خطے میں بھارتی دہشت گردی اور عالمی برادری کا فرض

عبدالرحمان منگریو  جمعرات 3 دسمبر 2020

18ویں صدی میں برصغیر میں انگریز کے قدم کیا پڑے خطے کی صورتحال، اقدار اور مفادات ہی تبدیل ہوگئے۔ جو خطہ ہزارسال سے زیادہ عرصے سے رواداری، محبت، یگانگت اور ہم آہنگی کا گہوارہ تھا، جہاں کے لوگوں کی بلا رنگ و نسل اور مذہب خوشیاں بھی سانجھی تھیں تو غم بھی ایک تھے۔

وہ خطہ نفرت، کدورت اور مذہبی منافرت کی ایسی آماجگاہ بن گیا کہ مجبوراً بٹوارے کی کڑوی گولی بھی کھانی پڑی۔ مگر ہندو توا راج قائم کرنے کے نام پر مچائی گئی اس نفرت کو پھر بھی بریک نہ لگ سکی جس کے نتیجے میں آج ہر طرف دہشت اور وحشت کا راج قائم ہو چکا ہے۔

اس نفرت و دہشت کے راج کے خلاف برصغیر کے شیدائی بالخصوص پاکستانی عوام تو  بر سر پیکار ہیں لیکن ہزارہا قربانیوں اور مالی و جانی نقصان اُٹھانے کے باوجود اب تک اگر کامیابی نہیں مل سکی ہے تو اُس کے پیچھے ہے بھارت کی وہی سامراجیت والی سوچ اور روش جس کی وجہ سے 1947میں برصغیر ٹکڑوں میں بٹ گیا تھا، مگر بھارت کے جنگی جنون و نفرت آمیز رویوں میں کمی آنے کے بجائے دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے ۔

وحشت کے گھوڑے پر سوار بھارت پاکستان دشمنی میں اس قدر آگے نکل گیا ہے کہ وہ خطے میں انسانیت سوز کارروائیاں کرنے سے بھی باز نہیں رہتا۔ یوں تو گزشتہ 73 سال سے بھارتی ایجنسیاں پاکستان میں گڑ بڑ کرانے کی کوششوں میں مصروف رہی ہیں لیکن 9/11 کے واقعے کے بعد دنیا کی تبدیل شدہ صورتحال بالخصوص افغانستان میں نیٹو فورسز کے آنے کے بعد سے پیدا شدہ حالات کے بعد اُس نے پاکستان کے خلاف دہشتگرد کارروائیاں کروانے اور پاکستان کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈہ پھیلانے کے لیے افغانستان کو اپنا مورچہ ہی بنا لیا۔

پاکستانی بارڈرز پر کشیدگی پیدا کرنے اور پاکستان میں داخلی سطح پر دہشتگرد تنظیمیں بنانے اور اُن کی سرپرستی و مالی معاونت میں براہ راست افغانستان میں موجود بھارت سفارت خانہ ملوث رہا ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے افسران کی دہشت گردوں سے بات چیت والی آڈیو اور ویڈیو کلپس بھی سامنے آئی ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردوں سے رابطوں اور دہشتگرد کارروائیوں کے لیے فنڈز کی فراہمی کا ماسٹر پلانر بھارتی آرمی کا کرنل راجیش ہے۔ بھارت ایک طرف کشمیر، لداخ، آسام اور تامل ناڈو کے عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑتا رہا ہے اور افغانستان میں بیٹھ کر پاک افغان بارڈر پر کشیدگی پھیلانے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں دہشتگردوں کا نیٹ ورک چلانے جیسی کارروائیاں کر رہا ہے۔ تو دوسری طرف پاکستان کے خلاف جھوٹا واویلا کرتا رہا ہے۔

بھارت اپنے کرتوت چھپانے کے لیے ڈراما کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کو اُلٹا پاکستان کے خلاف ڈوزیئر پیش کر کے عالمی قوتوں کو اپنے جھوٹے موقف کی بنیاد پر گمراہ کر کے خود پر لگے سچے الزامات و حقائق سے بچنا چاہتا ہے۔ حالانکہ اب ثبوتوں کے ساتھ یہ واضح ہو چکا ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشتگرد قرار دی گئی تنظیموں کی مالی معاونت اور سرپرستی کرتے ہوئے اُن تنظیموں کے کارکنوں کو تربیت اور ہتھیاروں کی فراہمی اور ملک کے مختلف حصوں میں ٹارگیٹس کی نشاندہی جیسی کارروائیوں میں ملوث ہے۔

بھارت نے دنیا بھر میں پاکستان کو انتہا پسندی کو تقویت دینے والے ملک کے طور پر پیش کرنے کے لیے پروپیگنڈہ اس قدر شدت و فنکاری سے کیا ہے کہ ہم کئی سال سے دفاعی پوزیشن پر چلے گئے ہیں۔ دنیا بھر میں ہمیں اپنی بات ثابت کرنے کے لیے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے جب کہ بھارت محض اپنے جھوٹے واویلا کے دم پر عالمی برادری کی ہمدردیاں حاصل کر لیتا ہے۔

مگر اس بار پاکستان کی جانب سے جمع کیے گئے ثبوت و شواہد نے واضح طور پر بھارت کے گناہوں اور سازشوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اب عالمی برادری کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ بھارت کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔ پاکستان کی جانب سے  اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک کے سامنے بھارت کے دہشتگردی میں ملوث ہونے کے شواہد اور پاکستانی موقف نے دنیا کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ان واضح اور ٹھوس ثبوتوں کے ہوتے ہوئے دنیا لاتعلق نہیں رہ سکتی۔

اب جب خطے میں دہشتگردی میں بھارت کے ملوث ہونے کے واضح شواہد و ثبوت سامنے آگئے ہیں اور پاکستان نے عالمی اداروں و عالمی قوتوں کے سامنے پیش کر دیے ہیں تو پاکستان یہ امید رکھتا ہے کہ عالمی برادری بھارت کی جانب سے برپا کی گئی دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ضرور کردار ادا کرے گی کیونکہ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے تنہا پاکستان کو نہیں بلکہ ہر ملک و ادارے کو اپنے حصے کا کام ذمے داری سے ادا کرنا ہو گا۔ اس لیے پاکستان سے ہمیشہ Do More کا مطالبہ کرنے والی عالمی برادری اور سلامتی کونسل و 5 مستقل رکن ممالک سے اب پاکستان Do More کا مطالبہ کر رہا ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری بھارتی کی حرکتوں پر اپنی روایتی چشم پوشی چھوڑ کر بھارت کے خلاف ثبوتوں کی روشنی میں کارروائی کرے اور بھارت کو خطے میں دہشتگردی پھیلانے سے باز رکھے اور اب تمام عالمی برادری کو عالمی امن کے قیام اور بقا کے لیے مقامی و عالمی قوانین کی روشنی میں پاکستان میں دہشتگردوں کی مالی معاونت و سرپرستی کرنے والے بھارت کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی ذمے داری ادا کرنی ہو گی ۔

کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی، لداخ میں چین کے ساتھ بھارت کے سرحدی تکرار اور تازہ جھڑپوں نے بھی یہ بات واضح کر دی ہے کہ بھارت نہ صرف پاکستان بلکہ خطے بھر کے مسائل کی وجہ ہے، اور دنیا کو بھارت کے ان ناپاک قدموں کو روکنے پر سنجیدہ ہونا ہی پڑے گا۔ لیکن یہ جو ہم روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں افغان باشندوں کو عارضی طور پر ملک میں آنے جانے کی اجازت دیتے ہیں۔

اس پر اور افغانستان کے دیگر اُمور پر ہمیں بھی نظر ثانی کرنی پڑے گی، کیونکہ ا س وقت نیٹو فورسز کی واپسی کی تیاری کی صورتحال بالکل 1990 میں روس ٹوٹنے اور امریکی فوجی جتھوں کی افغانستان سے واپسی جیسی صورتحال سے مماثلت رکھتی ہے۔ سب سے بڑی بات کہ ہمیں دوسرے ممالک بالخصوص افغانستان کے اُمور بہتر کرنے کے چکر میں اپنی توانائیاں، وقت اور وسائل ضایع نہیں کرنے چاہئیں ،ہمارے لیے تاریخی سبق یہ ہے کہ ہمیں اپنے گھر یعنی وطن عزیز کو سجانے کی فکر کرنی چاہیے ۔۔۔!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔