کچرا کچرا ہوتا پاکستان

سید معظم حئی  جمعـء 29 جنوری 2021
moazzamhai@hotmail.com

[email protected]

حالیہ برسوں میں خصوصاً پچھلے دو ایک سالوں میں اگر آپ کا ریل سے سفر کرنے کا اتفاق ہوا ہے تو یقیناً آپ نے مختلف اسٹیشنوں اور شاید اپنی ٹرین میں بھی ایسے لوگ دیکھے ہوں گے جو اپنے موبائل فون اور دوسرے کیمروں سے ٹرینوں اور اسٹیشنوں کے ویڈیو بنا رہے ہوں گے۔ ان لوگوں میں سے اکثر یوٹیوب، وی لاگرز ہیں جو مسلسل درجنوں کے حساب سے پاکستان ریلوے پہ ویڈیوز اپنے اپنے یوٹیوب چینلز پر اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں۔ یہ ویڈیو عام طور پر دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو وی لاگرز اسٹیشنوں پہ کھڑے ہوکے بناتے ہیں اور دوسرے وہ جو خود ٹرین میں سوار ہوکر بنائے جاتے ہیں۔

یہ ویڈیوز لوگوں کو تفریح کے ساتھ ساتھ معلومات بھی فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان میں ریل بس یعنی ٹرینوں کے شوقین لوگ لاکھوں بلکہ کروڑوں میں ہیں، ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھیں شاذ شاذ ہی ریل کے سفرکا موقعہ ملتا ہے چنانچہ کچھ عجب نہیں کہ یوٹیوب پہ پاکستان ریلوے پہ وی لاگرز کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے جس سے ایک طرف ان لوگوں کو کچھ آمدنی حاصل ہو جاتی ہے تو دوسری جانب ریلوں کے شوقین لوگ گھر بیٹھے پاکستان بھرکی ٹرینوں اور اسٹیشنوں کے ویڈیوز سے لطف اندوز ہوتے ہیں، مگر بدقسمتی سے اب ان ویڈیوز کو دیکھنا کسی بھی باذوق فرد کے لیے جمالیاتی بدذوقی کے مترادف ہوتا جا رہا ہے اور اس کی وجہ ہے ان ویڈیوز میں ہر جگہ نظر آتا کوڑا کرکٹ۔ یہ تین طرح کا کچرا ہے ایک تو وہ جو جیسے ہی ٹرین کسی گاؤں، قصبے یا شہر کی حدود میں داخل ہوتی ہے تو یہ باہر نکلنے تک آبادیوں کے ساتھ کچرے کے ڈھیر کے ڈھیر پڑے نظر آتے ہیں۔

دوسری طرح کا کوڑا کرکٹ وہ ہے جو ریلوے اسٹیشنوں کی حدود میں پڑا ہوتا ہے اور تیسری قسم وہ ہے جو کہ ملک بھر میں یہاں تک کہ جنگلوں، بیابانوں میں بھی ریلوے لائن کے دونوں طرف بکھرا دکھائی دیتا ہے، یہ وہ کچرا ہے جو ریل میں بیٹھے جہلا ڈبے کی کھڑکیوں سے مسلسل باہر پھینکتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں بہت سے مولوی حضرات اور دوسرے مذہبی افراد نے عام لوگوں کے ذہنوں میں بٹھا دیا ہے کہ نصف ایمان والی صفائی بس ذاتی طہارت ہے اور اپنے چاروں طرف کوڑا اور گندگی پھیلانے سے اس کا قطعاً کوئی تعلق نہیں لہٰذا آپ کو لوگ کاروں، بسوں، ریل گاڑیوں کی کھڑکیوں سے بے دریغ کوڑا پھینکتے نظر آتے ہیں، وہ تو خوش قسمتی ہے کہ یہ ہوائی جہازوں کی کھڑکیوں کے شیشے نہیں کھول سکتے ورنہ پاکستان بھرکے ایئرپورٹس کے رن وے بھی کچرے سے اٹے پڑے ہوتے۔

پاکستان ریلوے پہ بنائے جانے والے یوٹیوب ویڈیوز میں آپ کو پاکستان بھر میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک کچرے کے جو یہ نہ ختم ہونے والے ڈھیر نظر آتے ہیں ، ان کا تقریباً 60 سے 80 فیصد حصہ پلاسٹک کی تھیلیوں پر مشتمل ہے جنھیں شاپر پکارا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہر سال 55 ارب یعنی 5500 کروڑ سے بھی زیادہ یہ پولی تھین کی تھیلیاں تیارکی جاتی ہیں، جنھیں شاپنگ بیگ یا شاپرکہا جاتا ہے۔ لوگ ایک آدھ بار یہ تھیلیاں استعمال کرکے کوڑے میں پھینک دیتے ہیں۔ پولی تھین کی یہ موذی تھیلیاں قدرتی طور پہ تلف نہیں کی جاسکتیں۔

ان کو جلائے جانے سے فضا میں زہر آلود گیسز پھیلتی ہیں جن سے انسانوں کوکینسر جیسی جان لیوا بیماریاں لاحق ہونے کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ یہ پولی تھین کی تھیلیاں ایک طرف تو ملک میں ہر طرف کچرے کے لامتناہی ڈھیر پیدا کرتی ہیں تو دوسری طرف ان سے سیوریج کا نظام برباد ہوتا جا رہا ہے۔کراچی کے سمندر میں ہر روز ہزاروں ٹن شہری، صنعتی اور زرعی فضلہ بشمول بے شمار پلاسٹک تھیلیوں کے گرتا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ پلاسٹک مالیکیولز مچھلیوں کے گوشت کا حصہ بن کر انسانوں کے پیٹوں میں منتقل ہوکر انھیں نت نئی بیماریوں میں مبتلا کر رہے ہیں۔ پلاسٹک کی تھیلیوں کے کچرے سے ملک کی زرخیز زمین اور مویشیوں کو بھی سنگین نقصان پہنچ رہا ہے مگر بھلا کسے اس تباہی کی پرواہ، وفاقی و صوبائی حکومتیں خصوصاً دیہی سندھ کی نمایندہ سائیں سرکار تو بس پلاسٹک کی تھیلیوں پہ پابندی کا حکم دے کر بیٹھ جاتی ہیں، عمل کسے کرانا ہے۔

ملک ویسے ہی ناقابل حکومت ہو چکا ہے، ایک طرف اٹھارہویں ترمیم نے وفاق کو ازحد کمزور کردیا ہے تو دوسری طرف ملک میں کمزور اور حقیقی شریف شہریوں کے علاوہ اب حکومت، طاقتور اداروں جن کے این آر او پہ این آر اوز نے ملک کو اس حال تک پہنچایا ہے، طاقتوروں کو ریلیف دینے والے نظام عدل اور ناقابل اصلاح کرپٹ سرکاری محکموں کا ملک کے مختلف طبقات اور خطوں پہ کنٹرول اب عملاً ختم ہو چکا ہے۔

چنانچہ اب آپ بھول جائیں کہ حکومتی پابندیوں سے ملک میں پلاسٹک کی تھیلیاں بنانے والے، دکاندار اور شہری پلاسٹک کی تھیلیاں بنانے، استعمال کرنے اور کچرے میں پھینکنے سے باز آجائیں گے اور جو حکومت نے بھولے سے بھی اگر بزور طاقت پلاسٹک کی تھیلیوں پہ پابندی پہ عمل کرانے کی کوشش کی تو میڈیا ہاہا کار مچا دے گا۔

ٹی وی ٹاک شو اینکر پلاسٹک کی تھیلیوں کے کارخانے والوں اور دکانداروں کو ساتھ بٹھا کر ان سے ہونے والی اس ’’زیادتی‘‘ پہ آسمان سر پہ اٹھا دیں گے اور ملک میں اس پابندی سے بے روزگاری بڑھنے کی دہائی دیں گے۔ ویسے بھی اب کسر صرف یہ رہ گئی ہے کہ ملک لوٹنے والے بڑے بڑے لٹیروں کی طرف داری کرنے والے یہ ٹی وی ٹاک شو اینکر اسٹریٹ کرمنلز کے حق میں بھی ٹاک شو کرنا شروع کردیں کہ اسٹریٹ کرمنلز کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے ورنہ ملک میں بے روزگاری بڑھے گی۔

لہٰذا عملی طور پر پلاسٹک کی تھیلیوں کی اس تباہ کن وبا کو روکنے کا صرف یہی طریقہ رہ گیا ہے کہ وفاقی حکومت نجی شعبے کے ساتھ مل کر میڈیا پہ پلاسٹک کی تھیلیوں کے نقصانات اور سودا سلف لانے کے لیے کپڑے کے تھیلے یا بان کی ٹوکری استعمال کرنے کے فائدوں کے بارے میں وسیع پیمانے پہ مسلسل آگہی مہم چلائے۔ اس میڈیا مہم سے میڈیا کے مالی مسائل میں بھی کمی ہوگی اور حکومت سے میڈیا کی ناراضگی میں کچھ کمی آسکے گی۔ ہمارے وزیر اعظم دوسروں کو لیکچر دینے کا کوئی امکان رائیگاں نہیں جانے دیتے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وہ پلاسٹک کی تھیلیوں کے نقصانات اور ان کی جگہ کپڑے کے تھیلے اور بان کی ٹوکریوں کے استعمال کے فوائد جیسے موضوعات پہ قوم کو ہفتہ دو ہفتے میں ٹی وی پہ آکر لیکچر دے دیا کریں۔ یہ کوئی معمولی معاملات نہیں، ان پلاسٹک کی تھیلیوں نے پورے ملک کو کچرا خانہ بنا دیا ہے۔ پاکستان کو کچرا کچرا ہونے سے بچا لیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔