کیا بھارت ایک بار پھر تقسیم ہو رہا ہے؟

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 29 جنوری 2021
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

بھارت تقسیم ہو رہا ہے، یہ سن کرہی بطور پاکستانی ایک ’’خوشگوار‘‘ احساس ہوتا ہے، ایسا اس لیے بھی ہے کہ پاک بھارت شروع ہی روایتی حریف رہے ہیں، اور ایک دوسرے کے وجود کو شاید مجبوری سے ہی برداشت کر تے ہیں،حالانکہ بھارت پاکستان سے رقبے میں 10گنا بڑا اور آبادی میں 6گنا بڑا ہے مگر پھر بھی وہ دنیا بھر میں ڈھنڈورا پیٹتا ہے کہ پاکستان اُس کے لیے مسائل کھڑے کر رہا ہے، حد تو یہ ہے کہ یہ عدم تحفظ دونوں اطراف میں پایا جاتا ہے اور عدم تحفظ کا یہ احساس دونوں ملکوں کے عوام کو سہنا پڑتا ہے، وہ خواہ غربت کی شکل میں ہو یا بے پناہ دفاعی بجٹ کی شکل میں، لیکن Ultimatelyبھگتنا عوام کو ہی پڑتا ہے۔ اب جب کہ دو روز قبل بھارت میں ہوئے کسان ہنگاموں نے پوری دنیا کی توجہ حاصل کر لی ہے تو سوچا کہ ہم بھی کیوں نہ اس موضوع پر ہاتھ صاف کریں۔

اس لیے اب اگر بات کی جائے کہ بھارت میں کسانوں کو چند سو روپے ٹیکس دینے اور نئے زرعی قوانین بنانے میں آخر مسئلہ کیا ہو سکتا ہے تو آگے چلنے سے پہلے میں اسے ایک چھوٹی سی مثال سے سمجھانا چاہوں گا کہ وٹو دور میں زرعی ٹیکس لگادیا گیا، اُس وقت منظور موہل ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی ہوا کرتے تھے، انھوں نے زرعی ٹیکس کی بڑھ چڑھ کر مخالف کی تو راقم نے منظور موہل صاحب سے پوچھا کہ 200،300روپے ٹیکس ہے، اس پرہر طرف اتنا شور کیوں مچا یا جا رہا ہے، تو انھوں نے برملا جواب دیا کہ ایک ساہو کار لیٹا ہوا تھا۔

اُس کے پیٹ سے چونٹی گزر گئی، جس پر اُس نے شور مچا دیا، ساہو کار کے ساتھ والے نے پوچھا کہ گزری تو چونٹی ہے لیکن اتنا زیادہ شور کس بات کا ہے؟ ساہو کار نے جواب دیاکہ بات چونٹی کی نہیں ہے، بات یہ ہے کہ اب یہ راستہ بن جائے گا،اور چونٹی کے بعد یہاں سے ہاتھی بھی گزریں گے! اس لیے بات 2، 3سو روپے کے ٹیکس کی نہیں ہے۔ اگر اب حکومت کو نہ روکا گیا تو یہ کسانوں سے پیسے بٹورنے کے لیے راستہ بن جائے گا، اور پھر یہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوگی، بالکل اُسی طرح جس طرح آج تک ہم پٹرولیم مصنوعات پر سے ٹیکس واپس نہیں لے سکے۔

اب جس طرح حکومت نے پٹرول پر ٹیکس لگایا ہے، اُسے عادت پڑ چکی ہے، اب وہ کم ہونے کے بجائے روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، پھر ماضی میں ’’مشرقی پاکستان میں فلڈ ٹیکس ‘‘نافذ ہوا، بنگلہ دیش الگ ہوگیا لیکن فلڈ ٹیکس 90 کی دہائی تک لیا جاتا رہا، پھر پی ٹی وی ٹیکس لگایا گیا، جو ابھی تک لیا جا رہا ہے پھر نیلم جہلم پراجیکٹ پر ٹیکس عوام سے بٹورا جا رہا ہے مگر پراجیکٹ ہے کہ بند پڑا ہے۔ لہٰذابھارت میں بھی ایسی کئی مثالیں ہوں گی۔

اس لیے وہاں کے کسان اپنے مطالبات کے حق میں درست ہیں، کیوں کہ اگر ایک دفعہ نئے ٹیکس لگ گئے تو پھر حکومت کا راستہ روکنا مشکل ہوگا۔ خیر اس موجودہ بھارتی شورش کا ایک اور پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس وقت بھارت میں آزادی و علیحدگی کی 67 تحریکیں کام کر رہی ہیں جن میں سے17 بڑی اور 50چھوٹی تحریکیں ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کے 162 اضلاع پر انتہا پسندوں کا مکمل کنٹرول ہے۔ ناگالینڈ ، میزو رام ، منی پور اور آسام میں یہ تحریکیں عروج پر ہیں جب کہ بھارتی پنجاب میں خالصتان تحریک زوروں پرہے اور موجودہ تحریک بھی شاید ’’خالصتان‘‘ تحریک کی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے۔

اس کی ایک بڑی وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بھارت میں سکھوں پر ظلم و ستم کی تاریخ کوئی نئی نہیں ہے۔ مثلاََ تقسیم کے بعد فوج میں ان کی تنزلی کا سلسلہ شروع کیا گیااورانھیں کلیدی عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔ کچھ آزادی پسند سکھوں نے برہمن کی نیت بھانپ لی اور بھارتی ہندوؤں کے مظالم سے تنگ آکر خالصتان کی بنیاد رکھ دی۔ سکھوں نے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا شروع کی تو بھارتی حکومت نے چالیس ہزار سے زائد سکھوں کو بلاجواز گرفتار کر لیا۔ پھر اندرا گاندھی نے جو ضرب سکھوں پر لگائی وہ شاید سکھ تاقیامت نہیں بھول پائیں گے۔

آپریشن بلیو اسٹار میں سکھوں کے سب سے مقدس دربار گولڈن ٹیمپل کی بے حرمتی کی گئی اور سکھوں کا وہ قتل عام ہوا کہ خدا کی پناہ! 1984 کے اس سانحے کا نتیجہ یہ نکلا کہ 31 اکتوبر 1984 کو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو ان کے اپنے دو سکھ محافظوں ستونت سنگھ اور بے انت سنگھ نے قتل کر دیا۔

نتیجتاً سکھوں پر مظالم کا سلسلہ مزید دراز ہو گیا اور خالصتان کی تحریک کو جبر کے زور پر کچل دیا گیا، جب کہ بدقسمتی سے اُس وقت کی پاکستانی حکومت نے بھی بھارت کا ہی ساتھ دیا،۔ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا جس نے سقوطِ ڈھاکا میں اہم کردار ادا کیا تھا اور جو بھارت کا قومی ہیرو سمجھا جاتا تھا اس وقت بھارتی پارلیمان کا ممبر تھا، اس نے سکھوں پر ہونے والے مظالم کی مذمت کی تو نوبت یہاں تک آ گئی کہ ایک سابق جنرل کو اپنی جان بچانے کے لیے کسی دوسرے ملک کے سفارت خانے میں پناہ لینا پڑی۔ اس سانحے کے بعد بہت سے سکھ بھارت سے یورپ، امریکا بالخصوص کینیڈا منتقل ہو گئے؛ تاہم انتقام کی آگ ابھی تک ٹھنڈی نہیں ہو سکی۔

آپریشن بلیو اسٹار کے وقت جنرل اے ایس ویدیا انڈیا کا آرمی چیف تھا، اس کو بھی دو برس بعد سکھوں نے قتل کر دیا۔ 1986 میں اروڑ سنگھ اور سکھویندر سنگھ ببر نے ’’خالصتان لبریشن فورس‘‘ نامی ایک عسکری تنظیم کی بنیاد رکھی، یہ خالصتان تحریک کی ایک بڑی فورس ہے۔ آج بھی سکھ اندرا گاندھی کو اپنا مجرم گردانتے ہیں اور بھارت کے سکھ اکثریتی علاقوں میں خالصتان بنانے کے خواہشمند ہیں۔لہٰذامیرے خیال میں احتجاج کرنے والے کسانوں میں 80فیصد کا تعلق سکھوں سے ہے، اور اِس وقت سکھوں کی بڑی تعداد بھارتی پنجاب میں آبادہے جن کا ذریعہ معاش زراعت سے وابستہ ہے۔اس لیے یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ موجودہ تحریک شاید اب ’’تحریک خالصتان‘‘ بن جائے گی ۔

بہرکیف موجودہ حالات کے تناظر میں یہی لگتا ہے کہ اگرمودی سرکار کی یہی پالیسیاں جاری رہیں تو وہ دن دور نہیں جب بھارت سویت یونین کی طرح بکھر جائے گا، اس حوالے سے صرف پاکستان میں ہی باتیں نہیں ہو رہیں بلکہ عالمی میڈیا کا بھی کہنا ہے کہ موجودہ احتجاج ایک بغاوت کی صورت میں پورے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے اور بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتا ہے۔بھارتی کسان صرف اصلاحات کے لیے احتجاج نہیں کررہے بلکہ یہ تحریک بھارت کے پورے معاشی ڈھانچے کو تبدیل کردیگی۔

بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آپ کو آج جو غصہ نظر آرہا ہے اس کے کئی محرکات ہے۔ بھارت میں معاشی عدم مساوات بڑھتی جارہی ہے اور کسان غریب سے غریب تر ہورہا ہے۔ بھارت کے پالیسی سازوں نے کبھی اس پر توجہ ہی نہیں دی اور اوپر سے نیچے تک نظام کا خون چوس رہے ہیں۔ یہ کسان تو صرف اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ لیکن مودی حکومت نے کسانوں کے تحفظات دور کرنے کے بجائے اس احتجاجی تحریک کو تتر بتر کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔

جو کسی بھی وقت ایٹم بم کی طرح پھٹ سکتا ہے!لہٰذامودی حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ بھارت میں ہر سال پانچ سے چھ ہزار کسان غربت اور قرضوں کی وجہ سے خود کشی کر لیتے ہیں اور نئے زرعی قوانین ان کو مزید کنگال کر دیں گے۔ اگر مودی سرکار نے اسی طرح طاقت کے بل پر عوام کو کچلنے کی پالیسی جاری رکھی تو وہ دن دور نہیں جب مودی سرکار کا تختہ الٹ دیا جائے گا اور جہاں جہاں بھارت میں علیحدگی کی تحاریک چل رہی ہیں، وہاں آزاد ریاستیں قائم ہوجائیں گی جس کی ابتدا خالصتان سے ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔