کوہِ کرانہ: اپنی بقاء کی جنگ لڑتا عظیم تاریخی ورثہ

حاجی احمد نعیم  اتوار 29 نومبر 2020
قبل از تاریخ کے انسانی آثار رکھنے والی پہاڑیوں کو کر شر مشینوں سے ریزہ ریزہ کیا جا رہا ہے

قبل از تاریخ کے انسانی آثار رکھنے والی پہاڑیوں کو کر شر مشینوں سے ریزہ ریزہ کیا جا رہا ہے

’’اوئے گِدڑو! ۔۔۔آئو۔۔۔آئو‘‘                   ’’اوئے گِدڑو! ۔۔۔آئو۔۔۔آئو‘‘

یہ آواز تھی ایک فقیر کی جو صدیوں پہلے کرانہ پہاڑی کے اوپر قائم جوگیوں کی ایک خانقاہ کا مرید تھا اور اپنے جوگی پیر کی ہدایت پرہر روز روٹی کے ٹکڑے آس پاس کے جنگل میں رہنے والے گیدڑوں کو ڈالتا تھا۔

’’دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ یہ آواز سنتے ہی گیدڑ اپنے ٹھکانوں سے ایسے نکل کر آتے جیسے چشمے سے پانی ابل پڑا ہو۔تیس پینتیس گیدڑبجلی کی طرح جوگی کی طرف لپک کر آتے اور جونہی روٹی کا ٹکڑا منہ میں آتا اسی برق رفتاری سے واپس چلے جاتے۔ ‘‘ کرانہ کی یہ نقشہ کشی ضلع جھنگ کے انگریز ڈپٹی کمشنرنے آج سے ڈیڑھ سو سال قبل کی تھی۔

گیدڑ آج بھی کرانہ بار یاتحصیل سلانوالی کے علاقہ میں موجود ہیںلیکن انہیں روٹیاں ڈالنے والا فقیر اور نہ ہی وہ جنگل رہا ۔۔وہ  بار نہیں رہا جس میں پیلو، کریر،بیری اورآک کے پودے ہوا کرتے ،جن میں کالا ہرن، پاڑہ، چنکارہ، بھیڑیا، لومڑیاں اور خرگوش چوکڑیاں بھرا کرتے ۔ کوبرا،کرونڈیا، سنگ چور پھنکارا کرتے اور تیتر، بٹیر اورطوطے چہچہایا کرتے۔پھر سلانوالی کا شہر اور گردو نواح کے چکوک اس خطے کے نقشے پر ابھرے۔انسان ، دیواریں، مکان، اوزار، ہل اور پنجالی آتے گئے اور جوگی ،گیدڑ، چنکارہ، پیلو اور کریر غائب ہوتے گئے۔

کرانہ کی پہاڑیاں جنہیں کیرانہ یاکوہ کڑانہ بھی کہا جاتا ہے ، تحصیل سلانوالی ضلع سرگودھا  میںکرہ ارض پر32.0836° N   اور   72.6711° E کے درمیان واقع ہیںجو سرگودھا کے چک 11جنوبی سے لیکر چنیوٹ تک تقریباً 50کلومیٹر کے علاقہ میں پھیلی ہوئی ہیں لیکن ان کا بڑا حصہ تحصیل کے شمال مشرق میں پھیلا ہوا ہے۔ سلانوالی کی تاریخ کوہ کرانہ کی تاریخ کے بغیر نامکمل ہے۔کیونکہ یہ پہاڑیاں اور تحصیل سلانوالی کے میدان، ریت کے ٹیلے اورپانی کے تالاب ( سر) تقریباًسب ہم عمر ہیں۔

وجہ صرف یہ ہے کہ اس خطہ کی تاریخ کے اندر کسی نے جھانکنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کیونکہ راجہ پورس اورسکندر اعظم کی جنگ یہاں نہ ہوئی، بابر یہاں سے بیسیوں کوس دور بھیرہ سے ہوتا ہوا آگے چلا گیا، اس کی نظر اگر کرانہ کی خشک پہاڑی پر پڑی بھی تو اس کے ذہن کے پردے پر نقش کلر کہار کے سبزے نے اسکا منہ دوسری طرف پھیر دیا۔مورخین کے قلم بھی بھیرہ، میانی،جہلم ، مڈھ رانجھا کے پانیوں میں ہی ڈبکی لگاتے رہے ۔

لیکن یہ کرانہ اتنا خشک اور بنجر بھی نہیں۔ اس کی چٹانوں نے بھی سکندر اعظم کے سپاہیوں کے قدم دیکھے۔راجہ بھرتری کے جوگ کا مزا لیا،سلطنتِ کشان کا سکہ چلتے دیکھا،بدھ مت کی دوسری یونیورسٹی اوجیان کوعلم کی شمع جلاتے دیکھا، اورنگ زیب کے سگے بھائی کو میاں حبیب ننگیانہ کالنگربانٹتے دیکھا اور کھوکھروں کو یہاں سے نکل کر لاہور کا تخت سنبھالتے دیکھا ۔  یہ پہاڑ اور یہ میدان اونچے تھے۔چناب اورجہلم کے پانی یہاں تک پہنچ نہ پائے اس لیے مورخ کا قلم بھی صرف چنہاں اور ویہت کے کنارے کنارے چلتا رہا۔پھر بھی یہ لازم تو نہیں کہ کسی مورخ کی نظر ادھر نہیں پڑی تو یہاں تاریخ نے جنم ہی نہیں لیا؟تاریخ تو لاکھوں،ہزاروں، سینکڑوں سال بعد بھی کسی زمین کو پھاڑ کے سر اٹھا سکتی ہے۔

جیسے مصر کی تاریخ پانچ ہزار سال بعد بھی کبھی اِس ٹیلے اور کبھی اُس ٹیلے کی کوکھ سے منہ نکال کھڑی ہوتی ہے۔ کرانہ کی تاریخ بھی پہلے نہیں تو اب سہی۔تاریخ تو ایک حقیقت ہے جو چاہے اربوں سال زمین میں چھپی رہے ،سامنے تو اس وقت آتی ہے نا جب میری طرح کاکوئی سرپھرا لندن اورکلکتہ کی کسی لائبریری،ضلع جھنگ کے کسی محافظ خانے اورلیپ ٹاپ کی سکرین پر پھیلی سائبر ورلڈ کی خاک چھانتا ہواکوٹ سلطان کے میاں کمال تک جا پہنچتا ہے۔

زمانے کی سیپیوں میں بند اپنی مٹی سے جڑی تاریخ کے ایک ایک موتی کو نکالتا ہے ، تصدیق اور اعتبار کی کسوٹی پر رگڑتا ہے، جب سُچا پاتا ہے تو تاریخ کی مالا کا حصہ بنادیتا ہے۔کرانہ کی تاریخ کھوجتے وقت مجھے اتنی ہی ریاضت، محنت اور صبر سے گذرنا پڑا لیکن کرانہ سے میرے عشق اور محبت کی داستان کچھ سال کم نصف صدی کا قصہ ہے۔1976ء کے اولیںاپریل کی ایک صبح جب میری ماں نے دس سالہ بیٹے کے کندھے پر بستہ لٹکایا اور دعائوں کے ساتھ روانہ کیا۔

چک نمبر129 شمالی کے مشرق میں گندم کی جواں فصل کے درمیان باریک پگڈنڈیوں پر قدم گورنمنٹ ہائی سکول سلانوالی کی طرف بڑھایا۔راستے میں بچھی ستر سال پرانی ریل کی پٹڑی پراحتیاط سے پائوں رکھ کے جب نظر اٹھائی تو سامنے دور ،ریل کی دونوں پٹڑیوں کے ارد گرد اونچے سبز درختوں کی دور جاتی قطار اور درمیان سے ایک نیلی سی مخروط کواستقبال کرتاپایا، میرے لیے بالکل ایک نئی چیز۔ساتھ چلتے ہمسفر سے پوچھا، وہ کیا ہے؟ جواب ملا ’’یہاں سے دس میل دورکرانہ کی پہاڑی ہے۔ بہارکی اتنی خوبصورت صبح اورکرانہ پہاڑی کا اتنا دلکش منظر، نصف صدی کے بعد بھی میرے ذہن میںاسی طرح ترو تازہ اور واضح ہے۔یہ تھا کرانہ اور یہی ہے کرانہ۔اسی کی داستان ہے اور اسی کی تاریخ ہے۔

کرانہ پہاڑی کی تاریخ کے حوالے دو طرح سے ملتے ہیں۔ پہلا حوالہ ماہر ارضیات کی تحقیق پر مبنی ہے جبکہ دوسرا رامائن ،مہا بھارت یا ہندووں کی تاریخی اور مذہبی کتب سے ماخوذ ہے۔معروف ماہر ارضیات آر۔ جی ۔ڈیوس کی تحقیق کے مطابق کرانہ پہاڑیوں کی اندازاً عمر تقریباً 87کروڑ سال ہے اور ان کا زمانہء تخلیق پری کیمبرین دور سے متعلق ہے ۔ انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا کے مطابق پری کیمبرین دور تقریباً چار ارب ساٹھ کروڑ سال یعنی زمین کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہوتا ہے۔

دوسرے حوالہ جات چونکہ ہندئووں کی مذہبی کتب میں موجود ہیں اس لیے انہیں محض روایات پر مبنی قرار دیا جا سکتا ہے ۔ ان کی حقیقت کو پرکھنے کا کوئی ٹھوس تاریخی پیمانہ موجود نہیں ہے۔ تاہم چونکہ مذہبی حوالہ جات بھی کسی حد تک قدیم تاریخ کو بیان کرتے ہیں اس لیے ان کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا۔

رانا فیصل جاوید(2018ء( لکھتے ہیں کہ ’’ یہ پہاڑیاں کیسے وجود میں آئیں، اس بارے میں ہندو مت کے پیروکاروں کا عقیدہ اپنے دیوی ، دیوتائوں، یودھائوں اور اوتاروں سے جا ملتا ہے۔ہندو عقیدے کے مطابق ان پہاڑوں کاتعلق رام اور سیتا کی ’’رامائن‘‘سے ہے جس کے مطابق رام چندر بھگوان کا ساتواں اوتار تھا۔اس دور کے ظالم، جابر اور بدقماش سمجھے جانے والے سری لنکا کے راجا  ’راون‘ کی طاقتور بہن ’’ شرپناکھ ‘‘(Shurpanakha) رام کی محبت میں گرفتار ہو گئی اور رام کو اپنے بھائی کے جاہ و جلال کے بل بوتے پر دبائو میں لا کر شادی کرنا چاہی لیکن رام سیتا سے پیار کرتا تھا۔

اس نے سیتا سے شادی کر لی جس پرشرپناکھ نے رام سے بدتمیزی کی اور سیتا کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جس پر رام نے اس کی ناک کاٹ ڈالی(مقامی زبان میں بے حیا اور بے عزت عورت کے لیے ’’نک وڈھی‘‘ یعنی ناک کٹی کا محاورہ بھی عام استعمال ہوتا ہے اور کرانہ بار کے مقامی لوگ آج بھی بدقماش یا بد چلن عورت کو پناکھ یا بھناکھ کہتے ہیں۔ )۔راون انتقاماً سیتا کو اٹھا کر سری لنکا لے گیا اور ایک محل میں قید کردیا۔رام ایک عرصہ تک سیتا کو تلاش کرتا رہا ۔بالآخر اسے معلوم ہوا کہ راون نے سیتا کو سری لنکا کے ایک محل میں قید کر رکھا ہے جہاں پہنچنا ناممکن حد تک مشکل تھا۔

اس مشکل کو آسان کرنے کے لیے رام کا بھگت یعنی مرید ’ہنومان‘ آگے بڑھا ۔ راون کا ایک باغی بھائی بھیشن (یا ببھیشن) بھی انکے ساتھ مل جاتا ہے اور محل کے اندرونی رازوں اور راون کی کمزوریوں کے بارے میں انہیں آگاہ کرتا ہے (یہیں سے ضرب المثل ’’ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے‘‘ وجود میں آئی )۔اب رام، لکشمن اور ہنومان فوج تیار کر کے سیتا کو آزاد کرانے کے لیے آگے بڑھتے ہیں لیکن انہیں سمندر عبور کرنے کے لیے پل کی ضرورت ہوتی ہے۔ہندئووں کی مختلف کتب میں درج ہے کہ رام نے ہنومان کو حکم دیا کہ وہ پتھروں کا پل بنائے۔

ہنومان بہت طاقتور تھا جس کے پاس اڑنے اورجسم کو ضرورت کے مطابق بڑاکرنے کی طاقت موجود تھی۔ہنومان کوہ ہمالیہ پہنچا اور وہاں سے بڑے بڑے پہاڑ اٹھا کر لایا تاکہ بھارت اور لنکا کے مابین سمندر میں رکھ کر فوج کے لیے گذرگاہ بنائی جا سکے۔وہ بار بار ہمالیائی پہاڑ اٹھا اٹھا کر لاتا ۔ اس دوران اس کے ہاتھ سے کچھ پہاڑیاں راستے میں گرتی رہیں ۔ہندوراویوں کے مطابق کرانہ کی پہاڑیاں بھی انہی میں سے ایک ہیں جو ہنومان کے ہاتھ سے گرتی رہیں۔‘‘

کچھ ماہرین ان پہاڑیوں کو ہمالیہ کے بچے بھی کہتے ہیں۔پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ (انڈیا) کے پروفیسر ناریش کوچھر کے مطابق بھارت کی ریاست جودھپور میں واقع کوہ میلانی(Malani)،  وہاں سے400کلومیٹر دور شمال مشرق میں ضلع حصار (انڈیا) کے کوہ ارولی (Aravalli)  اور میلانی سے450کلومیٹرشمال مغرب میں کوہ کرانہ (ضلع سرگودھا) کی ساخت ایک جیسی ہے۔

یہ محض اتفاق ہے  یا شایدحقیقیتاً اس کا رامائن کی کہانی سے کوئی تعلق بنتا ہو کہ یہ تینوں پہاڑی سلسلے ہمالیہ اور سری لنکا کے راستے میں پڑتے ہیں۔اگر ہم کرانہ نام پر غور کریں تو اس علاقے میں اب بھی پنجابی کا لفظ کیرنا بمعنی گرنا استعمال ہوتا ہے۔ جیسے کیرے کے مالٹے، خود بخود گرنے والے کچے آم کو کیری کہتے ہیں اور آگ میں جلنے والی لکڑیوں سے الگ ہو کر گرنے والی راکھ کو بھی کیری کہتے ہیں۔ اس حوالے سے رامائن کی اس کہانی کو مدنظر رکھا جائے تو یہ باور کرنا قرین قیاس ہے کہ اس وقت کے ہندوئوں نے ان پہاڑیوں کا نام کیرانہ(کیری آنہ یعنی گرنے والی جگہ) رکھ دیا یا ان روایات کی روشنی میں اس کا یہ نام مشہور ہو گیا۔

اس طرح ان پہاڑیوں کی ایک ٹھوس وجہء تسمیہ سامنے آتی ہے۔راقم کے خیال میںدوسری وجہ تسمیہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس پہاڑی کی چوٹی پر جوگیوں کا ٹھکانہ تھا جنہوں نے خانقاہ بنائی اور وہاںہر وقت آگ بھی جلائے رکھتے تھے۔ ہندو جوگیوں کا راکھ یعنی کیری کے ساتھ خاص تعلق ہے جو اسے جسم پر بھی ملتے رہتے ہیں۔ لہٰذا جس طرح کہ آج بھی اس علاقے یعنی چج دوآب کے متعدد دیہات اور شہروں کے ناموں کے ساتھ ’آنہ ‘ کا لاحقہ آتا ہے جیسے منگوآنہ،رمدی آنہ (رمدانہ)، سندری آنہ (سندرانہ) ،اسی طرح کرانہ پہاڑی کو ہو سکتا ہے۔

اس وقت کے باشندے ’کیری آنہ (کیرانہ) کہتے ہوں جہاں آشرم میںہر وقت آگ جلتی تھی اور راکھ نظر آتی تھی۔ بہرحال روایات کے مطابق رام اسی پل کے ذریعے سری لنکا گیا، راون کو جنگ میں ہلاک کیا اور سیتا کو واپس اجودھیا (Ajudhia)لے آیا ۔بلاگر رانا فیصل جاوید کے راوی دوست اور محقق رانا محمد احمدکے مطابق ’’ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہنومان کا تاریخی مندر کرانہ پہاڑیوں کے دامن میں واقع تھا۔ یہ مندر پہاڑیوں میں کس جگہ ہے؟ یہ مندر تھا بھی نہیں؟ اس حوالے سے کوئی ٹھوس شواہد مجھے نہیں مل سکے۔‘‘ بہرحال یہ قصے کہانیاں اور روایتی باتیں ہیں حقیقت کا حال اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔

سونیا ملک(2011)  نے دعویٰ کیا ہے کہ کرانہ پہاڑیوں سے بدھ مت اور کشان دور کے آثار ملے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس علاقہ میں بہت پہلے سے آبادی موجود تھی۔ان کے مطابق ’’ کرانہ پہاڑیوں سے سونے کا ایک سکہ ملا ہے جو کشان سلطنت کے دور کا ہے۔سکے پر ایک دیوی کی تصویر ہے جو اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔

محکمہ آثار قدیمہ کے ڈپٹی ڈائریکٹرافضل خان نے بتایا کہ اس سکے کا موازنہ لاہور اور ٹیکسلا کے عجائب گھروں میں رکھے سکوں سے کیا گیا ہے۔ افضل خان کے مطابق  ’’ 1995ء میں کرانہ پہاڑیوں پر کھدی ہوئی گھوڑے اور سوار کی تصویریں بھی ملی ہیں جن کا تعلق سکندرِ اعظم کی یہاں آمد سے جوڑا جا سکتا ہے (تصویر1)۔ ایک قدیم عمارت کے آثار کو ماہرین نے بدھ مندر کی باقیات کہا ہے۔ نو ایکڑ کے رقبے میں تلاش سے پتھر،مٹی کی پکی اینٹیں اور برتن اور انسانی و حیوانی ہڈیاں ملی ہیں۔

متعدد دائروں کی شکل میں چٹانوں پر کندہ تصاویر ملی ہیں جو 300سال پرانی لگتی ہیںجو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ کرانہ کے باسیوں کا تعلق بدھ مذہب سے تھا۔‘‘ یہاں سے دیگر ملنے وا لے خاکے ہاتھیوں، شطرنج، بحری جہاز اور پھولوں کے ہیں۔ سونیا کے مطابق کچھ مورخین کا خیال ہے کہ بُدھ مذہب کی گمشدہ اوجان (Ojan) یا اُوجیان یونیورسٹی جوجولیان یونیورسٹی ٹیکسلا کی ہم عصر تھی، وہ بھی کرانہ کی پہاڑیوں میں کہیں قائم تھی۔

اس وقت کرانہ پہاڑی کی چوٹی پرپاکستان ایئر فورس کی تنصیبات کی وجہ سے وہاں عام انسان کا جانا مشکل ہے تاہم جن لوگوں کو کرانہ پہاڑی کی چوٹی پر جانے اور وہاں رہنے کا اتفاق ہوا ہے وہ بتاتے ہیں کہ وہاں خانقاہ  یاکسی عبادت گاہ وغیرہ کے آثار تھے۔مصنف کے گائوں کے رہائشی مہر محمد صدیق پاک فضائیہ میں ملازم تھے ۔

سرگودھا ایئر بیس پر تعیناتی کے دوران انہیں کرانہ پہاڑی کی چوٹی پر ڈیوٹی دینے کا موقع ملا۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہاں واقعی ایک مزار یا خانقاہ موجود ہے۔ انکے ایک سینئر چیف وارنٹ آفیسر ریٹائرڈ محمد شیر کو 1982ء تا1984وہاں ڈیوٹی دینے کا موقع ملا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ’’شروع میں ہم کرانہ پہاڑی کی چوٹی پر گئے تو وہاں پرانی طرز کے 16’x16′ سائز کے سات کمرے موجود تھے جنکی پشت مشرق کی جانب تھی۔ ان کمروں میں ایئر فورس نے اپنے دفاتر قائم کر رکھے تھے۔وہیں ایک 6’x6’کا مندر بھی تھا جس کے اندر ہندو دیوی دیوتائوں یعنی رام، ہنومان، سیتا وغیرہ کی نہائت نفیس تصاویراور نیلے رنگ کے پھول کندہ تھے۔

ان میں باقاعدہ رنگ بھرے ہوئے تھے۔چوٹی پر ہموار جگہ کا رقبہ تقریباً دو کنال ہے جس کے ارد گرد اُس وقت چار فٹ چوڑی چار دیواری کی باقیات تھیں اور نہائت بھاری لکڑی کا دروازہ تھا جسے ہم کئی جوان مل کر کھولتے یا بند کرتے تھے جس کی اونچائی دس فٹ اور چوڑائی بارہ فٹ تھی۔

واضح نظر آتا تھا کہ یہ کسی قلعہ نما عمارت کی چار دیواری تھی۔ پہاڑی کے دامن سے مندر تک تقریباً تین فٹ چوڑی متعدد سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں جن کے ذریعے لوگ اوپر آتے تھے۔ مقامی لوگ بتاتے تھے کہ یہاں ہر سال میلہ لگتا تھا جو ایئر فورس کے قبضے کے بعد نیچے پہاڑی کے دامن میں لگتا رہا ۔1997ء میں جب میری دوبارہ وہاں تعیناتی ہوئی تو سب کچھ گرا کر نئے کمرے اور دفاتر بنا دیے گئے تھے جبکہ مندر اب بھی موجود تھا۔‘‘ محمد شیر کے بقول روایت مشہور تھی کہ اورنگ زیب عالمگیر کا ایک بھائی شاہ شجاع بھاگ کر یہاں پناہ گزین ہو گیا تھا اور طویل عرصہ تک یہیں رہا۔یہی بات دھریمہ کا  ننگیانہ خاندان بھی کرتا ہے کہ چک نمبر66شمالی دھریمہ میں ایک قبر شاہ شجاع کی ہے۔اس بات پر کسی حد تک یقین کیا جا سکتا ہے کیونکہ کرانہ پہاڑی کی چوٹی ایک گمنام جگہ تھی اور وہاں ہندو جوگیوں کا ٹھکانہ تھا۔

گزیٹئر آف جھنگ 1883ء میں بھی کرانہ کے جوگیوں کی باقاعدہ تعداد ملتی ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس گدی کے پیروکار افغانستان اور بلوچستان تک پھیلے ہوئے تھے۔ہو سکتا ہے کہ شاہ شجاع وہاں آکر اپنی شناخت بتائے بغیر مقیم رہا ہو۔ننگیانہ خاندان کے قبر والے دعوے کو دیکھا جائے تو اس کا تعلق بھی اس روایت سے نظر آتا ہے کیونکہ انگریز سرکار نے سرگودھا اور گردو نواح کا رقبہ ننگیانہ خاندان سے ہی خریدا تھا جو اس وقت یہاں کے نمبر دار تھے۔صاحبزادہ عبدالرسول (2006) کے مطابق شہاہجہان کے دور میں ایک کھوکھرسردار نے کرانہ کے اوپر اپنا ہیڈ کوارٹر قائم کیا اور ایک گائوں کی بنیاد رکھی جسے ’’بڑا چک ‘‘کہا جاتا تھا5۔اس سے ثابت ہوا کہ دیہات کے لیے پہلے بھی یہاں ’چک‘ کا لفظ بولا جاتا تھا ۔

جب انگریز سرکار نے نہر لوئر جہلم کینال کالونی بسانے کا ارادہ کیا تو اس وقت اس جگہ کا نمبر دار دھریمہ کا دیوان علی ننگیانہ تھا اور گائوں کا نام اس کے والد میاں جلال خان ننگیانہ کے نام پر جلال آباد کہلاتا تھا(قاضی محی الدین، سرگودھا میرا شہر)۔انگریزوں نے اس وقت یہ زمین ایک روپیہ فی ایکڑ کے حساب سے خریدی تھی (ملک جاوید گھنجیرا، پُھل کڑانہ بار دے، صفحہ41)۔صاحبزادہ عبدالرسول نے بڑی تفصیل سے اس روایت کو بیان کیا ہے اور اس کو ہر پہلو سے جانچ پرکھ کر یہ نتیجہ نکالا ہے کہ شاہ شجاع کی یہاں موجودگی بعید از قیاس نہیں۔

ان کے مطابق ننگیانہ خاندان کے پاس اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے کوئی تحریری ثبوت نہیں اوراس دعویٰ کی بنیاد سینہ بسینہ چلنے والی روایت پر ہی ہے تاہم اس روایت کا موازنہ دوسرے تاریخی شواہد کے ساتھ کیا جائے تو ننگیانہ خاندان کا دعویٰ سچ مانا جا سکتا ہے کیونکہ اور کسی جگہ شاہ شجاع کی قبر یا موت کا ثبوت نہیں ملتا۔

صاحبزادہ عبدالرسول  دھریمہ میں مقیم ننگیانہ خاندان کے سب سے بڑے فرد میاں خدا بخش ننگیانہ سے ملے اور ان کا انٹرویو کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ’’ ہمارے جد امجد میاں حبیب سلطان ’’نانگہ‘‘ قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اس لیے ان کی گوت ننگیانہ یعنی ننگے آنہ مشہور ہو گئی۔ وہ اپنی ذہانت اور فراست کی وجہ سے شاہجہان کے دور میں دہلی کے قاضی بن گئے۔شاہجہان کی وفات کے بعد جب تخت کی جنگ چھڑی تو وہ یہاںآ کر کرانہ پہاڑی کی چوٹی پر گوشہ نشین ہو گئے۔ارد گرد کے لوگ متاثر ہو کر ان کے پاس منت مراد کے لیے آنے لگے۔

جب شاہ شجاع اپنے بھائی اورنگ زیب سے شکست کھا کر بھاگا تو وہ کرانہ کے قریب پہنچا۔اس نے چوٹی پر مقیم بزرگ یعنی میاں حبیب سلطان کے بارے میں سنا تو ان کا مرید بن گیا اور باقی زندگی یہیں گمنامی میںگذاردی۔ شاہ شجاع نے خانقاہ کا نظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔اس نے کرانہ پہاڑی اور شاہ پور کے درمیان واقع سارا علاقہ خانقاہ کی جاگیر قرار دے دی جس میں اس وقت بسنے والے لک، میکن اور ٹوانہ قبائل میاں حبیب کے مرید تھے اور انہوں نے اس پر کوئی اعتراض نہ کیا۔

شاہ شجاع نے بڑے پیمانے پرلوگوں کے لیے لنگر جاری کیا۔ہر اذان کے بعد نقارہ بجایا جاتا جو کہ مغل شہنشاہوں کی منفرد روایت تھی اور دہلی میں جب مغل شہزادے مسجد میں آتے تو نقارہ بجایا جاتا تھا۔اس نے خواتین کے لیے برقعہ شروع کرایا جس کی ٹوپی سرخ رنگ کی ہوتی تھی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس طرح کے سرخ ٹوپی والا برقعہ بھی مغلوں کی روایت تھی۔میاں حبیب سلطان17رمضان المبارک 1088ھ بمطابق 1678ء کو وفات پا گئے اور انہیں دھریمہ میں دفن کیا گیا۔ا نکی رسم قل عید کے روز ادا کی گئی۔ میاں حبیب سلطان کے صاحبزادہ عبدالرحمن کی تقریبِ گدی نشینی بڑی دھوم دھام سے منعقد کی گئی۔ شاہ شجاع نے اسے ہر سال عید کے موقع پر باقاعدہ میلے کا روپ دے دیا جو آج تک دھریمہ میں منعقد ہو رہا ہے۔شاہ شجاع 22رمضان المبارک 1094ھ بمطابق 1684ء کو انتقال کر گئے اور ن کی قبر بھی دھریمہ میں ہی ہے۔‘‘

اجین (Ujjain) کا راجہ بھرتری اور کرانہ پہاڑی

ہندئوو ں کی ایک دوسری روایت کے مطابق بھارتی ریاست اجین (Ujjain)کے راجہ بھرتری نے ٹِلہ جوگیاں ضلع جہلم کی پہاڑی کا ایک حصہ اٹھایا اور کرانہ کے مقام پر لاپھینکا۔ بعد ازاں اس کی چوٹی پر اپنی خانقاہ بنا کر بیٹھ گیا۔ کرانہ پہاڑی کے دو حوالے 1891ء کی انڈیا مردم شماری جلد 19 میں ملتے ہیں جو اس وقت کے صوبائی سپرنٹنڈنٹ مردم شماری مسٹر ای ڈی میکلیگن نے مرتب کی اور گورنمنٹ پرنٹنگ پریس کلکتہ نے 1892ء میں شائع کی۔اس کے صفحہ117پر تحریر ہے کہ اس وقت انڈیا میں جوگیوں یا یوگیوں کے تین بڑے مراکز ہیں۔

پہلا ضلع روہتک کا مقام بوہڑ، دوسرا ضلع جہلم کا مقام ٹِلہ پہاڑی اور تیسرا ضلع جھنگ کا کوہِ کرانہ (اس وقت کرانہ پہاڑی تک ضلع جھنگ کی حدود تھیں) ۔ ہندو روایات کے مطابق بھارتی ریاست اجین کا راجہ بھرتری ( جس کا روحانی نام  ’سِدھ وچار ناتھ‘  تھا) نے اپنی بیوی رانی پِنگلہ سے ناراض ہو کراقتدار اپنے بھائی کے حوالے کیا اور خود جوگی بن گیا۔وہ ٹلہ کے مقام پرجوگی لکشمن داس سے ملنے کے لیے آیا لیکن لکشمن داس نے اسے کھانے پینے کے لیے کچھ نہ دیا۔اس پر بھرتری نے ٹِلہ پہاڑی  کا ایک حصہ اٹھایا اور کرانہ  بارمیں لا پھینکا۔ روایات کے مطابق ٹلہ پہاڑی کے جس حصے سے بھرتری نے وہ تودہ اٹھایا وہاں اب بھی بڑا سا کھڈا موجود ہے جسے وہاں کے جوگی آنے والوں کودکھا کراس روایت کی سچائی کا یقین دلاتے ہیں۔ ٹلہ جوگیاں بہت قدیم خانقاہ ہے جس کا ذکر آئینِ اکبری میں بھی ملتا ہے ۔

جوگیوں کی ان خانقاہوں کے ساتھ حکمرانوں نے بڑی بڑی جاگیریں وقف کر رکھی تھیں جن کی آمدنی سے خانقاہوں کا نظام چلتا تھا۔ان خانقاہوں یا گدیوں کے پیروکار اس وقت (1891ء )بھی موجود تھے۔ مذکورہ مردم شماری کے وقت کرانہ کی خانقاہ کا بڑا احترام تھا اور گدی کے پیروکارافغانستان تک پھیلے ہوئے تھے۔ٹلہ کے جوگی پھُل سوامی جبکہ کرانہ کے جوگی ’جیون داس‘ کہلاتے تھے۔ کرانہ خانقاہ کا گدی نشین ’’پیر‘‘ کہلاتا تھا۔راقم یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے علاقہ میں پرانے مردوںکا ایک نام ’جیون ‘ یا’ جیونہ‘ عام ملتا ہے۔

مذکورہ بالا مردم شماری رپورٹ کے مطابق اس ٹلہ کے 25اور کرانہ گدی کے 75 جوگیوں کا اندراج ملتا ہے۔ یہ جوگی ہندئووں، سکھوں اور مسلمانوں میں یکساں طور پر احترام سے دیکھے جاتے تھے اورمختلف مذاہب کے لوگ اپنی مرادیں لے کر ان کے پاس جاتے تھے۔7

یہاں سے جو ایک اور حقیقت سامنے آتی ہے وہ یہ کہ ہمارے ہاں کا موجودہ خانقاہی نظام کا تصورشاید جوگیوں کی انہی خانقاہوں سے ماخوذ ہے جو کرانہ پر موجود تھی کیونکہ آج بھی ہمارے زیادہ تر گدی نشین پیر کہلاتے ہیں۔ اسی طرح خانقاہ ، گدی نشین ، پیراور چیلے کا تصور بھی ادھر سے ہی منتقل ہوا ہے۔  انگریز مصنف لکھتے ہیں کہ ملک کے اس حصے کے موجودہ چیف جوگی کانام پیر رتن ناتھ ہے جس کے نام کے ساتھ پشاور، جلال آباد اور کابل تک خانقاہیں منسوب ہیں۔ان خانقاہوں کے گدی نشین گوسین(Gosain) کہلاتے ہیں۔ مردم شماری رپورٹ کے مطابق راولپنڈی ڈویژن میں پیر رتن ناتھ کے 439 جبکہ ہزارہ ڈویژن میں200پیروکار موجود ہیں۔حتٰی کہ بلوچستان کے علاقہ ہِنگلاج میں بھی ان کے پیروکار موجود ہیں ۔ ٹِلہ کے جوگیوں کا ذکر قصہ ہیر رانجھا کی ہر کتاب میں ملتا ہے؛

؎؎وارث شاہ اسیں جوگی ہوئے ٹِلّیوں کن پڑوائے

ہیر سیالن لبھدے لبھدے انگ بھبھوت رمائے

ٹِلہ کے جوگی ’کن پھٹے‘ یا ’ درشنی‘ کہلواتے تھے جبکہ کرانہ کے جوگیوں کو اوگھر(Oghar)کہا جاتا تھا۔ یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہی لفظ اوگھربعد ازاں کھوکھر کا روپ دھار گیا کیونکہ کرانہ بار میں کھوکھروں کے دیہات کی کثیر تعداد موجود ہے اور ان کا ماخذ بھی انڈیا کے دیگر کھوکھروں سے مختلف ہے۔

کرانہ کا ایک اور حوالہ اسی کتاب کے صفحہ 131پر ملتا ہے اور اس کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کیونکہ یہ بھی کرانہ پر قدیمی انسانی آبادی کا ثبوت مہیا کرتا ہے۔یہ قصہ دو ہندوفقیروں ’جِندا ‘  اور ’کلیانہ‘ سے متعلق ہے ۔ اوائل سولہویں صدی عیسوی میں ’جندا‘ تحصیل جھنگ کے گائوںپیر کوٹ سدھانہ میں ایک گانی دھار(مالا پہننے والا) برہمن کی حیثیت سے رہتا تھا اور اپنی ابتدائی زندگی میں اوگھری فقیر تھا یعنی کرانہ گدی کا پیروکار تھا۔ اس کا آبائی گائوں وِچانہہ(Vichanh)یعنی دریائے جہلم اور چناب کے سنگم کے پاس موضع مسن تھا۔

کلیانہ ضلع شاہ پور کے علاقہ تخت ہزارہ کا ساحر برہمن تھا جو اپنا گھر بار چھوڑ کر سیالکوٹ چلا گیا اور وہاں دریائے چناب کے کنارے کچھ عرصہ تک چِلے کاٹتا رہا ۔ پھراپنی روحانی طاقت کا موازنہ کرنے کے لیے کرانہ کے پیروں کے پاس پہنچ گیا۔کرانہ میںاس کی کرامات نے اپنا لوہا منوایا تاہم پیروں نے اسے مسن جانے کا حکم دیا۔کلیانہ مسن پہنچا تو اس کی ملاقات جندا سے ہوئی ۔ جونہی دونوں فقیر ملے تو وہ یک جان دو قالب ہوگئے اوردونوں پکار اٹھے۔’’ جِویں جندا اُنجے کلیانہ ‘‘ یعنی جندا اور کلیانہ دونوں ایک ہی ہیں ان میں کوئی فرق نہیں۔ لوگوں نے بھی انہیں الگ الگ پکارنے کی بجائے ’’جِندا کلیانہ ‘‘ کے مرکب نام سے پکارنا شروع کر دیا۔جندا نے ساری عمر شادی نہ کی اورموضع مسن میں واقع 1891ء تک اس کے گدی نشین اس کے چیلے ہی چلے آ رہے ہیں۔

اے ۔روز(1911ء)  ایک روایت میں بیان کرتا ہے کہ ’’ فارس ( ایران) کے شہنشاہ جمشید کے بعد افراسیاب حکمران بنا  جسے ضحاک بھی کہا جاتا تھا۔تقریباً 1500  قبل مسیح میں جمشید کی نسل سے ایک شخص فریدون ،افراسیاب کو ہٹا کر خود بادشاہ بن گیا۔ اس وقت افراسیاب کا ایک عزیز بُستام راجہ عرف ’کوکرا ‘پنجاب کا گورنر تھا جس کا دارالحکومت چنہاں (چناب)دوآب میں واقع ایک پہاڑی کوکرانہ پر تھا جسے اب کوہ کرانہ کہا جاتا ہے۔8   اسی مناسبت سے یہاں رہائش پذیر قدیمی باشندے کھوکھر کہلاتے۔کوہ کرانہ اور کھوکھروں کی تاریخ ساتھ ساتھ چلتی ہے۔

ان کا ذکر تاریخ کی دیگر کتب مثلاً تاج المعاصر، طبقاتِ ناصری، تاریخ مبارک شاہی اور طبقاتِ اکبری میں بھی ملتا ہے۔ کھوکھر قبیلے کا ملک شیخا کھوکھر لاہور کا گورنر رہا جبکہ اس کا بیٹا جسرت کھوکھر کشمیر، لاہور، جالندھر اور امرتسر کے علاقے پر حکومت کرتا رہا۔ جموں کشمیر،سیالکوٹ اورگجرات میں رہائش پذیر ملک جسرت کی آل اولاد اپنے آباء کا مسکن ـ’’گڑھ کڑانہ‘‘ بتاتے ہیں لیکن اس نام کا کوئی مقام کرہ ء ارض پر موجود نہیں اس لیے مورخین اس سے مراد کوہ کرانہ ہی لیتے ہیں۔

افسوس کہ اپنے دامن میں اتنی شاندار تاریخ سمیٹے ،یہ پہاڑیاں آج اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔تحصیل سلانوالی اور سرگودھا کے علاقے میں جہاں جہاں یہ پہاڑیاں موجود ہیں وہاں سینکڑوں کریشر مشینیں دن رات ان پہاڑیوں کو ریزہ ریزہ کر رہی ہیں۔نجانے مہابھارت، رامائن، بدھ مت،سکندرِ اعظم، ایرانی ، افغانی، مغل ، سکھ، کھوکھر حکمرانوں،ہندو جوگیوں اورمسلمان فقیروں کی کتنی یادگاریں، کتنے قیمتی آثار اور تاریخی شواہد بارود کے دھماکوں میں اڑا ئے جا رہے ہیں ۔

پیسے کی ہوس اس قدر غالب آ چکی ہے کہ زمین کے نیچے تک سے پہاڑوں کی جڑیں بھی نکال لی گئی ہیں جہاں اب تیس چالیس فٹ گہری بارود ملے پانی کی جھیلیں بنتی جا رہی ہیں۔ ارد گرد کی آبادیاں ماحولیات کے شدید خطرات سے دو چار ہو چکی ہیں اور ماہرین کے مطابق اگر یہی رفتار رہی تو پانچ سال میں تحصیل سلانوالی سے

ان پہاڑیوں کا مکمل صفایا ہو جائے گا۔ مقام ِ شکر ہے کہ ان کاایک حصہ پاکستان ایئر فورس اور پاک افواج نے اپنے قبضے میں لے رکھا ہے ورنہ آنے والی نسلوں کو پتہ ہی نہ چلتا کہ یہاں کوئی کرانہ کی پہاڑیاں بھی تھیں جہاں بھارت کی ریاست اجین کا راجہ بھرتری دنیا کو تیاگ کر اور مغل شہزادہ شاہ شجاع اپنے بھائی اورنگ زیب عالمگیر کے خوف سے بھاگ کر آ بسے تھے۔ جہاں بدھ مت کی دوسری یونیورسٹی کے آثار تھے اور جہاں کشان سلطنت کا سکہ چلتا تھا۔آج کرانہ کی پہاڑیاں دہائی دے رہی ہیں کہ؛

’’کوئی ہے جو تحصیل سلانوالی کے اس حُسن کو،ہنومان کی یادگاروں کو،سکندرِ اعظم  کے

چٹانی نقوش کو، جوگیوں کی خانقاہوں کو، صدیق لالی کے نغموں کو اورصبح شام گیدڑوں کو

بلانے والی صدائوںکو بارودکی گرد میں ہمیشہ کے لیے گم ہونے سے بچا لے۔‘‘

(حوالہ جات)  REFERENCES

1.Davies, R.G. & Crawford, A.R., (1971). Petrography and age of the rocks of Buland HillKirana Hills, District Sargodha, West Pakistan.Geol.Mag.108

) ’’کرانہ پہاڑیاں:فطرت، تاریخ اور ثقافت کی امین‘‘ 2. Rana Faisal

Javed, (Retrieved from

https://www.express.pk/story/1301572/464/25 Aug.2018/

  1. NARESH KOCHHAR , Thesis ” The Age of Malani Series”, Department of Geology, Panjab

University, Chandigarh, India

4.Sonia Malik, Daily Express Tribune Lahore

August 28, 2011,Retrieved from

https://tribune.com.pk/story/240797/excavation-

findings- carvings- reveal- kirana- hills- buddhist-

heritage

(بحوالہ غلام حسین جعفری، روزنامہ تعمیر راولپنڈی بمورخہ29جون1972ء 5.Sahibzada Abdul Rasul, The History of Sargodha ,

University of Sargodha 2006,

  1. The History of Sargodha, Sahibzada Abdul

Rasool, 2006, University of Sargodha, P-122-23

  1. CENSUS OF INDIA, 1891, VOLUME-XIX, THE PUNJAB AND ITS FEUDETORIES, PART-I, THE REPORT ON THE CENSUS BY E. D. MACLAGAN of the Indian Civil Service, Provincial Superintendent of Census Operations, CALCUTTA: OFFICE OF THE SUPERINTENDENT OF

GOVERNMENT PRINTING, INDIA, 1892)

  1. A Glossary of Tribes and Castes in Punjab &

NWFP by A. Rose, 1911, P-540

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔