مصباح صاحب بابر اب بچہ نہیں رہا

سلیم خالق  منگل 26 جنوری 2021
بطور بیٹسمین بابرترقی کی جتنی منازل طے کرتے رہے اتنی ہی ان میں قوت فیصلہ بھی آنے لگی۔ فوٹو: فائل

بطور بیٹسمین بابرترقی کی جتنی منازل طے کرتے رہے اتنی ہی ان میں قوت فیصلہ بھی آنے لگی۔ فوٹو: فائل

2019 کی بات ہے کسی پریس کانفرنس میں بابر اعظم سے میں نے یہ پوچھ لیا کہ ’’سنا ہے آپ کو زیادہ اختیارات حاصل نہیں اور مصباح الحق ہی معاملات کو سنبھالتے ہیں‘‘ بابر نے تو روایتی جواب دیا کہ ’’ایسی کوئی بات نہیں، میں اپنے فیصلے خود کرتا ہوں‘‘ البتہ ان کے مداحوں کو میرا سوال پسند نہ آیا۔

سوشل میڈیا پر کلپ بنا کر چلائے گئے کہ دیکھو ایک صحافی نے بابر سے کیسا سوال کر لیا، مگر کرکٹ کے قریبی حلقے یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ میری بات غلط نہیں تھی، بابر اعظم کی کپتانی میں مصباح ہی حاوی رہے اور وہ خود اپنے فیصلے نہیں کرپاتے تھے، پھر آہستہ آہستہ انھوں نے معاملات کو سمجھنا شروع کیا، کارکردگی تو پہلے ہی اچھی تھی مزید نکھار آ گیا، جب آپ کو کامیابیاں ملیں تو اعتماد خود بخود بڑھنے لگتا ہے۔

بطور بیٹسمین بابرترقی کی جتنی منازل طے کرتے رہے اتنی ہی ان میں قوت فیصلہ بھی آنے لگی، اسی کے ساتھ مصباح الحق بورڈ حکام کی آنکھ کا تارا نہیں رہے، انھیں ہمیشہ کرکٹ بورڈ کا یس مین سمجھا جاتا تھا مگر وزیر اعظم عمران خان کے سامنے بے روزگار کرکٹرز کا مقدمہ پیش کرنا مہنگا پڑ گیا، پہلے وہ ہیڈ کوچ، چیف سلیکٹر،بیٹنگ کوچ اور نان پلیئنگ کپتان سب کچھ تھے، اب اس میں سے صرف ہیڈکوچ کا عہدہ کچے دھاگے کے ساتھ بندھا باقی ہے۔

ایک شکست انھیں واپس گھر بھیج دے گی اور وہ کمنٹری کرتے نظر آیا کریں گے، اس دوران بابر اعظم کی وسیم اکرم کے ساتھ قربت بڑھ گئی، ان کی پہنچ سب جانتے ہیں، کپتان نے مصباح کے حاوی ہونے کا تذکرہ بھی کیا، پھراحسان مانی نے انھیں اپنے پاس بلا کر خوشخبری سنا دی کہ وہ جلد تینوں طرز کے کپتان بن جائیں گے۔

اظہر علی بھی وزیر اعظم سے ملاقات کیلیے جانے والوں میں شامل تھے، اس کی سزا انھیں ٹیسٹ کپتانی گنوا کر مل چکی لیکن انھوں نے سبق سیکھ لیا اس لیے حالیہ پریس کانفرنس میں اس حوالے سے جب سوال ہوئے تو چپ سادھے رہے، ورنہ انھیں بھی کمنٹری کا کوئی کام ڈھونڈنا پڑ سکتا تھا، خیر وسیم اکرم نے بابر کا اعتماد بڑھایا کہ تم اپنے فیصلے خود کیا کرو، اب ایسا لگتا ہے کہ ہمیں بطور کپتان نیا بابر اعظم دیکھنے کو ملے گا۔

مصباح کو بھی سوچنا چاہیے کہ بابر اب بچہ نہیں رہا،اسے اسپیس دینی چاہیے، شاید بورڈ سے بھی انھیں یہ پیغام مل چکا، ویسے پہلے بھی جہاں بابر کو کوئی بات منوانا ہوتی تھی تو وہ منوا لیتے تھے جیسے بچپن کے دوست عثمان قادر کی اسکواڈ میں شمولیت کا معاملہ تھا،البتہ اب وہ مکمل بااختیار کپتان بن کر سامنے آئیں گے، بابر اعظم ہماری کرکٹ کا اثاثہ ہیں۔

میرا تو انھیں مشورہ ہے کہ ماضی کے بعض سپراسٹارز سے دور رہیں اور اپنی بیٹنگ پر توجہ دیں، اب زیادہ کیا بولوں لوگ خود سمجھ دار ہیں، پہلے ذاکر خان کی وزیر اعظم کے ساتھ تصاویر اکثر میڈیا میں آتی تھیں اور ان کا بہت دبدبہ تھا، اب وہ لوپروفائل میں بطور ڈائریکٹرکرکٹ پی سی بی اپنا کام کر رہے ہیں۔

ان دنوں وسیم اکرم کا رعب ہے، وزیراعظم عمران خان انھیں بہت پسند کرتے ہیں اس لیے تمام بورڈ والوں کو بھی کرنا پڑتا ہے، ان کے بیشتر قریبی لوگ کہیں نہ کہیں فٹ ہو چکے، چیف سلیکٹر محمد وسیم کے سر پر بھی انھوں نے شفقت کا ہاتھ رکھا ہوا ہے، وسیم اکرم کا یہ اسٹائل ہے، وہ کنگ نہیں کنگ میکر بنتے ہیں، بھارت میں پاکستانیوں پر پابندی کی وجہ سے آئی پی ایل اور کمنٹری کے کام ملنا بند ہوئے تو انھیں پاکستان کی یاد آئی اور اب ملکی کرکٹ میں وہ مکمل طور پر انوالوہیں، عہدہ انھیں نہیں چاہیے، اس کی یہ وجہ تو بالکل نہیں ہو سکتی کہ جسٹس قیوم کی رپورٹ میں انھیں کوئی پوسٹ دینے سے روکا گیا تھا کیونکہ وہ کرکٹ کمیٹی کے رکن بھی ہیں اور مانی صاحب اس رپورٹ کو نہیں مانتے، وسیم پس منظر میں رہ کر کام کرنا پسند کرتے ہیں۔

خیر ان کی ’’خدمات‘‘کا ملکی کرکٹ کو فائدہ ہو رہا ہے یا نقصان اس کا جواب تو وقت ہی دے گا، فی الحال تو احسان مانی لو پروفائل نظر آتے ہیں، وسیم خان کا جب انٹرویو چلانا ہو تو پی سی بی ویڈیوز بنوا کر میڈیا کے دوستوں میں تقسیم کرا دیتا ہے، نجی محفلوں میں وہ معاملات میں چیئرمین کی حد سے زیادہ مداخلت کا رونا روتے ہیں، سامنے آ کر ایسا کچھ نہیں کہتے، پاکستان کا پانی ان کو بھی راس آ گیا ہے، بورڈ کے معاملات چلا کون رہا ہے اس کا کچھ پتا نہیں۔ خیر اب ہم کیا کہہ سکتے ہیں، ابھی خوشی کا موقع ہے اسی پر بات کرتے ہیں، 14 برس بعد جنوبی افریقی ٹیم پاکستان کی مہمان بنی ہے،2007 کے دورئہ پاکستان کا آغاز بھی کراچی ٹیسٹ سے ہوا تھا مگر بدقسمتی سے ہماری ٹیم 160 رنز سے وہ میچ ہار گئی تھی، جیک کیلس نے دونوں اننگز میں سنچریاں بنائی تھیں۔

البتہ اب پروٹیز میں پہلے جیسا دم خم نہیں رہا،گذشتہ برس انگلش ٹیم نے انھیں گھر میں گھس کر تین ٹیسٹ میچز میں ہرایا، البتہ آخری دونوں ٹیسٹ میں سری لنکا کو باآسانی شکست دے دی کیونکہ اس کے آدھے سے زیادہ کھلاڑی انجرڈ ہو گئے تھے،اسی سری لنکن ٹیم نے2019میں ہوم گراؤنڈ پر جنوبی افریقہ کو2-0 سے شکست دی تھی، بھارت جا کر پروٹیز تینوں ٹیسٹ ہار گئے تھے، البتہ سال کے آخری میچ میں انگلینڈ کوزیر کر لیا تھا۔اب پاکستان کے پاس بھی فتح کا اچھا موقع ہے۔

بابر اعظم انجری سے نجات پا کر واپس آ چکے ہیں،ہوم گراؤنڈ پر یاسر شاہ بھی کامیاب ثابت ہو سکتے ہیں،چیف سلیکٹر نے بڑے فخر سے9نئے کھلاڑیوں کی شمولیت کا اعلان کیا تھا، ان میں سے 3 تو باہر ہو گئے، باقی کے ساتھ بھی ایسا ہوگا، شاید 2کو ہی موقع مل سکے،گوکہ کورونا وائرس کی وجہ سے کراؤڈ کو اسٹیڈیم آنے کی اجازت نہیں مگر کسی بڑی ٹیم کا پاکستان میں آ کر کھیلنا ہی بہت خوش آئند ہے،امید ہے نتائج بھی حوصلہ افزا رہیں گے،ملکی میدان ایسے ہی آباد رہنا چاہئیں۔

(نوٹ:آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔