نومبر : اُداسیوں کا مہینہ

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 27 نومبر 2020
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

سرد نومبر کا مہینہ اپنے آخری دموں پر ہے ۔ ملک بھر میں چھائی سیاسی ابتری، مہلک کورونا کی نئی لہر اور ہر روز بڑھتی خوفناک بے روزگاری نے تو ویسے ہی لوگوں کا جینا حرام کررکھا ہے۔ اوپر سے گزرنے والا یہ نومبر مسلسل افسردگیوں کا مہینہ بھی ثابت ہُوا ہے۔اِسی مہینے پاکستان کے ممتاز عالمِ دین اور شعلہ بیان مقررحضرت علامہ خادم حسین رضوی ؒ اچانک ہم سے جدا ہو گئے ۔ اُن کی رحلت سے پورے ملک میں اُن کے چاہنے والوں کے دل غم سے نڈھال ہو کر رہ گئے۔

لاہور کے مینارِ پاکستان میں اُن کے بے مثال اور عظیم الشان جنازے نے بھی ثابت کیا کہ علامہ صاحب مرحوم و مغفور بلا شبہ لاتعداد لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن چکے تھے ۔ہماری دعا ہے کہ اللہ کریم اُن کی مغفرت بھی فرمائے اور اُن کی جماعت (ٹی ایل پی) اور نئی لیڈر شپ ( حافظ سعد رضوی) کو اتحاد و استقامت بھی بخشے ۔ اِنہی ایام میں پشاور سے بزرگ اخبار نویس پیر سید سفید شاہ بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔

بزرگ سیاستدان اور سابق وفاقی وزیر چوہدری انور عزیز بھی انتقال کر گئے ہیں۔ ابھی چند ماہ قبل ہی انھیں اپنی لائق فائق بیٹی ، ڈاکٹر کرن عزیز، کی موت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا تھا۔ چوہدری صاحب مرحوم سابق وفاقی وزیر دانیال عزیز کے والد گرامی اور نون لیگی ایم این اے مہناز عزیز کے سسر تھے ۔ اپنی مرنجاں مرنج شخصیت کے کارن مرحوم ملک بھر میں وسیع حلقہ احباب رکھتے تھے ۔

کئی بار قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہُوئے اور دو بار وفاقی وزیر بنائے گئے ۔ محمد خان جونیجو کے زمانے میں وزارت سے علیحدگی کے باوجود ملکی سیاست میں اُن کے اثرو رسوخ میں کمی نہ ہو سکی ۔دانیال عزیز کی سیاست میں کامیابی میں اُن کا بنیادی کردار تھا۔ چوہدری انور عزیز سیاسیات کے ساتھ ادبیات کے بھی غیر معمولی طالب علم تھے ۔ اپنی نجی مجالس میں پنجابی و انگریزی ادب کو حوالوں کے ساتھ استعمال کرکے محفل کو چار چاند لگا دیتے۔ افسوس ایسا ذہین، وسیع المطالعہ اور مجلس آرا شخص ہم سے جدا ہو گیا۔

اُن کی عمر تقریباً90برس تھی ۔ چوہدری انور عزیز کی وفات کے دو دن بعد گجرات کے ممتاز سیاستدان اور سابق وزیر دفاع چوہدری احمد مختار بھی اپنی خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔ انھوں نے ساری عمر پیپلز پارٹی کی خدمت اور وابستگی میں گزار دی ۔ ایک بار متنازع انٹرویو دے کر ملک بھرمیں ہلچل بھی مچا دی تھے لیکن پھر سنبھل گئے۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی آمریتوں کا انھوں نے مردانہ وار مقابلہ کیا اور سرخرو رہے ۔ چوہدری مختار مرحوم محترمہ بے نظیر بھٹو کے بھی معتمدِ خاص رہے۔

کئی بار اختلافات بھی ہُوئے مگر پیپلز پارٹی کا مسلسل ساتھ اور اثاثہ بنے رہے ۔ ضلع گجرات اور ضلع نارووال کے دو چودھریوں کی آگے پیچھے وفات نے ملکی سیاست کی اداسی میں اضافہ کر دیا ہے۔ ابھی ان اموات کی بازگشت تھمی بھی نہ تھی کہ ’’نیب‘‘ کے سابق سربراہ ایڈمرل (ر) فصیح بخاری بھی اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں ۔ بخاری صاحب نے ’’نیب‘‘ کا چارج اُس وقت سنبھالا تھا جب ملک عجب آزمائشوں سے گزررہا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان سب گزرنے والوں کی بخشش فرمائے ۔ (آمین )

اِنہی اموات کے دوران یہ خبر بھی آئی کہ سابق وزیر اعظم پاکستان جناب نواز شریف اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف کی والدہ صاحبہ( بیگم شمیم) لندن میں انتقال کر گئی ہیں ۔ اُن کی عمر 90سال کے قریب تھی ۔ نواز شریف بیماری اور سیاست کے ہاتھوں مجبور ہو کر لندن چلے گئے تو چند دنوں بعد اُن کی والدہ صاحب بھی لندن تشریف لے گئیں حالانکہ وہ خاصی بیمار بھی تھیں۔ بیگم شمیم صاحبہ مرحومہ ایک خوش قسمت خاتون تھیں۔

وطنِ عزیز کے ایک ممتاز صنعتکار اور دولتمند شخص کی اہلیہ ۔ ایک بیٹا ملک کا تین بار وزیر اعظم منتخب ہُوا اور دوسرا صاحبزادہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کا دوبار وزیر اعلیٰ بنا ۔ مرحومہ کی پہلی نمازِ جنازہ لندن ہی کے ایک معروف اسلامک سینٹر میں ادا کی گئی اور دوسری شائد کل لاہور میں ادا کی جائے گی ۔

جس وقت وفات کی یہ خبر نشر ہُوئی ، عین اُس وقت مریم نواز شریف پشاور میں ’’پی ڈی ایم‘‘ کے جلسے سے خطاب کرنے والی تھیں ۔ خبر سُن کر انھوں نے صرف چند الفاظ ادا کیے اور اسٹیج سے اُتر گئیں۔ محترمہ مریم نے دادی جان کی خبر بروقت نہ پہنچائے جانے پر حکومتی اہلکاروں سے شکوہ بھی کیا ہے، جب کہ جواب میں شہباز گل ایسے حکومتی ترجمانوں کا کہنا ہے کہ ’’یہ حکومت کا کام ہی نہیں تھا۔‘‘

افسوس کی بات ہے کہ نواز شریف کی والدہ ماجدہ کی موت پر بھی مبینہ طور پر ملک میں سیاست کاری کی گئی۔ ہم اخلاقی اعتبار سے کہاں پہنچ گئے ہیں؟ سیاسی جبر اور حالات کی نزاکت کے تحت نواز شریف لندن سے لاہور آ کر اپنی والدہ صاحبہ کو قبر میں اتارنے اور اُن کا آخری دیدار کرنے سے بھی محروم ہیں۔ مریم نواز شریف نے بھی ایک انٹرویو اور ایک ٹویٹ کے ذریعے اپنے والد صاحب کو یہی مشورہ دیا کہ والدہ کے جنازے کو کندھا دینے لاہور نہ آئیں۔ اس بیان پر مریم نواز کے مخالفین نے بہت تنقید کی ہے۔مریم نواز کو جو منظر نظر آرہا ہے، شاہد وہ دوسروں کی نظروں سے اوجھل ہو۔

سیاست و اقتدار کے لیے انسان کو کتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، اس کا اندازہ ہم شریف خاندان پر چھائی حالیہ آزمائشوں سے لگا سکتے ہیں۔ نواز شریف لندن سے پاکستان نہ آئے تو لندن ہی میں براجمان نواز شریف کے دونوں صاحبزادگان (حسین نواز اور حسن نواز) اور شہباز شریف کا بیٹا (سلمان شہباز ) بھی مرحومہ دادی کا آخری دیدار کرنے پاکستان نہ آ سکیں گے۔

لندن ہی میں پناہ یافتہ نواز شریف کے سمدھی اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی بیگم شمیم مرحومہ کے جنازے میں شریک نہیں ہو رہے ۔ اس سے قبل نواز شریف اپنے والد صاحب مرحوم (میاں محمد شریف)کو بھی اپنے ہاتھوں سے لحد میں نہیں اتار سکے تھے ۔چونکہ شہباز شریف اور اُن کے صاحبزادے حمزہ شہباز لاہور جیل میں تھے، اس لیے حکومتِ پنجاب نے شریف فیملی کی درخواست پر دونوں باپ بیٹا کو پانچ دن کے پیرول پر رہا کرنے کی منظوری دی ہے(شریف فیملی نے 14روزہ پیرول کی درخواست کی تھی) تاکہ میاں شہباز شریف اپنی والدہ مرحومہ اور حمزہ شہبازاپنی دادی جان کی آخری رسومات میں شرکت کر سکیں۔ بڑے بھائی صاحب کی عدم موجودگی میںاب شہباز شریف ہی کو ان پانچ ایام میں تدفین اور بعد از تدفین کی رسوم میں شرکت کرنا ہے ۔ یہ مناظر عجب افسردگی کا ماحول پیدا کررہے ہیں ۔

ایسے میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات ، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، کا کہنا ہے :’’ عثمان بزدار صاحب نے  انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر شہباز شریف اور حمزہ شریف کو پانچ دن پیرول پر رہائی دینے کا فیصلہ کیا ۔ یہ ایک غیر معمولی اور خصوصی فیور ہے جو ہرقسم کی سیاست سے بالاتر ہو کر انسانی ہمدردی میں دی ہے ۔‘‘

نون لیگ کا مگر متفقہ بیانیہ یہ سامنے آیا ہے کہ شریف برادران کی والدہ صاحبہ کے انتقال پر بھی حکومت انتقام لینے سے باز نہیں آرہی۔اس حوالے سے رانا ثناء اللہ ، عظمیٰ بخاری اور عطاء اللہ تارڑ کی آوازیں خاصی نمایاں ہُوئی ہیں ۔حکومتی حلقوں کا جوابی موقف یہ ہے کہ ’’اگر انتقام لیا جاتا تو شہباز اور حمزہ کو پانچ دن کے بجائے صرف چند گھنٹوں پر پیرول پر رہا کیا جاتا۔‘‘دیکھتے ہیں شریف برادران پر آزمائش کے یہ دن کب ختم ہوتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔