2020 کے سانحات

زبیر رحمٰن  جمعـء 29 جنوری 2021
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

2020 میں عوام کو سکون یا امن نصیب نہیں ہوا، ہاں مگر خوشحالی کی خبروں کی بھرمار رہی۔ کراچی لوکل ٹرین کو سرکلر ٹرین کے نام سے چلایا گیا اور گرین بسوں کو سڑکوں پر لانے کے بجائے ملبے میں تبدیل کیا گیا۔ تقریباً 30 لاکھ افراد کو بے روزگار کیا گیا جس میں اسٹیل مل، کے پی ٹی، ریلوے اور پی آئی اے کے ملازمین شامل ہیں۔کسانوں پر مصیبت ڈھائی گئی۔ ان کے مطالبات کو نظرانداز کیا گیا۔ لاکھوں مکینوں کو مکان فراہم کرنے سے قبل ان کے مکانات ڈھائے گئے۔

بلوچستان میں ہزارہ وال شیعہ مزدوروں کو قتل کیا گیا۔ ادھر حکومت اور حزب اختلاف سوال اور جواب میں ہی مصروف رہی۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف ایک روز کی بھی ہڑتال نہیں کی گئی۔ سیکڑوں بچے اور بچیوں کے اغوا ہونے، ریپ کو روکنے اور قتل کرنے کے خلاف حزب اختلاف  نے کوئی احتجاجی مظاہرے کیے اور نہ دھرنا دیا۔ ادھر حکومت نے کم ازکم آٹا، دال، چاول کی قیمتوں میں کمی کرنے کا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ حکومت کے لیے بڑے اہداف میں صرف محترمہ مریم نواز، مولانا کفایت اللہ اور کامریڈ علی وزیر رہے۔

ٹرین حادثات میں متعدد افراد جاں بحق ہوتے رہے مگر حادثات نہ رکے۔ 2020 میں بھی مہنگائی عروج پہ رہی۔ انڈا 200 روپے درجن، مرغی کا گوشت 350 روپے کلو، ادرک 800 روپے کلو، دودھ 110 روپے کلو، چینی 100 روپے کلو، چاول 170 روپے کلو، دالیں 250 روپے کلو، ہری مرچ 250 روپے کلو، تیل 250 سے 300 روپے کلو، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا گیا۔ 2020 میں صرف کراچی سے 303 بچوں کی لاشیں ملیں۔ یہ رپورٹ ایدھی فاؤنڈیشن نے پیش کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ دھماکوں میں 42 اور فائرنگ کے واقعات میں 315 افراد جاں بحق ہوئے، ٹریفک حادثات کے دوران 679 افراد زندگی کی بازی ہار گئے اور 9 ہزار 111 افراد زخمی ہوئے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی جانب سے 2020 میں کراچی شہر کے مختلف علاقوں میں ہونے والے واقعات جن میں فائرنگ، ٹریفک حادثات، خودکشی، دھماکوں، تشدد زدہ، ڈوبی ہوئی اور نوزائیدہ بچوں کی لاشوں کے اعداد و شمار جاری کردیے گئے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق 2020 میں مجموعی طور پر 3 لاکھ 25 ہزار 380 مریضوں کو شہر کے مختلف اسپتالوں میں منتقل کیا جب کہ کورونا سے 3 ہزار 318 افراد جاں بحق ہوئے۔

شہر میں مختلف دھماکوں میں 42 افراد جاں بحق جب کہ 129 افراد زخمی ہوئے۔ جب کہ شہر کے مختلف علاقوں سے ملنے والی 303نوزائیدہ بچوں کی لاشوں کو بھی ایدھی کے رضاکاروں نے سرد خانوں میں منتقل کیا۔ شہر کے مختلف دیگر واقعات میں 804 افراد جاں بحق جب کہ 212 افراد زخمی ہوئے اسٹریٹ کرائم بڑھنے کی بنیادی وجہ بے روزگاری ہے۔ بے روزگاری کو ختم کرنے کے لیے مرغی، انڈے بانٹنے یا گائے پالنے سے ختم نہیں ہوگی۔

جب لوگ بے روزگار ہوتے ہیں تو ڈاکے، چوری، خودکشی، چھینا جھپٹی، عصمت فروشی، گداگری، منشیات نوشی، بھتہ خوری، دھوکا دہی اور چوری کے کاموں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جس ملک میں جتنی زیادہ بے روزگاری ہے وہیں اسٹریٹ کرائم بھی زیادہ ہیں۔ 100 سے زیادہ دنیا کے مختلف خطوں، شہروں، صوبوں، میونسپلٹیوں میں امداد باہمی کا معاشرہ قائم ہے۔ وہ مشترکہ ملکیت کے حامی ہیں۔ بلااقتدار اور حکومت زندگی کو رواں رکھا ہوا ہے۔ بے روزگاری بالکل نہیں ہے اس لیے وہاں کرائم بھی ناپید ہے۔ اب بے روزگاری کے سبب جو زیادہ ہمت ور یا اپنی جان جوکھوں میں ڈال سکتا ہے وہ ڈاکو بن جاتا ہے۔ پھر وہ لوٹ مار میں مار دیتا ہے یا مر جاتا ہے۔ کم ہمت والا چھپ چھپا کر چوری کرتا ہے جوکہ چور کہلاتا ہے، جو ڈاکے ڈال سکتا ہے، چوری کرسکتا ہے اور نہ گداگری، پھر وہ بھوک سے تنگ آ کر خودکشی کرلیتا ہے۔

راقم کے ساتھ بھی ایک واقعہ ہوا۔ کسی نے اپنے موٹرسائیکل پر لفٹ دی اور نیپا کے پل پر پستول دکھا کر موبائل اور 5 سو روپے لے لیے۔ لینے کے وقت اس نے یہ کہا کہ آپ غریب صحافی لگتے ہیں۔ ایک بار میری اہلیہ کے کان سے دو موٹر سائیکل سواروں نے بالیاں اتروا لیں۔ اتفاق سے وہ بالیاں نقلی تھیں۔ عصمت فروشی بھی بھوک اور غربت کا شکار ہو کر کی جاتی ہے۔

کلکتہ سے چند کلو میٹر فاصلے پر 8 لاکھ خواتین کی عصمت فروشی کا خطہ ہے۔ غربت اور بھوک سے تنگ آکر پاکستان میں لاکھوں افراد بھیک مانگتے ہیں۔ بہت سارے تو ایسے ہیں کہ نئے ہونے کی وجہ سے بھیک مانگنے کا طریقہ بھی نہیں آتا۔ لاکھوں نوجوان، عمر رسیدہ اور بچے اس بھوک و افلاس کی زندگی سے مایوس ہوکر منشیات نوشی کے عادی ہو جاتے ہیں۔شہروں میں ضروریات زندگی کے چھوٹے کارخانے اور ملیں لگا کر لوگوں کو روزگار مہیا کیا جاسکتا ہے اعلیٰ درجے، مہنگے اور پرتعیش سامان کی درآمدات پر پابندی لگانے کی ضرورت ہے۔

بم بنانا روک کر شمسی توانائی اور ہوا کی طاقت سے بجلی کا متبادل پیدا کیا جاسکتا ہے جس سے ملیں کارخانے رواں دواں رہیں گے جیساکہ جنوبی امریکی ملک ’’کوسٹاریکا‘‘ میں پٹرول اور ڈیزل کا استعمال ممنوع ہے۔ وہ ہوا اور شمسی توانائی سے کاروبار زندگی کو چلاتے ہیں۔ 1949 سے وہاں فوج نہیں ہے۔

کسانوں کی بے روزگاری اور آبادی کی ہجرت کو روکنے کے لیے زمین کی مشترکہ ملکیت قائم کی جائے۔ اس سے کسانوں میں بے روزگاری ختم ہوگی اور پیداوار میں بھی اضافہ ہوگا۔ پھر ہم زرعی پیداوار برآمد بھی کرسکتے ہیں۔ ابھی تو ہم ادرک، ٹماٹر، پیاز، لہسن، گندم، چینی، تیل وغیرہ کی درآمد کرتے ہیں جب کہ ہمارے پاس 60 فیصد زمین بنجر پڑی ہے۔ ان سب مسائل کا واحد حل ایک امداد باہمی کا آزاد معاشرہ ہے۔ جہاں سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر بانٹ لیں گے۔ اگر ملوں کی پیداوار مزدور اور دیگر ملازمین کرتے ہیں تو پیداوار کے مالک بھی وہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔