2020ء:دنیا کی 100بااثر خواتین

حبا رحمن  منگل 1 دسمبر 2020
پہلا نمبر ’بدلائو‘ کے لیے جانیں نچھاور کرنے والیوں کی نذر کیا گیا ہے۔ فوٹو : فائل

پہلا نمبر ’بدلائو‘ کے لیے جانیں نچھاور کرنے والیوں کی نذر کیا گیا ہے۔ فوٹو : فائل

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ نے رواں برس دنیا کی 100 متاثر کن اور بااثر خواتین کی درجہ بندی کی ہے، اس میں جہاں دنیا بھر کی نام ور خواتین کے نام دکھائی دیتے ہیں، وہیں دو پاکستانی خواتین بھی یہاں اپنی جگہ بنانے میں کام یاب ہوئی ہیں۔

24 نومبر 2020ء کو جاری کی گئی اس فہرست میں ایسی خواتین کو شامل کیا گیا ہے، جو پریشان کُن حالات میں رہتے ہوئے بھی تبدیلی لانے کے لیے راہ نمائی کے ساتھ ساتھ اپنا متاثر کن کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس فہرست میں پہلا نمبر ایسی عورتوں کے اعزاز میں خالی چھوڑا گیا ہے، جنھوں نے تبدیلی کی کاوش میں اپنی جانیں قربان کر دیں۔۔۔

سو بااثر خواتین میں شامل پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان کو خواتین پر تشدد اور رنگ گورا کرنے والی کریموں کے خلاف بولنے پر اس کا حصہ بنایا گیا، جو جنسی ہراسانی کے خلاف بھی آواز اٹھاتی ہیں۔ ماہرہ اقوام متحدہ کے لیے ’نیشنل گُڈ وِل ایمبیسڈر‘ بھی ہیں، جو پاکستان میں افغان مہاجرین کو آگاہی فراہم کر رہی ہیں۔

ان کے ساتھ 2018ء سے ’احساس پروگرام‘ کی سربراہ اور وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے خاتمہ غربت ڈاکٹر ثانیہ نشتر بھی اس فہرست میں شامل کی گئی ہیں۔ انھوں نے بطور معاون خصوصی برائے انسداد غربت وہ اقدام اٹھائے ہیں، جس کی مدد سے پاکستان ایک فلاحی ریاست بن سکے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’کورونا‘ کے شدید اثرات نے ہمیں ایک ایسا موقع دیا ہے کہ ہم ایک انصاف پسند دنیا قائم کرنے کے ساتھ ساتھ غربت، عدم مساوات اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے مسائل کا خاتمہ کر سکیں، لیکن ان مقاصد کے حصول کے لیے عورتوں کو برابری کا درجہ ملنا ضروری ہے۔

ہندوستان کی 82 سالہ بلقیس، جنھوں نے نریندر مودی کے متنازع شہریت بل پر طویل احتجاج میں فعال حصہ لیا، وہ بھی اس زمرے میں شامل کی گئی ہیں، وہ رواں برس کے شروع تک دلی میں اُن شہریوں کے ساتھ آکر سڑک پر دھرنے میں بیٹھتی رہیں، جو اس قانون کے خلاف سراپا احتجاج رہے۔ ’دادی‘ کے نام سے مشہور ہونے والی بلقیس کو بھی ’بی بی سی‘ نے دنیا کی بااثر خواتین کی فہرست کا حصہ بنایا ہے، وہ کہتی ہیں کہ عورتوں کو اپنے حق کے لیے اپنے گھر سے باہر نکلنا چاہیے، وہ اگر آواز نہیں اٹھائیں گی تو اپنے آپ کو مضبوط کیسے ثابت کریں گی۔‘

اس فہرست میں اس کے علاوہ چینی مصنفہ فینگ فینگ(Fang Fang) بھی شامل ہیں، جنھوں نے لاک ڈاؤن کے دوران ’ووہان‘ میں ہونے والے واقعات کو قلم بند کیا، جسے عالمی سطح پر بہت زیادہ پذیرائی ملی۔۔۔ جنوبی افریقا کی ایک گلوکارہ بولیلوا میکو مکوٹو کانا (Bulelwa Mkutukana) بھی شمار کی گئی ہیں، جنھوں نے خواتین پر تشدد کے حوالے سے آواز اٹھائی۔۔۔

اس فہرست کا ایک نمایاں نام فن لینڈ کی وزیراعظم سنامرین (Sanna Marin) کا ہے، جو ’آل فی میل کوالیشن گورنمنٹ‘ کی سربراہی کرتی ہیں۔ وہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں، دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کی حکومت میں جتنی سیاسی جماعتیں ہیں، وہ سب خواتین ہی چلا رہی ہیں اور اس ’کورونا‘ کی وبا میں فِن لینڈ دنیا کے سب سے کم متاثرہ ممالک میں شمار ہوا۔ اس حوالے اُن کا کہنا ہے کہ ’’ہم عورتوں کی حکومت یہ دکھا سکتی ہے کہ اس وبا سے لڑنا اور ساتھ ہی ماحول کی آلودگی کو دور کرنا، تعلیم کو صحیح کرنا یہ سب ممکن ہے۔‘‘

سارا گلبرٹ (Sarah Gilbert) اوکسفرڈ یونیورسٹی کی کورونا وائرس ویکسین کے تحقیق کی سربراہ ہیں۔ ایتھوپیا کے چھوٹے شہر سے تعلق رکھنے والی لوزا ابیرا جنیوا (Loza Abera Geinore) کو بھی اس ’عالمی قطار‘ میں شامل کیا گیا ہے، جنھوں نے ’ایتھوپین ویمن پریمیئر لیگ‘ کھیلا، جس کی وجہ سے وہ کلب کی ٹاپ گول بنانے والی بنیں اور اب وہ ایک پیشہ ور فٹ بالر اور ساتھ ساتھ ایتھوپین ویمن نیشنل ٹیم کی رکن بھی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ ’ہر عورت دنیا کی ہر چیز حاصل کر سکتی ہے، جو اس نے سوچا ہو۔‘

اس فہرست کا ایک اور نام ہودا ابوض (Houda Abouz) ہے، جو ایک مراکشی ریپر (Rapper) ہیں، وہ اپنے انوکھے انداز کے سبب زیادہ جانی جاتی ہیں اور وہ عورتوں کے حقوق اور برابری کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔ اس مردوں کی دنیا میں وہ موسیقی کو بدلاؤ کا ذریعہ سمجھتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ’’عورتوں کی جدوجہد ابھی صرف شروع ہوئی ہے اور ہم عورتیں وہ سب کچھ ہیں، جو اس دنیا کی ضرورت ہے۔ اس فہرست میں کرسٹینا اڈین (Christina) بھی شامل ہیں، جو ’یوکے‘ میں اس مہم کی روح و رواں تھیں، جس کا مقصد یہ تھا کہ ہر بچے کو مفت کھانا ملنا چاہیے اور کوئی بچہ بھوکا نہیں سونا چاہیے۔

اس جدوجہد میں ان کا ساتھ ایک معروف فٹ بالر مارکس ریشفرڈ نے دیا۔ سیرا لیون(Sierra Leone) کی میئر یووان آکی سویرا (Yvonne Aki-Sawyerr) بھی دنیا کی پراثر خواتین کا ایک نام ہیں، انھوں نے دو بہت اچھے کام کیے پہلا بدلاؤ وہ یہ لائیں کہ انھوں نے ماحول کی آلودگی دور کرنے کے لیے درخت لگانے کی مہم شروع کی اور وہ اس میں کام یاب ہوئیں اور انھوں نے ان درختوں کو لگانے میں بے روزگار لوگوں کی مدد لی، ان کا کہنا ہے کہ ’ہم کبھی کبھار الجھن اور ناخوش گواری کا شکار ہوتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اسے ہر بار برائی کی طرف لیں، بلکہ ہم اس ایک اچھائی میں بھی تبدیل کر سکتے ہیں، اس طرح کہ ہم اپنی ناخوش گواری کو استعمال کرتے ہوئے، ایک ایسی تبدیلی لائیں جس کا ہم نے سوچا ہو۔‘‘

ایک اور بااثر نام سارہ ال امیری(Sarah Al-Amiri) ہے، جو متحدہ عرب امارات کی ٹیکنالوجی کی وزیر ہیں اور ’امارات‘ کی خلائی ایجینسی میں بھی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ امارات کے خلائی مشن ڈپٹی پروجیکٹ منیجر بھی رہ چکی ہیں، جو عرب دنیا کا پہلا خلائی مشن ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اس وبا نے بہت بربادی پھیلا دی ہے، جس میں ہمیں بغیر کسی مدد کے خود آگے بڑھنا ہوگا۔ اور اس دنیا کو بچانا ہوگا۔‘‘

شام کی صحافی اور ایوارڈ یافتہ فلم ساز وعد الا خطیب (Waad al-Kateab) بھی دنیا کی ان 100 خواتین کی فہرست کا حصہ ہیں، رواں برس ان کی دستاویزی فلم کو بہترین فلم کا ایوارڈ بھی ملا اور یہ ’اکیڈمی ایوارڈ‘ کے لیے نام زَد بھی کی گئی، وہ کہتی ہیں کہ ’’ہم تب ہارتے ہیں جب ہم امید چھوڑ دیتے ہیں۔ ہر عورت کے لیے چاہے کچھ بھی ہو جائے، ہر اس چیز کے لیے لڑنا ہے، جس پر ہمیں یقین ہو۔ خواتین خواب دیکھتی رہیں اور ان سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ کبھی بھی امید نہ ہاریں۔‘‘

صومالی لینڈ کی ماہر تعلیم اُباہ علی (Ubah Ali) کا نام بھی اس شمار میں جگ مگا رہا ہے، وہ بچیوں کی تعلیم کے لیے سرگرم ہیں، وہ ’امریکن یونیورسٹی آف بیروت‘ کی طالبہ ہیں اور لبنان میں تارکین وطن کے حقوق کے لیے بھی آواز اٹھاتی رہتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’’2020 میں دنیا بہت بدل گئی ہے اور اس میں عورتوں کی یک جہتی کی بہت ضرورت ہے۔

نصرین علون (Nisreen Alwan) ایک ڈاکٹر، محقق اور معلمہ ہیں، وہ برطانیہ میں جو عورتوں کی صحت پر تحقیق کرتی ہیں، خاص طور پر ماں بننے والی خواتین کے حوالے سے ان کا خاصا کام ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران انھوں نے خاطر خواہ کام کیا، ان کا کہنا ہے کہ ’’اس سال میں نے زیادہ تین چیزیں کیں، اپنے دماغ کی سنی، اور وہ کیا جس سے ڈر لگتا تھا اور اپنے آپ کو معاف کیا، میں نے اور تین چیزیں یہ کیں کہ اس پر دھیان نہیں دیا کہ لوگ میرے بارے میں کیا سوچتے ہیں، اپنے آپ کو کم قصور وار ٹھیرایا اور یہ سوچا کہ میں دوسروں سے کم تر نہیں ہوں۔‘‘

افغانستان سے تعلق رکھنے والی لالہ عثمانی نے رواں برس عورتوں کو دھتکارنے کے خلاف ایک مہم میں کام یابی حاصل کی، جس کا نام تھا ’’میرا نام کہاں ہے؟‘‘ کیوں کہ افغانستان میں جب کوئی بیٹی پیدا ہوتی تھی تو ’پیدایشی سرٹیفکیٹ‘ میں اس کا نام نہیں آتا تھا، صرف والد کا نام لکھا ہوا ہوتا تھا، اسی طرح عورت کا نام ’شادی کارڈ‘ پر درج نہیں ہوتا تھا اور یہاں تک کہ جب وہ بیمار ہوتی تھی، تب بھی اس کا نام اسپتال کی رسید پر نہیں ہوتا تھا۔ ان سب چیزوں کی وجہ سے لالہ عثمانی نے یہ مہم شروع کی۔

تین سال لگاتار جدوجہد کے بعد 2020ء میں افغان حکومت نے سرکاری دستاویز پر لڑکیوں کے نام کو درج کرنے کی اجازت دے دی، ان کا کہنا ہے کہ ’’ہر انسان کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کی کوشش کرے۔ تبدیلی لانا مشکل ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ اس کی مثال ہم عورتیں ہیں، جنھوں نے افغانستان جیسے ملک میں اپنی شناخت کے لیے لڑائی لڑی۔‘‘

جن خواتین کے بارے میں ہم نے آپ کو بتایا، ان کے علاوہ بھی بہت سے نام اس فہرست کا حصہ ہیں، ان عورتوں کی وجہ سے آج 90 فی صد عورتیں اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتی ہیں، لوگ غلط بات کے خلاف آواز اٹھانے سے کتراتے نہیں اور ان عورتوں کی وجہ سے دنیا میں لوگ یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ عورتیں کسی سے کم نہیں۔۔۔ اور وہ بھی خواب دیکھ کر پورا کرنا بہت اچھے طریقے سے جانتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔