کے ٹو انسانی عزم کے سامنے سرنگوں

سید عاصم محمود  اتوار 24 جنوری 2021
نیپالی شرپاؤں نے موسم سرما میں ناقابل رسائی پہاڑ سر کرنے سے نئی تاریخ رقم کر دی۔ فوٹو: فائل

نیپالی شرپاؤں نے موسم سرما میں ناقابل رسائی پہاڑ سر کرنے سے نئی تاریخ رقم کر دی۔ فوٹو: فائل

آپ نے ایسا میلہ کہیں اور کہاں دیکھا ہو گا؟درجہ حرارت منفی 40درجے پہنچ چکا جو انسان کے دانت توکیا ہڈیاں تک بجا دیتا ہے۔مگر اس علاقے میں خاصی چہل پہل ہے۔

خیموں میں بیٹھے مردوزن خوش گپیاں کرنے اور کھانے پینے میں مصروف ہیں۔ان کے چاروں طرف بلند وبالا پہاڑ پھیلے ہیں۔آخر یہ کون لوگ ہیں جنھوں نے کڑاکے دار سردی میں بھی برفانی میدانوں پہ چہل پہل لگا دی؟یہ سبھی بین الاقوامی شہرت یافتہ کوہ پیما ہیں جو ’’قاتل پہاڑ‘‘سر کرنے ارض پاک آئے ۔یہ اس سے دو دو ہاتھ کر کے انسانی عزم و جرات کی حدیں نئی منازل تک پہنچانے کی خاطر پُرجوش اور پُرشوق ہیں۔

1953 ء میں ایک امریکی کوہ پیما،جارج بیل نے دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ،کے ٹو کو ’’قاتل پہاڑ ‘‘کا لقب دیا تھا۔اس کا کہنا تھا کہ یہ پہاڑ کوہ پیماؤں کو مارنے کے درپے رہتا ہے۔حقائق بھی یہی گواہی دیتے ہیں ۔کے ٹو پہ چڑھنے والے ہر چار کوہ پیماؤں میں سے ایک بدقسمت کسی نہ کسی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتا ہے۔اب تک یہ پہاڑ کم ازکم ستاسی کوہ پیماؤں کو گور میں پہنچا چکا۔

ماؤنٹ ایورسٹ بے شک کرہ ارض پر بلند ترین پہاڑ ہے مگر اس پہ چڑھتے ہوئے دشواریوں اور مسائل کو دیکھا جائے تو اس ضمن میں کے ٹو کی چڑھائی زیادہ کٹھن اور مشکل ثابت ہوتی ہے۔پچھلے چند برس سے تو نیپال کے شرپاؤں(مقامی کوہ پیماؤں )نے آنے والوں کو اتنی زیادہ سہولتیں فراہم کر رکھی ہیں کہ کوہ پیمائی کی محض شدھ بدھ رکھنے والا انسان بھی تھوڑی کوشش سے ماؤنٹ ایورسٹ سر کر لے۔

یہی وجہ ہے،اب موسم گرما میں خصوصاً یہ بلند ترین پہاڑ مقام ِپکنک دکھائی دیتا ہے۔اس سے جو پُراسرایت،جادو اور قدرت کی ہیبت وعظمت وابستہ تھی،وہ کافی حد تک ماند پڑ چکی۔فی الوقت تو ماؤنٹ ایورسٹ سے یہ ناخوشگوار خبریں آتی ہیں کہ انسانوں کی کثرت اسے کچرے کا پہاڑ بنا چکی۔

پاکستان اور چین کی سرحد پہ واقع 8611میٹر بلند کے ٹو مگر بڑی حد تک اپنا طلسم اور اسرار برقرار رکھے ہوئے ہے۔اسے سب سے پہلے1954ء میں اطالوی کوہ پیماؤں نے سر کیا تھا۔پچھلے سڑسٹھ برس کے دوران صرف367خوش قسمت ہی اس کی چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکے۔یہی نہیں،سائنس وٹکنالوجی کے اس نہایت جدید اور ترقی یافتہ دور میں بھی کے ٹو دنیا کے تمام بلند ترین پہاڑوں میں ایسی انفرادیت رکھتا تھا جو اسے تمام فلک بوس پہاڑوں میں ممتازمقام عطا کردیتی۔

کرہ ارض پر آٹھ ہزار میٹر سے اونچے چودہ پہاڑہیں۔(ان میں سے پانچ پاکستان وچین میں ہیں)یہ سبھی پہاڑ موسم سرما اور موسم گرما،دونوں موسموں میں سر کیے جا چکے۔کے ٹو واحد پہاڑ تھا جس کی چوٹی تک موسم سرما میں انسانی قدم نہیں پہنچ سکے۔

قدرت کا یہ عظیم الشان مظہر کروڑوں برس سے انسانوں کو چنوتی دے رہا تھا کہ آؤ اور ٹھٹرتی سردیوں میں میرے سینے پہ قدم جماؤ۔پچھلے سڑسٹھ سال کے دوران سیکڑوں جی دار کوہ پیما یہ چیلنج قبول کرتے ہوئے کے ٹو پہ چڑھے مگر تام تر دلیری اور جذبہ شوق کے باوجود اس پہاڑ کی چوٹی پر نہ پہنچ سکے۔قراقرم سلسلہ ہائے کوہ کا یہ بلند ترین مقام انسانی بہادری اور غیرت کو دعوت ِمبارزت دیتا رہا۔اس چیلنج کا شمار دنیائے کوہ پیمائی کے ایسے عظیم ترین چیلنجوں میں ہوتا ہے جو ابھی تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکے تھے۔

2021 ء مگر کوہ پیمائی کی انسانی تاریخ میں نیا باب قلمبند کر سکتا تھا۔وجہ یہ کہ اس سال پہلی بار تقریباً ساٹھ تجربے کار اورمایہ ناز کوہ پیما موسم سرما کے سخت  ماحول میں کے ٹو سر کرنے جمع ہوئے۔یہ سبھی اواخر دسمبر20021ء میں پاکستان پہنچے۔ تعلق بیس ممالک سے تھا۔ان کی ٹیموں کو ماہ فروری تک کے ٹو کے انسانی برداشت سے باہر ٹھٹھرتے موسم سے نبردآزما رہنا تھا۔سب سوچ رہے تھے، اس دفعہ کوئی مائی کا لعل ہیبت ناک اور پُرعب پہاڑ کو شکست دینے  کامیاب ہوتا ہے یا اس بار بھی فتح کے ٹو کی قسمت میں لکھی ہے۔ممکن ہے،قدرت ابھی اپنے سبھی سربستہ راز وا کرنے پہ آمادہ نہ ہو۔

موسم سرما میں بلند پہاڑوں پہ چڑھنا بچوں کا کھیل نہیں۔ان کے نزدیک واقع میدانی علاقوں میں شدید سردی اعصاب منجمند کردیتی ہے،یہاں تو چڑھنے کی بات ہو رہی ہے …اور وہ بھی کے ٹو پرجس کا موسم سردیوں میں خوفناک دیو بن جاتا ہے۔یہ کے ٹو کا شوریدہ سر اور ڈراؤنا موسم ہی ہے جو سرما میں عروج پہ ہوتا ہے۔تب پہاڑ پر تیز ہواؤں کے جھکڑ مسلسل کئی دن چلتے ہیں۔چونکہ کے ٹو کا بیشتر حصہ ڈھلوانی ہے لہذا وہاں اپنے آپ کو سنبھالانا کٹھن مرحلہ بن  جاتا ہے۔آکسیجن کی کمی بھی انسانی حواس پر منفی اثرات ڈالتی ہے۔ایسے جان گسل حالات میں کوہ پیما سے معمولی غلطی بھی ہو جائے تو وہ موت کا نوالہ بن سکتا ہے۔

آسمان کو چھوتے پہاڑوں پہ کوہ پیمائی خصوصی آلات کی مدد سے ہوتی ہے۔یہ کافی مہنگے ہوتے ہیں۔اسی لیے کوہ پیمائی کی یہ قسم صرف امیر کوہ پیما اپناتے ہیں یا پھر وہ جنھیں کہیں سے فنڈز مل جائیں۔ماضی میں سامان ِکوہ پیمائی بھی کم تھا۔آج کل جدید اور متنوع آلات دستیاب ہیں۔انھوں نے چڑھائی نسبتاً آسان بنا دی۔پھر بھی موسم سرمامیں کے ٹو ناقابل رسائی چلا آ رہا ہے۔اس کے توسط سے شاید قدرت بنی نوع انسان کو پیغام دیتی ہے کہ وہ ابھی اتنی طاقتور وتوانا نہیں کہ سبھی مظاہر فطرت کو اپنے زیردام لا سکے:

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

ماہرین کا کہنا ہے کہ موسم سرما میں کے ٹو پہ تیزوتند ہوائیں چلتی ہیں۔ان کی رفتاردو سوکلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ جاتی ہے۔کبھی کہیں برف گرتی دکھائی دیتی ہے۔چڑھتے ہوئے چٹانیں ٹوٹنے کا خطرہ بھی دامن گیر رہتا ہے۔ایسے خطرناک موسم میں صرف وہی کوہ پیما کے ٹو پہ قدم دھرنے کی ہمت رکھتے ہیں جو تجربے کار،ذہنی وجسمانی لحاظ سے صحت مند اور پُرعزم ہوں۔

دوران چڑھائی خوش قسمتی بھی شامل ِحال رہتی ہے۔چین کی جانب سے کوہ پیمائی زیادہ مشکل ہے،اسی لیے تقریباً سبھی کوہ پیما پاکستان کی طرف سے کے ٹو پہ چڑھتے ہیں۔ان کا پہلا پڑاؤ یا بیس کیمپ بھی پہاڑ کے قریب واقع ہے۔کوہ پیما عموماً اس وقت چڑھائی کرتے ہیں جب موسم پرسکون ہو۔جیسے ہی تیز برفانی ہوائیں چلیں،وہ کے ٹو پر کسی جگہ ٹھہر کر موسم کی سختی نرمی میں بدلنے کا انتظار کرتے ہیں۔

کوہ پیمائی کی دنیا میں پہاڑوں پہ آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلند علاقہ ’’ڈیتھ زون‘‘کہلاتا ہے۔وجہ یہ کہ اس علاقے میں آکسجین کی شدید کمی ہوتی ہے۔تب انسان مصنوعی تنفس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔اس وقت کوہ پیما چاہے کتنا ہی طاقتور اور جی دار ہو،آکسیجن کی کمی بڑوں بڑوں کے حواس مختل کر ڈالتی ہے۔

کوہ پیماؤں میں مشہور ہے کہ خطہ ِموت میں ایک غلط قدم یا ایک فیصلہ انسان کو عالم بالا پہنچا دیتا ہے۔غرض کے ٹو جیسے بلند وبالا پہاڑوں پہ چڑھنا ایسے ہی ہے کہ انسان متواتر موت کو پہلو میں لیے رقص کرتا رہے۔اگست 2008ء میں گیارہ کوہ پیما کے ٹو پہ خطہ موت میں لقمہ اجل بن گئے تھے۔ان کی بدقستی کہ برف اپنی جگی سے سرکی اور انھیں بھی ساتھ گھسیٹتی نیچے لے گئی۔برف میں دبنے اور پتھروں سے ٹکرانے کے باعث وہ جلد چل بسے۔

کوہ پیمائی مگر تمام انسانی اشغال میں ایسا غیرمعمولی شعبہ ہے جسے اپنانے والے انسان موت کو بھی خاطر میں نہیں لاتے بلکہ اس سے پنجہ آزمائی کرتے ہوئے لطف وانبساط محسوس کرتے ہیں۔تقریباً ساٹھ ایسے ہی باہمت مردوزن اس موسم سرما میں کے ٹو سے ٹکرائے۔ان کی ٹیموں میں نیپال کے تبتی نسل سے تعلق رکھنے والے دس شرپا بھی شامل تھے۔یہ شرپا کوہ پیماؤں کی مدد کر کے روزی کماتے ہیں۔گویا کوہ پیمائی ان کا ذریعہ معاش ہے۔

مگر اس بار انھوں نے منگما جی اور نرمل پرجا کی زیرقیادت اپنی ٹیم بنالی اور نیپال کے جھنڈے تلے کے ٹو سر کرنے کی کوشش کرنے لگے۔خوش قسمتی سے موسم صاف رہا ۔16جنوری2021ء کو کے ٹو کی چوٹی پہ پہنچ کر انھوں نے نئی تاریخ رقم کر دی۔آخر کرہ ارض کا آخری عظیم الشان پہاڑ موسم سرما میں بھی انسانی عزم وہمت کے سامنے سرنگوں ہو گیا۔اس فتح نے ثابت کر دیا کہ انسانی عزم کی حد بے کراں ہے،اسے ناپا نہیں جا سکتا۔

پاکستان کی ’’سافٹ پاور‘‘
1990ء کے عشرے میں ایک امریکی دانشور،جوزف سیموئیل نائے نے ’’ہارڈ پاور‘‘،’’سافٹ پاور‘‘ اور ’’سمارٹ پاور‘‘ کی اصطلاحوں کو مقبول بنایا۔ہارڈ پاور سے مراد ایک ملک کی عسکری ومعاشی طاقت ہے۔ مملکت کے تاریخی ،تہذیبی ثقافتی ورثے اور قدرتی خزینے سافٹ پاور کہلائے۔نائے کا کہنا ہے کہ ایک ملک اپنی ہارڈ اور سافٹ پاور کی مدد سے دنیا میں اثرورسوخ بڑھا اور شہرت میں اضافہ کر سکتا ہے۔جو حکومت ان دونوں طاقتوں کو خوش اسلوبی سے استعمال کرے،وہ سمارٹ پاور کی حامل بن جاتی ہے۔پاکستان بھی ہارڈ اور سافٹ پاور کے ذریعے دنیا میں اپنا اثر بڑھا سکتا ہے۔

1979ء میں افغان سویت جنگ کے بعد سے عالمی برادری میں پاکستان کا ذکر ہو تو بم دہماکے اور دہشت گردی کے واقعات ذہن میں ابھرتے ہیں۔یہ ایک منفی تصّور ہے جو بدقسمتی سے پاکستان کے ساتھ جڑ گیا۔بین الاقوامی میڈیا خصوصاً بھارت کے شرانگیز پروپیگنڈے نے یہ تصّور ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اب سافٹ پاور کی مدد سے پاکستان کا مثبت روپ دنیا والوں کو دکھایا جائے۔
پاکستان قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک،وادی سندھ کی تہذیب کا گہوارہ ہے۔یہاں بدھ مت،جین مت اور ہندو مت کے آثار بکثرت ہیں۔ہندوستانی اسلامی فن تعمیر کے شاہکار رکھتاہے۔

شمالی علاقہ جات میں بلند پہاڑوں کی کثرت دیکھنے والے کو مبہوت کر دیتی ہے۔دریائے سندھ ،صحرا اور ساحل بھی قدرتی حسن کا مرقع ہیں۔پاکستانی حکومت ان تہذیبی وقدرتی خزانوں کی اہمیت اجاگر کرنے والی مہمیں چلاتی ہے مگر ضروری ہے کہ وسیع پیمانے پہ دنیا میں ان کی تشہیر کی جائے۔اس طرح سیاحوں کی آمد بڑھے گی۔ماہرین کا کہنا ہے،پاکستان سیاحتی سرگرمیوں سے سالانہ اربوں ڈالر کما سکتا ہے۔لہذا پاکستانی حکومت اپنی سافٹ پاور کو جامع اور منظم انداز میں استعمال کرے۔یوں نہ صرف بین الاقوامی سطح پہ پاکستان کا مثبت امیج ابھرے گا بلکہ اثرورسوخ بڑھنے سے دیگر تعمیری سرگرمیاں بھی جنم لیں گی۔

کوہ پیمائی دانشوروں کی نظر میں
٭فطرت کا تمام تر حُسن پہاڑوں سے شروع ہوتا اور انہی پر ختم ہو جاتا ہے۔(برطانوی فلسفی جان رسکن)
٭آپ فرشتوں کی تلاش میں ہیں یا شیطانوں سے بچنا چاہتے ہیں،دونوں صورتوں میں پہاڑوں کا رخ کریں۔(آئس لینڈ کی کہاوت)
٭دیکھنے میں پہاڑ قریب لگتے مگر حقیقتاً دور ہوتے ہیں،جتنے اونچے دکھائی دیں،اس سے زیادہ بلندی رکھتے ہیں اور چڑھائی میں سہل لگتے مگر حقیقت میں کٹھن ہوتے ہیں۔(کوہ پیمائی کے تین اصول)
٭ہم پہاڑوں پر چڑھتے ہوئے انھیں نہیں اپنے آپ کو فتح کرتے ہیں۔(کوہ پیما،ایڈمنڈ ہلیری)
٭پہاڑ وہ کیتھڈرل ہیں جہاں میں خدا کی عبادت کرتا ہوں۔(کوہ پیما اناطولی بوکینو)
٭میرے والد کا کہنا تھا کہ پہاڑوں پہ چلتے ہوئے مجھے وہی اطمینان و سکون ملتا ہے جو چرچ جاتے ہوئے ملے۔(امریکی ناول نگار،آلڈ ہکسلے)
٭فطرت کے قریب رہیے…معمول کی زندگی سے ہٹ کر کبھی کبھی پہاڑوں پہ جائیے اور وہاں کوہ پیمائی کیجیے…یا پھر جنگلوں میں نکل جائیے اور وہاں ایک ہفتہ بسر کیجیے…یہ عمل آپ کی روح سے سبھی کثافتیں دھو کر اسے پاک ومنزہ کر ڈالے گا۔(امریکی ادیب،جان موئیر)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔