزید بہتر ہوں گے۔

عالمی اقتصادی فورم کاروبار، سیاست، فن اور میڈیا کے ایسے نمایاں افراد کی بین الاقوامی کمیونٹی ہے جو عالمی سطح پر ہونے والے سیاسی و اقتصادی فیصلوں پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ دنیا جس طرح کثیر القطبی ہوتی جا رہی ہے، قائدین اور ماہرین کو علاقائی، سیاسی اور قومی سطح پر باہمی تعاون کے لیے فوری سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا۔ یہ عالمی سطح پر جیواسٹرٹیجک تعاون کا ایسا پلیٹ فورم ہے جہاں تحقیق اور حقائق کی بنیاد پر افہام و تفہیم کو فروغ دیا جاتا ہے۔

اس اہم تنظیم میں پاکستان کی نمایندگی کئی پاکستانی بزنس گروپ کرتے ہیں اور اپنی متحرک شرکت سے اس عالمی کمیونٹی کو اپنے ملک کی نمایندگی کا احساس دلاتے ہیں۔ پاکستان ابھی تک اس فورم کے مشرق وسطی اور شمال افریقا گروپ (MENA) سے منسلک ہے۔ عالمی سطح پر بننے والے نئے اتحاد اور تعلقات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ بین الاقوامی روابط کو ایک نئے زاویے سے دیکھا جائے۔

ہماری موجودہ خارجہ پالیسی کے خطوط مشرقی وسطی اور خلیج میں سامنے آنے والی حالیہ پیشرفت کے لیے پوری طرح موزوں نہیں رہے اس لیے MENA خطے کے ممالک اور پاکستان کی ایک دوسرے پر توجہ کے ارتکاز کی وہ سطح نہیں رہی۔ جنوبی اور وسطی ایشیا میں آنیوالی تبدیلیاں ہمارے لیے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ مشرق وسطی اور شمالی افریقا کے تناظر میں پاکستان صرف حاشیے پر ہے۔ چین کے بی آر آئی منصوبے میں ہماری بڑھتی حصے داری اور سی پیک کی بنا پر ایران اور وسطی ایشیا پاکستان کے لیے زیادہ اہم ہو چکے ہیں۔

بی آر آئی کے بنیادی جزو سی پیک کی وجہ سے اقتصادی تعاون تنظیم پھر توجہ کا مرکز بنی ہے۔ ای سی او 1985 میں قائم ہوئی تھی، یہ بنیادی طور پر امریکا اور برطانیہ کی ایما پر بننے والی اور ایران، پاکستان، ترکی پر مشتمل علاقائی تعاون تنظیم (آر سی ڈی) کی بنیاد پر تشکیل دی گئی تھی جس نے خطے میں ہونے والے کمیونسٹ مخالف بغداد پیکٹ اور سینٹو کی جگہ لی۔ 1992 میں ای سی او میں سات ممالک ؛ افغانستان ، آذر بائیجان، قزاقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہوئے۔ اس تنظیم میں شامل ممالک کا مجموعی رقبہ یورپ سے دگنا ہے۔

یورپ اور ایشیا کے مابین پل کی حیثیت رکھنے والے ای سی او ممالک میں ریل کی نقل و حمل کے لیے 55 ہزار کلو میٹر طویل پٹڑیوں کا جال ہے۔ اس میں پاکستان، ایران اور ترکی کا سہ فریقی نیٹ ورک ہے جس میں سڑک، ریل، فضائی اور آپٹک فائبر کے ذرایع مواصلات شامل ہیں۔ اسلام آباد سے براستہ تہران استنبول کا ساڑھے چھ ہزار کلومیٹر طویل فاصلہ 14 سے 16 دنوں میں طے کیا جا سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں کراچی سے ترک بندرگاہوں تک بحری سفر میں چالیس سے پینتالیس دن لگتے ہیں۔

سوئفٹ ٹرین کا ایک معاہدہ تقریبا طے پا چکا ہے جس سے یہ سفر پندرہ سے دس دن کم ہو جائے گا۔ ترکی، ایران، ترکمانستان، ازبکستان، قزاقستان کو باہم مربوط کرنے والے ریل پٹڑیوں کے جال سے خلیج فارس، خلیج عمان، ایشیائی ممالک ، چین ، روس ، ترکی اور یورپ کے فاصلے سمٹ جائیں گے۔ اس سے قزاقستان کے ساتھ ترکمان اور ازبک بارڈر سے ایران تک کے سفر میں 600 کلو میٹر کمی آئے گئی اور دو دن کا سفر کم ہو جائے گا۔ قزوین سے دشت تک کا ایران و آذر بائیجان کا 164 کلو میٹر کا حصہ پورا ہوچکا ہے جس کے بعد قزوین، دشت اور استرا کی شاہراہ 60 فیصد مکمل ہوچکی ہے۔

ایران کے ذریعے خلیج فارس کو وسطی ایشیا سے جوڑنے کے لیے قزاقستان، ترکمانستان اور ایران کے مابین بننے والے ریلوے نیٹ ورک سے خطے کی بندرگاہوں تک رسائی بڑھ جائے گی۔ اس طرح خلیج فارس کی بندرگاہوں سے یورپی ممالک تک براہ راست ریلوے راستہ بن جائے گا۔

طوالت میں نہر سوئز سے تین گنا چھوٹی کئی یوریشیائی راہداریاں کیسپین سے قزاقستان تک کاروباری و سماجی مواقعے اور ماحول کے امکانات پیدا کر سکتی ہیں۔ان حقائق کا ادراک کرتے ہوئے عالمی اقتصادی فورم نے پاکستان کو یوریشیا گروپ میں شمولیت کی دعوت دی ہے۔ یہ وہ کمیونٹی ہے جو بے یقینی اور بحرانوں کے اس دور میں شراکت اور باہمی تعاون کے لیے علاقائی قربتوں پر مؤثر انداز میں کام کر رہی ہے۔ یہ گروپ یوریشیائی خطے میں ترقی کے نئے تناظر اور یوریشیا کی ڈیجیٹل میدان میں نئی صورت گری کے لیے مسلسل رابطے میں رہتا ہے۔

دسمبر میں اس گروپ کی ہونے والی ورچوئل میٹنگ میں پاکستان بھی شریک ہوگا۔ امریکا کے ساتھ پاکستان کی دیرینہ وابستگی مدہم پڑ رہی ہے، ہم اپنے پڑوسی ایران اور خود انحصاری کی جانب گامزن ترکی کے زیادہ قریب ہورہے ہیں ایسے حالات میں پاکستان کے لیے یہ غیر معمولی پیشرفت ہے، جس کی طویل عرصے سے ہمیں ضرورت بھی تھی۔

تحریک انصاف کی حکومت میں پاکستان نے معیشت اور اداروں کی بہتری کے لیے اصلاحات کا طویل اور صبر آزما راستہ چنا ہے۔ ہمارے تباہ حال انتظامی اداروں، بیورو کریسی، نظام تعلیم اور دیگر مسائل کے لیے یہ ضروری تھا۔ اس جانب پہلا قدم بڑھایا جا چکا ہے لیکن ابھی طویل سفر باقی ہے۔ دنیا بھر کی طرح کورونا وبا نے ہماری معیشت کو بھی ڈگمگا دیا لیکن اپنے کمزور نظام صحت کے باوجود ہم اس بحران سے کام یابی سے نکل گئے ہیں۔

حال ہی میں سی این این سے بات کرتے ہوئے امریکا کے سابق سیکریٹری خزانہ، ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر اور مایہ ناز ماہر اقتصادیات لارنس سمر نے کہا کہ اگر امریکا پاکستان کی طرح کورونا وائرس وبا سے نمٹتا تو کھربوں ڈالر بچائے جاسکتے تھے۔ مشکلات اور مسائل اپنی جگہ لیکن ہم نے ان حالات میں ایسی کامیابیاں حاصل کی ہیں جن سے گپ اندھیرے میں کئی چراغ روشن ہوئے ہیں۔

اگرچہ یہ محض ابتدا ہے لیکن پاکستان کو یوریشیا کی اہمیت کا ادراک کرنے اور عوام کو اسے باور کروانے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ترکی اس کی بہترین مثال ہے جو بدلتے حالات کے مطابق اپنے قومی مفاد میں اپنی معاشی پالیسیاں اور مستقبل کی راہیں متعین کررہا ہے۔ اسی طرح ہمیں بھی اپنے لیے آزادی اور اعتماد کے ساتھ اپنے راستے تلاش کرنا ہوں گے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی یوریشیا گروپ میں نمایندگی درست جانب اٹھنے والا قدم ہے۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔