بھارتی یوم جمہوریہ پرنعرہ آزادی کی گونج

26 جنوری 1950کوبھارتی آئین منظور ہونے کی یاد منانے کے لیے منعقد ہونے والی فوجی پریڈ پرکسانوں کا احتجاج غالب آگیا ہے۔


Editorial January 28, 2021
26 جنوری 1950کوبھارتی آئین منظور ہونے کی یاد منانے کے لیے منعقد ہونے والی فوجی پریڈ پرکسانوں کا احتجاج غالب آگیا ہے۔ فوٹو: رائٹرز

بھارتی یوم جمہوریہ پر مشتعل کسان مظاہرین کی ٹریکٹر ریلی رکاوٹیں توڑکر دارالحکومت دہلی میں داخل ہوگئی اورلال قلعہ پر خالصتان کا پرچم لہرا دیا۔ کسان مودی سرکار کی متنازع زرعی پالیسی کے خلاف تین ماہ سے نئی دہلی کی سرحدوں پر سراپا احتجاج تھے۔بھارت میں ہونیوالے ان تازہ ترین واقعات نے پوری دنیا کو مودی سرکار کی تباہ کن پالیسیوں کی جانب متوجہ کرلیا ہے۔

کسانوں کے احتجاج نے بھارت کے قومی دن کی تقریب کو، جس میں وہ اپنی دفاعی قوت کی بھرپور نمائش کرتا ہے، پس منظر میں دھکیل دیا۔ 26 جنوری 1950کو بھارتی آئین منظور ہونے کی یاد منانے کے لیے منعقد ہونے والی فوجی پریڈ پر کسانوں کا احتجاج غالب آگیا ہے۔کئی ماہ سے جاری کسانوں کی احتجاجی تحریک 120لاشیں اُٹھا کر بھی زور شور سے جاری ہے،دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی اصلیت بے نقاب ہوگئی ہے۔

مودی سرکار نے گزشتہ سال ستمبر میں تین نئے زرعی قوانین منظور کیے تھے، جن کے تحت اناج کی سرکاری منڈیوں تک نجی تاجروں کو رسائی دی گئی، اناج کی سرکاری قیمت کی ضمانت ختم اور کنٹریکٹ کھیتی کا نظام شروع کیا گیاہے۔بھارتی سکھوں نے مودی سرکار پر واضح کیا ہے کہ وہ کبھی ہندی، ہندو اور ہندوستان کا ایجنڈا پورا نہیں ہونے دیں گے۔

بھارتی سکھوں نے ایک بار پھر لے کر رہیں گے خالصتان کا نعرہ لگا دیا ہے۔دوسری جانب بھارتی یوم جمہوریہ پرکنٹرول لائن کے دونوں جانب اور دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں نے یوم سیاہ مناکر دنیا کو پیغام دیا کہ وہ مادر وطن پر بھارتی غیر قانونی تسلط کو مسترد کرتے ہیں۔ مقبوضہ وادی میں سخت پابندیاں نافذ اور انٹرنیٹ سروسز معطل رہی۔ظالم ریاست مظلوم کشمیریوں کا جذبہ آزادی دبانے میں ناکام رہی ہے، کشمیریوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک پر بھارت کو دنیا بھر کی مذمت کا سامنا ہے۔

دوسری بار برسر اقتدار آنے کے بعد نریندر مودی کی پالیسیوں کے باعث بھارت میں داخلی بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ مودی حکومت کی جانب سے پہلے کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کا یک طرفہ اقدام اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی نے بھارت کو بین الاقوامی سطح پر مسائل سے دوچار کیا۔اسی برس مودی سرکار نے شہریت کا متنازع قانون بنایا جس میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس قانون کے خلاف بھی بھارت میں احتجاجی لہر پیدا ہوئی اور دہلی کے شاہین باغ میں طویل عرصے تک مسلمان مردوخواتین کا دھرنا جاری رہا۔ کسان صرف اصلاحات کے لیے احتجاج نہیں کررہے بلکہ یہ تحریک بھارت کے پورے معاشی ڈھانچے کو تبدیل کردے گی، آج جو غصہ نظر آرہا ہے اس کے کئی محرکات ہے۔

تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو تقسیم ہند (1947ء)کے بعد بھارتی قیادت نے اقلیتوں کا اعتماد جیتنے کے لیے وقتی طور پر نعرہ بلند کیا کہ ہندوستان ایک سیکولر ریاست ہو گی جس میں ہندوؤں، مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو یکساں حقوق حاصل ہوں گے،لیکن ایسا عملی طور پر ہندستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا اور اقلیتوں کو ہمیشہ انتہاء پسند ہندوؤں کی طرف سے ظلم و جبر اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا اور انھیں مجبور کیا گیا کہ وہ ہندو بالادستی قبول کرلیں۔

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ہونے کے دعوے دار بھارت میں اس کے دعوؤں کے برعکس انسانی حقوق کی پامالی ایک عام سی بات ہے، جو صرف مقبوضہ کشمیر تک محدود نہیں، بلکہ پورا بھارت ہی مذہبی، لسانی اور معاشرتی تعصبات اور ریاستی دہشت گردی کا شکار ہے۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے مودی حکومت نے علیحدگی پسند تحریکوں میں نئی جان ڈال دی ہے ، آسام میں بھی آزادی پسندعناصر مودی سرکار کے گلے کی ہڈی بن چکے ہیں ۔ درحقیقت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے مودی سرکار نے اپنی ہی پیروں پر کلہاڑی ماری ہے ۔ بھارتی فیصلے نے کشمیر سمیت بھارت میں علیحدگی پسندتحریکوں میں نئی روح پھونک دی ہے۔مودی سرکار نے آرٹیکل 370 ختم کرکے پورے بھارت کو ایسی آگ میں جھونکا ہے جس میں خود اسے جھلسنا ہوگا۔

ہندوتوا کے فلسفے کی پیروکار بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کی تنگ نظری پر مبنی روش کی بنا پر دیکھتے ہی دیکھتے پورے بھارت میں اب تک 70 کے قریب علیحدگی پسند تحریکیں اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔ عالمی ماہرین ان تحریکوں کو محض بھارت کی اس ریاستی تنگ نظری، فکری گراوٹ، بے حسی اور متعصبانہ رویوں کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔

بھارت میں کئی ریاستیں ایسی بھی ہیں جن پر اس نے برطانوی راج سے آزادی کے فوری بعد فوجی طاقت کے بل بوتے پر قبضہ جما کر انھیں ''انڈین یونین'' میں زبردستی شامل کرلیا تھا اور پھر اس نے ان علاقوں میں بزور بازو اپنی تہذیب، کلچر، ماحول، تمدن، سوچ و فکر، لٹریچر اور آرٹ و زبان کا نفاذ کرنا چاہا تھا، جس پر اسے ان ریاستوں کی جانب سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔

کیونکہ ان ریاستوں کی اپنی تہذیب، ثقافت، ادب زبان و طرزِ معاشرت بھارت سے بالکل مختلف ہے۔ شمال مشرقی بھارت کی سیون سسٹرز (سات بہنیں)کہلانے والی سات ریاستیں جن میں آسام، تریپورہ، ہماچل پردیش، میزورام، منی پور، میگھالیہ اور ناگالینڈ عالمی طور پر بھی باغی تحریکوں کا مرکز سمجھی جاتی ہیں۔

اس کے علاوہ بھارت کی دیگر ریاستوں جن میں بہار، جھاڑ کھنڈ، چھتیس گڑھ، مغربی بنگال، اڑیسہ، مدھیا پردیش، مہاراشٹر اور آندھرا پردیش میں بھی علیحدگی پسند گروپ سرگرم عمل ہیں، لیکن ناگالینڈ کے ناگا باغیوں اور نکسل باڑیوں کی تحریک اب بھارتی وجود کے لیے حقیقی خطرے کا روپ دھار چکی ہیں۔ صرف آسام میں ہی 34 باغی تنظیمیں کام کر رہی ہیں، جو ملک کے 162 اضلاع پر مکمل کنٹرول رکھتی ہیں۔ دوسری جانب ایسی ہی تحریکیں ناگالینڈ، منی پور اور تری پورہ میں بھی جاری ہیں۔

ناگا لینڈ میں نیشنل سوشلسٹ کونسل سب سے زیادہ موثر ہے، جب کہ منی پور میں بھی کئی تنظیمیں عملی طور پر بھارت سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ اسی طرح تری پورہ میں آل تری پورہ ٹائیگر فورس، تری پورہ آرمڈ ٹرائبل فورس، تری پورہ مکتی کمانڈوز اور بنگالی رجمنٹ جدوجہد کر رہی ہیں، جب کہ ریاست میزورام میں پروفیشنل لبریشن فرنٹ علیحدگی کی تحریک کو آگے بڑھا رہی ہے۔ یہ علیحدگی پسند تنظیمیں جن میں زیادہ تر مسلح تنظیمیں ہیں، ایک سیکولر اسٹیٹ کا کچا چٹھا کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔ ان عسکری گروہوں میں بیس کے قریب تو ایسے ہیں، جو ناگا لینڈ بھارت کے شمال مشرق میں واقع ایک انتہائی خوبصورت پہاڑی خطہ ہے ،میں موجود ہیں اور یہاں کے لوگ قدیم قبائلی رسم و رواج کے مطابق اپنی زندگیاں گزارتے ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق ناگا لینڈ کی 88 فیصد آبادی غیر ہندو مذاہب سے تعلق رکھتی ہے جس میں سے 67 فیصد عیسائی جب کہ باقی دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔1951 میں ہونے والے ریفرنڈم کے مطابق ناگا لینڈ کی 99 فیصد سے بھی زائد عوام نے بھارت سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا تھا لیکن اس کے باوجود بھارت نے اپنی فورسز کو بھیج کر قبضہ کر لیا تھا، دوسری طرف قبائلی علاقوں میں ماؤ نوازوں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔

کچھ عرصہ قبل بھارت کی پانچ ریاستوں جھاڑ کھنڈ، چھتیس گڑھ، اڑیسہ، بہار اور مغربی بنگال میں ماؤ پرستوں پر ریاستی تشدد کے خلاف ہڑتال کوکامیاب بنانے میں ہر مکتبہ فکر کے افراد نے حصہ لیا۔ اسکول، کالج و دیگر تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ سرکاری و نجی دفاتر، ٹرانسپورٹ یہاں تک کہ ٹرین سروس بھی بند رہی، مکمل پہیہ جام ہوا، جس سے بھارت سرکار ہل کر رہ گئی۔ایک اندازے کے مطابق ماؤنواز باغیوں کے بیس رہنما، تیس کمانڈر اور تقریباً 12000کیڈرز ہیں۔ ماؤنواز باغی جن علاقوں میں سرگرم ہیں ان میں بیشتر بچھڑے علاقے ہیں اور وہاں قبائلی آبادی ہے۔ہندوستان میں ماؤنواز تنظیم کی عسکری شاخ کے سربراہ نے دعویٰ کیا ہے کہ2025 ء تک ان کی فورسز'عوامی جنگ میں مکمل فتح'حاصل کر لیں گی کیونکہ ماؤ فورسز بہترین تربیت یافتہ ہیں اور مرکزی حکومت کی افواج کے کسی بھی حملے کو پسپا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

اس وقت بھارت میں اقلیتوں کے بیشتر افراد اپنے تعلیمی حق سے محروم ناخواندگی کی زندگی گزار رہے ہیں،اگر بالفرض کہیں تعلیم دی بھی جاتی ہے تو صرف ہندو مت کی اور پورا نصابِ تعلیم ہندو مذہب کے گرد گھومتا ہے جو فی الحقیقت اقلیتوں(بالخصوص مسلمانوں کی) تہذیب وثقافت ختم کرنے کے لیے ایک چال ہے، یہ اس طرف اشارہ ہے کہ مسلمان تیار ہو جائیں ان کے آثار مٹائے جارہے ہیں جس طرح تاریخ میں مسلمانانِ اندلس کے ساتھ کیا گیا ویسے ہی بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کیا جارہا ہے۔

دنیا یہ حقیقت جانتی ہے کہ جس نظام نے اقلیتوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ فاشسٹ نظام تھا جس کی بنیاد ہٹلر اور میسولینی نے رکھی اور جرمنی و اٹلی میں اقلیتوں سے غیر انسانی سلوک کی ایسی اندوہناک داستانیں رقم کیں کہ دنیا آج تک اس کے منفی اثرات محسوس کر رہی ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ بھارت اسی نظام کی بگڑی ہوئی ایک شکل ہے،یہ محض مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ وہ گھڑی قریب آن پہنچی ہے ،جب اکھنڈ بھارت کا خواب کئی آزاد ممالک کی شکل میں شرمندہ تعبیر ہوگا، بھارت میں چلنے والی آزادی کی تحریکیں حقیقت میں بھارتی وجود کو مسلسل کھوکھلا کر رہی ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔

مقبول خبریں

رائے