پاک ایران تعلقات میں نیا موڑ

ڈاکٹر زمرد اعوان  ہفتہ 28 نومبر 2020
گہرے تعلقات کے باوجود، دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم بہت کم رہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

گہرے تعلقات کے باوجود، دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم بہت کم رہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نومبر کے دوسرے ہفتے میں پاکستان کے دو روزہ دورے پر آئے۔ ان کے وفد میں سیاسی و معاشی ماہرین بھی موجود تھے۔ اس مختصر لیکن نہایت مصروف قیام کے دوران انھوں نے اپنے وفد سمیت پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے تفصیلی ملاقاتیں کیں اور تجارت و معاشی شراکت داری سمیت تحفظ اور خطے میں امن کے متعلق کئی موضوعات پر تبادلہ خیال بھی کیا۔

بطور وزیر خارجہ جواد ظریف کا پاکستان کا دسواں دورہ ہے، جبکہ پچھلے ڈھائی سال میں وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے ساتھ ان کا چوتھا رابطہ ہے۔ جس سے تیزی سے بدلتے ہوئے علاقائی تناظر میں ایران کےلیے پاکستان کی علاقائی، سیاسی و معاشی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ بالخصوس اس دورے کی اہمیت بیان کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ایران اور پاکستان کس طرح تاریخی، مذہبی، ثقافتی اور جغرافیائی اعتبار سے ایک دوسرے کےلیے ہمیشہ اہمیت کا سبب رہے ہیں۔

قیام کے بعد ایران پاکستان کو بطور آزاد ملک تسلیم کرنے والا پہلا ملک تھا اور اسی طرح 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران کو پاکستان کے عوام کی کلیدی حمایت حاصل ہوئی۔ اگرچہ دونوں ممالک کی مشترکہ سرحدوں (جو 959 کلومیٹر لمبی ہے) پر متعدد بار شرپسند عناصر نے حالات خراب کرنے کی کوششیں کیں، لیکن اس کے باوجود مجموعی طور پر دونوں ہمسایہ ممالک نے اسے آپس میں کشیدگی کا باعث نہیں بننے دیا اور خوش اسلوبی سے مسائل کا حل ڈھونڈا۔ ایران کا کشمیر کے موقف پر پاکستان کا بھرپور ساتھ دینا بھی دونوں ممالک کو قریب لانے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔ اسی طرح مذہبی و ثقافتی ہم آہنگی کا اگر تذکرہ کیا جائے تو ہر سال پاکستان سے 0.3 ملین زائرین ایران زیارتوں کےلیے جاتے ہیں۔ ثقافتی اعتبار سے اگر زبان کو ہی لے لیا جائے تو اردو زبان میں تقریباً 50 فیصد الفاظ فارسی سے لیے گئے ہیں۔ دونوں زبانوں کی تاریخی مطابقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ شاعر مشرق علامہ اقبال کا 60 فیصد کلام فارسی زبان میں ہی ہے۔ مذہب و ثقافت کے اس گہرے تعلق نے بھی دونوں ممالک کو قریب رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

گہرے تعلقات ہونے کے باوجود، دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم بہت کم رہا ہے۔ جس کو بڑھانے کےلیے حالیہ دورے کی اہمیت قابل ذکر ہے۔ مشترکہ اعلامیہ کے مطابق دونوں ممالک کے مابین تجارت کے فروغ کےلیے اہم ترین اقدامات، جس میں پاک ایران سرحد پر نئے بازار کھولنے کے منصوبے اور لوگوں کی سہولت کے ساتھ آمدورفت بڑھانے کےلیے سرحدی بازار اور مختلف کراسنگز کھولنے کے فیصلے شامل ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان نے رمدان گبڈ اور پشین مانڈ کراسنگ کھولنے کا، جبکہ ایران نے اگلے ہفتے رمدان کراسنگ پوائنٹ کھولنے کا اعلان کیا، جو اس کے سیستان اور بلوچیستان صوبے میں واقع چاہ بہار بندرگاہ سے تقریباً 130 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کے مابین سرحد کا نام ’’امن، دوستی اور محبت کی سرحد‘‘ رکھنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

امید کی جاتی ہے کہ ان تمام اقدامات سے دونوں ممالک کے مابین تجارت کا حجم بڑھے گا، جو اس وقت مجموعی طور پر 392.08 امریکی ڈالر ہے، جس میں پاکستانی برآمدات محض 22.86 ملین ہیں۔ البتہ کوئی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ یہ تجارتی حجم صرف تب بڑھ سکتا ہے جب تجارتی راستوں کو بہترین تحفظ پہنچایا جاسکے۔ اسی لیے دونوں ممالک کی فوجی قیادت مشترکہ سرحد پر سیکیورٹی کے بہترین انتظامات سے متعلق مستقل رابطے میں ہیں اور ان انتظامات کو بہترین درجے پر لے جانے کی سعی کررہی ہیں۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ سیکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے کئی رخنے پیدا ہوئے اور دونوں ممالک اس سطح پر تحفظ کو یقینی نہیں بنا سکے جس سے تجارت سمیت دیگر سرحدی کاروبار پھل پھول سکیں۔

معاشی اور سیاسی بہتری کے علاوہ ایرانی وزیر خارجہ کا یہ دورہ پاکستان علاقائی اہمیت کا بھی حامل ہے۔ اس وقت امریکا میں الیکشن ابھی اختتام پذیر ہوئے ہیں، جس میں سابقہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست ہوئی ہے (اگرچہ وہ اسے ماننے سے انکاری ہیں)۔ ٹرمپ کے دور حکومت میں امریکا کی ایران کے ساتھ 2018 میں جوہری معاہدے سے یکطرفہ انخلا اور ظالمانہ معاشی پابندیوں نے نہ صرف خطے کے سکون کو برباد کیا بلکہ ایران کے معاشی مفادات کو بھی شدید ضرب پہنچائی۔ پاکستان سمیت کئی ممالک نے تجارتی و معاشی معاہدات امریکا کی پابندیوں سے خائف ہوکر ملتوی کردیے۔ جبکہ پاکستان اور ایران کے درمیاں گیس پائپ لائن کا معاملہ التوا کا شکار ہوا۔ امید کی جاسکتی ہے کہ جوبائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد نہ صرف امریکا کی ایران کی جانب یکطرفہ اور نفرت انگیز حکمت عملی کا خاتمہ ہوگا بلکہ توقع کی جارہی ہے کہ مشرق وسطیٰ اور خلیجی ممالک کے متعلق امریکی حکمت عملی میں ایران کےلیے قدرے بہتری کا امکان پیدا ہوگا۔ اس کے علاوہ ایران اب افغانستان کے امن مذاکرات میں اپنا کردار ادا کرسکے گا۔ اس پس منظر میں بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ پاکستان اور ایران مل کر ایک مشکل صورت حال پر قابو پالیں گے۔ اس کے پیچھے یہ سوچ ہے کہ امن کا ہر معاہدہ متعلقہ سیاسی طاقتوں کے باہمی اتفاق و رضامندی سے ہی ہونا چاہیے۔

دوسری جانب پاکستان، جس پر سعودی عرب اور چند خلیجی ریاستیں مستقل ترکی، ایران اور ملائیشیا سے متعلق تعلقات پر منفی دباؤ ڈالتی رہی ہیں، کا اثر بھی قدرے کم ہوتا نظر آرہا ہے۔ یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ یہ تینوں ممالک کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے موقف کی حمایت، جبکہ فلسطین و اسرائیل کے تنازع میں بھی مشترکہ سوچ کے حامل ہیں۔ جبکہ سعودی عرب پاکستانی قیادت کی گزارش کے باوجود کشمیر پر او آئی سی کا اجلاس بلانے سے گریزاں رہا۔ اس بدلتے عالمی و علاقائی منظرنامے میں جہاں امریکا میں شدت پسند قیادت کا خاتمہ ہورہا ہے اور خلیجی ممالک کے اسرائیل کے بارے عزائم بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ پاکستان اور ایران کےلیے یہ نادر موقع ہے اپنے ان منصوبوں کو پورا کرنے کا جو ایک عرصے سے تعطل کا شکار ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تاریخی موقع سے دونوں ممالک کس حد تک باہمی معاشی و علاقائی فوائد حاصل کرسکتے ہیں، جو خاص طور پر کورونا کے باعث سنگین صورت حال اختیار کرچکے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔