خیال آرائی

ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں وہاں لوگ مذہب کے معاملے میں بڑے ہی جذباتی ہیں

ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں وہاں لوگ مذہب کے معاملے میں بڑے ہی جذباتی ہیں

مارکیز
یادداشت کا مرگ اورڈائری کے اوراق

ہمیں ایک ہول ناک مرض نے آن گھیرا ہے، اور یہ کورونا نہیں، اُس سے بھی گھاتک وبا ہے۔

گیبرئیل گارسیا مارکیز کا ناول ’’تنہائی کے سو سال‘‘ یاد آتا ہے۔ ناول، جس میں حیرتوں کا ایک جہان آباد۔ حقیقت کی طلسماتی زمین پر اگنے والے مناظر، جو ذہن پر نقش ہوجائیں۔ اور اُن ہی میں ایک منظر ۔۔۔ہر نقش کے مٹ جانے کی کہانی بیان کرتا ہے۔

جی، ناول میں ایک ایسا مرحلہ آتا ہے، جب ماکوندا میں۔۔۔وہ بستی جس کی گلیوں میں مارکیز کی کہانی سانس لیتی ہے، ایک مرض در آتا ہے۔ یادداشت کھودینے کا مرض۔ آغاز عام سی باتوں کے بھول جانے سے ہوتا ہے، مگر جلد بوئندا خاندان کو ادراک ہوتا ہے کہ وہ ایک مشکل میں پھنس چکے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے اردگرد موجود اشیا کے نام بھولتے جارہے ہیں، بلکہ جلد ایک لمحہ ایسا بھی آئے گا، جب وہ یہ بھی بھول بیٹھیں گے کہ وہ اِن اشیا کو استعمال کیسے کرتے تھے۔

بستی میں سراسمیگی پھیل جاتی ہے۔ اِس سے لڑنے کے لیے جو حل تجویز کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ اشیاء کے ساتھ ایک تختی آویزاں کر دی جائے، جس پر نہ صرف یہ درج ہو کہ اُس شے کا نام کیا ہے، بلکہ یہ بھی ساتھ ہی لکھ دیا جائے کہ اُسے کس مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے: یہ کرسی ہے، اس پر بیٹھا جاتا ہے یا یہ گائے ہے، یہ دودھ دیتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔

خوشی قسمتی سے جلد یہ مرض معدوم ہوجاتا ہے، اور کہانی آگے بڑھ جاتی ہے۔

البتہ شاید ہماری کہانی یہیں ٹھہر گئی ہے کہ ہم ہنوز اپنی مرتی ہوئی یادداشت کے یرغمال ہیں۔ کسی بھولے بسرے زمانے میں سانحات، حادثات ہماری یادداشت پر نقش ہوجاتے تھے، مگر 9/11 کے بعد وقت نے یوں رفتار پکڑی، المیوں کی یوں بہتات ہوئی کہ ہماری یادداشت گھٹتی چلی گئی۔ واقعات کی ریل پیل میں اب ہم یہ بھی بھول چکے ہیں کہ کچھ ہی برس قبل شہر کراچی کے سینے پر کتنے گھائو لگے تھے، کوئٹہ کی فضائوں میں کیسے کرب رچ بس گیا تھا، پشاور کی سڑکیں کیسے سرخ ہوئی تھیں۔

کہتے ہیں، جو شے ذہن سے محو ہوئی، وہ بے معنی ہوگئی۔ اور آج ہمارے گھٹتی، سمٹتی یادداشت نے زندگی کو حسین اور بامعنی بنانے والی کئی اشیا کو بے معنی کر دیا ہے۔

اس مسئلے کے اسباب پر تو نیورولوجسٹ زیادہ بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں، مگر ایک بڑا سبب معلومات کی بھرمار بھی ہے۔ بالخصوص وہ معلومات، جس کے جال نے سوشل میڈیا کے ذریعے ہمیں یرغمال بنا لیا۔ پریشان کن پہلو یہ ہے کہ اِس معلومات کا بڑا حصہ ہماری زندگیاں بہتر بنانے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا۔ لائیکس کی گنتی، تبصروں کے تھریڈ، سیاسی ونظریاتی مباحثے؛ افادیت کے ترازو میں تولا جائے، تو یہ بہت ہلکے ثابت ہوتے ہیں۔ مسلسل کی جانے والی پوسٹس، پھر ان پر آنے والے کومنٹس کا جائزہ، بعد ازاں اُن کا ردعمل؛ جہاں آدمی کا بہت سے وقت ضایع ہوجاتا ہے، وہیں توجہ مرکوز رکھنے کی صلاحیت بھی ماند پڑ جاتی ہے۔

مارکیز کے کردار خوش قسمت تھے کہ ناول کے پلاٹ میں آنے والی تبدیلیوں نے یادداشت سے محرومی کے مرض سے انھیں بچا لیا، مگر ہمارا معاملہ دیگر۔ ہمیں اس ضمن میں خود کچھ اہتمام کرنا ہوگا، بالخصوص ایسے وقت میں، جب نیا سال تازہ تازہ ہے۔

ہمارے نزدیک اس نئے سال، جو ایک مشورہ نوجوانوں کو دیا جاسکتا ہے، وہ لکھنے کی سمت پلٹنا ہے، کاغذ اور قلم کی سمت پلٹنا۔ جب ہم ایک بامعنی، بامقصد زندگی گزارنے کی سعی کرتے ہیں، تو چاہے ہم بے روزگار ہوں یا برسر روزگار، امیر ہوں یا غریب، ہماری اصل قوت، ہمارا اصل سرمایہ ’وقت‘ ہوتا ہے۔ ہم نئے سال پر خود سے کئی عہد کرتے ہیں، فیس بک پر اعلانات کیے جاتے ہیں، مگر جوں جوں سال آگے بڑھتا ہے، یہ وعدے ریت کے ذرات کی طرح ہاتھ سے پھسلتے جاتے ہیں۔

انتشار اور معلومات کی بھرمار میں خود کو فوکس رکھنے کا موثر ترین طریقہ یومیہ ڈائری لکھنا ہے۔ روز، کسی وقت کاغذ اور قلم لے کر بیٹھ جانا۔ اگر آپ اس برس یومیہ ڈائری لکھنے کا عہد کر لیں، اور اِسے نبھا سکیں، تو آپ کام یاب ٹھہریں گے۔ اگر اِن روزنامچوں کو مزید کارآمد بنانا چاہتے ہیں، تو ’’بلٹ جرنل‘‘ اور ’’مینٹل بینک‘‘ کی تیکنیک استعمال کریں، جس کے فوائد طے شدہ۔ ان دونوں کے بارے میں آپ گوگل اور یوٹیوب پر سرچ کرسکتے ہیں۔

تو صاحبو! اگر آپ اس سال 100 کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں، ہر ہفتے ایک فلم دیکھنا چاہتے ہیں یا ’کے ٹو سر‘ کرنا چاہتے ہیں، تو پہلا قدم اپنے ارادوں اور منصوبوں کو ایک سفید کاغذ پر لکھ ڈالنا ہے۔ ڈائری میں درج ارادہ۔۔۔ اور ڈائری وہ، جسے روز لکھا جائے، اپنے اندر طلسماتی قوت رکھتا ہے۔ ڈائری لکھنے کی عظیم روایت کو بازیافت کرنے کے لیے 2021 سے بہتر کوئی سال نہیں۔ اس لمحے سے بہتر کوئی لمحہ نہیں۔

آئیں، ہر شے کے گلے میں ایک تختی آویزاں کر دیں۔

۔۔۔

فرخ مرزا، نادرہ اور شریعت
فرحین شیخ

اور کل میرے اندر کے ایک بہت بڑے خوف نے شکست کھالی۔ کہانی کے آغاز میں ہی میں بتاتی چلوں کہ سالوں تک میرے اندر پنپتا یہ خوف کون سا تھا۔ زمانہ حمل کے نو ماہ مجھ پر طاری رہنے والا یہ خوف ٹرانس جینڈر بچے کی پیدائش کا تھا۔ میں اکثر یہ سوچ کر لرز جاتی کہ میری کوکھ سے عام بچے نے نہیں بلکہ ٹرانس جینڈر نے جنم لے لیا تو کیا ہوگا؟ یہ وہ خوف تھا جو اس سماج میں ٹرانس جینڈرز کے ساتھ ہونے والے شرم ناک اور غیرانسانی سلوک کا نتیجہ تھا۔ واہیات سے میک اپ میں سڑکوں پر ناچتے گاتے بھیک مانگتے ان خواجہ سراؤں کو دیکھ کر دل بیٹھ سا جاتا اور دل سے دعا نکلتی کہ خدایا میرے گھر اس مخلوق کا جنم نہ ہو۔

فیڈرل بی ایریا میں واقع فرخ مرزا سیلون کی سیڑھیاں چڑھتے وقت میں ایک بے نام سی بے چینی کا شکار تھی۔ یہ بے چینی دو حوالے سے تھی ایک تو یہ کہ میں اپنے بالوں پر ایک نئے فرد کے ہاتھوں قینچی چلوانے والی تھی جس کا رسک میں لینے کو کبھی تیار نہیں ہوتی اور اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ تھا کہ قینچی اس شخص کے ہاتھوں میں تھی جسے زمانہ ٹرانس جینڈر کے نام سے جانتا ہے۔

چہرے پر متانت اور سنجیدگی، سادہ سا حلیہ، سانولا رنگ، پُراعتماد لہجہ، میکانکی اور ماہرانہ انداز میں چلتے ہاتھ، کپڑوں سے اٹھتی ہلکی سی خوش گوار مہک۔ میں نے آج تک کسی ٹرانس جینڈر کو اتنے قریب سے نہیں دیکھا جتنا اس وقت دیکھ رہی تھی۔

اپنے نام کی طرح باوقار فرخ مرزا کا تعلق یوں تو ٹرانس جینڈر کمیونٹی سے ہے لیکن پیشے کے اعتبار سے وہ ہیئر اینڈ میک اپ آرٹسٹ ہیں۔ فرخ کو اپنے ٹرانس جینڈر ہونے پر فخر ہے۔ ان کو اس مقام پر پہنچانے میں بے شک اس کے والدین اور خاندان کے دیگر افراد کا بڑا کردار ہے جنہوں نے فرخ کو کم عمری میں ہی خواجہ سراؤں کو دان کرنے کے بجائے اس کی بہترین پرورش کی اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بنایا۔

فرخ اس وقت بھی اپنے آبائی گھر میں مقیم ہیں۔ گھر کے دیگر افراد امریکا نقل مکانی کرچکے ہیں اور فرخ کو ان کے بھائی امریکا بلانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

گھر کی بالائی منزل گویا فرخ کی کُل دنیا ہے جہاں وہ عورتوں کو سجانے سنوارنے کا شوق پورا کرتی ہیں۔ اپنی محنت سے نہ صرف خود کماتی ہیں بلکہ کئی عورتوں کے لیے ذریعہ روزگار بھی بنی ہوئی ہیں۔ ان کے سیلون کی ورکرز تو عام لڑکیاں اور خواتین ہی ہیں لیکن کسٹمرز میں خواجہ سرا بھی شامل ہیں۔

فرخ کے دروازے کے اندر قدم رکھ کر معلوم ہوا کہ مسجد کے ٹھنڈے فرش کے علاوہ بھی بعض جگہیں بہت پُرسکون ہوتی ہیں اور یہ بھی ادراک ہوا کہ ہم میں اور ٹرانس جینڈرز میں تو کوئی فرق ہے ہی نہیں سارا فرق ہمارے اپنے ذہنوں میں پلتی سوچ کا ہے۔

کیا اس سماج کی فضا فرخ اور ان جیسے دیگر ٹرانس جینڈرز کے لیے سازگار ہے؟ یہ ایک سوال وہاں گزارے ہر لمحے میں میرے اندر ہتھوڑے کی طرح برستا رہا۔ ایک طرف ٹرانس جینڈرز کی اپنی بقا کے لیے جنگ ہے تو دوسری جانب وہ دھکے ہیں جو سماج انہیں دے کر واپس پیچھے کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ ابھی کوئی ہفتے بھر پہلے کی ہی تو خبر ہے کہ ایک بڑے نجی بینک کی مانسہرہ میں واقع برانچ میں ایک خواجہ سرا نادرہ اکاؤنٹ کھلوانے گئیں جن کا اکاؤنٹ تمام ضروری کارروائی کے بعد کھول دیا گیا، لیکن پھر فوراً ہی بینک کے ہیڈکوارٹر نے یہ کہہ کر ان کا اکاؤنٹ بند کردیا کہ یہ خواجہ سرا ہیں اور ان کی آمدنی غیرشرعی ہے، کیوں کہ بینک کے بورڈ نے اس پر پابندی لگا رکھی ہے اس لیے بینک نے اکاؤنٹ کھولنے سے انکار کردیا۔ اس کے باوجود کہ نادرہ کے شناختی کارڈ پر جنس کے خانے میں “مرد ” درج تھا۔

ہمارے جیسے مردہ معاشروں میں ایسی خبروں کی گنجائش ہمیشہ ہی رہتی ہے۔ شریعت کے نام پر وہ کون سا بڑا کھیل ہے جو ہمارے یہاں نہیں کھیلا گیا۔ مذہب کے نام پر کتنے ہی جال نہیں بچھائے گئے اور اس بساط پر وہ کون سی شاطرانہ چالیں ہیں جو نہیں چلی گئیں۔ لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ شریعت کو جیتے جاگتے انسانوں کا دم گھونٹنے کا آلہ تو نہ بنایا جائے۔ خصوصاً ان لوگوں کا جن کی پیدائش میں اپنا نہ کوئی اختیار ہو اور نہ ہی کوئی قصور۔ شریعت تو اضطرار کی حالت میں سور اور مردار کھانے کی بھی گنجائش نکال لیتی ہے وہ خواجہ سراؤں کے معاملے پر اتنی سفاک کیسے ہوسکتی ہے؟

ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں وہاں لوگ مذہب کے معاملے میں بڑے ہی جذباتی ہیں، لیکن افسوس کہ ان کا مذہب فقط مفتی کی بات پر ایمان لانے کی حد تک ہے۔ ایسے سماج میں مذہب کے یہ نام نہاد وارث جس کو لاوارث چھوڑ دیں پھر اس کا کوئی بھی پرسان حال نہیں رہتا۔ کچھ ایسا ہی سلوک خواجہ سراؤں کے ساتھ ہورہا ہے۔ ان کا بھی یہاں کوئی وارث نہیں کیوں کہ ابھی سماج کی شریعت ان کی لاٹھی بننے کو تیار نہیں ہے۔

خواجہ سراؤں کے ساتھ اس سفاکی کی ابتدا تو ان کے اپنے گھروں سے ہی ہوجاتی ہے، سب سے بڑے دشمن تو خود والدین بن جاتے ہیں جو اپنے ہی پیٹ سے جنم لینے والے ٹرانس جینڈر کو قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں اور ان کے لیے عام زندگی گزارنے کے دروازے خود بند کردیتے ہیں۔ فرخ مرزا جیسے ٹرانس جینڈرز گنتی کے چند ہی تو ہیں، جو اپنی عملی زندگی میں کام یاب بھی ہیں اور سر اٹھا کر اپنی بھی شناخت بتاتے ہیں، کیوں کہ ان کو یہ فخر دینے والے ان کے والدین ہیں جنہوں نے بہترین تعلیم اور ہنر سے آراستہ کرکے اپنے بچوں کو معاشرے میں تماشا بننے سے بچالیا۔

فرخ مرزا جیسے لوگ، چاہے ان کے شناختی کارڈ میں جنس کا خانہ کچھ بھی کہتا ہو، ہمارے معاشرے کا بلاشبہہ فخر ہیں۔ فرخ مرزا ایک آرٹسٹ ہی نہیں بلکہ روایت شکن بھی ہیں جو ٹرانس جینڈرز سے وابستہ اس ٹیبو کو توڑنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں جو بدقسمتی سے ہمارے سماج کی جڑوں کو غیرانسانی حد تک کھوکھلا کر رہا ہے۔ کیوں نہ ہم اس ٹیبو کو توڑنے میں فرخ مرزا اور ان جیسے دوسرے ٹرانس جینڈرز کا ساتھ دیں۔ ان کے کام کی جگہوں پر جا کر ان کی آمدنی میں اضافہ کریں، تاکہ سماج کی شریعت ان کی کمائی کو حرام قرار دے کر ان کے کھاتے کھولنے سے انکار تو نہ کرسکے۔

۔۔۔

’’سانتا کلاز‘‘
رضوان طاہر مبین

گذشتہ دنوں ہم برادرم اسد اسلم کی بھجوائی گئی ’اسباب بغاوت ہند‘ کی ورق گردانی کر رہے تھے۔۔۔ اس دوران ہم نے یوں ہی کمرے میں موجود بھانجے ابراہیم صاحب کو سرسید احمد خان کی تصویر دکھا کر پوچھ لیا کہ ’جانتے ہیں انھیں، کون ہیں۔۔۔؟‘

انھوں نے تصویر کو ایک نظر غور سے دیکھا اور لاعملی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’پتا نہیں کون ہے۔۔۔ ’سانتا کلاز‘ ہوگا۔۔۔!‘‘

قبل اس سے کہ ہم اُن کی لاعلمی پر افسوس کرتے، لیکن اُن کے جواب کے اگلے حصے نے ہمیں مزید چونکا دیا۔۔۔ ہمیں اُن سے زیادہ خود پر افسوس ہوا کہ ہماری اور ان کی اکثر گفتگو میں ایسی ہی تاریخی معلومات کا ذکر اکثر ہوتا ہے، شاید کبھی سرسید کا ذکر بھی کیا ہوگا، لیکن وہ اُن کے حافظے میں محفوظ نہ رہ سکا، ہم نے یہ جاننا چاہا کہ آخر ’سانتا کلاز‘ کو انھوں نے کہاں دیکھا، تو پتا چلا کہ ہندوستان سے نشر ہونے والے بچوں کے طویل افسانوی سلسلے ’بالویر‘ سے، جسے ’یوٹیوب‘ دیکھنے سے وہ کم ہی باز رہتے ہیں۔۔۔

ہمارے بھانجے ابراہیم ایک نجی اسکول میں تیسری جماعت میں زیرِتعلیم ہیں، اُن کے اس افسوس ناک جواب میں جہاں ہمارا اپنا قصور ہے، وہیں نصاب، اسکول اور اساتذہ بھی برابر کے شریکِ جرم ہیں۔۔۔ ہم اپنا وقت یاد کرتے ہیں، تو نصاب کے علاوہ غیرنصابی یا آج کی زبان میں کہیں تو ’ہم نصابی‘ سرگرمیوں میں بھی لازماً قائداعظم، علامہ اقبال کے بعد جس تیسری شخصیت کا سب سے زیادہ ذکر ہوتا تھا، وہ جنابِ سرسید احمد خان ہی کی ہوتی تھی۔۔۔ ہمیں خوب یاد ہے کہ اسی مناسبت سے ہمارے نجم دہلی بوائز پرائمری اسکول میں طلبہ کو چار گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا، تاکہ نظم وضبط اور تعلیم کے تئیں ان کے درمیان صحت مند مسابقت پیدا کی جا سکے، ان گروپوں کے نام جناح، لیاقت، اقبال اور سرسید پر ہی تھے، اور ان گروپوں کے طلبہ کو بالترتیب سبز، زرد، سرخ اور جامنی رنگ کے بیضوی بیج لگائے جاتے تھے۔۔۔

اس کے علاوہ اسکول کے ہر سالانہ جلسے میں انھی اسلاف کے تذکرے ہوتے۔۔۔ مختلف خاکے اور ٹیبلو وغیرہ پیش کیے جاتے، اسٹیج پر پیش کی جانے والی دل چسپ سرگرمیوں کے لیے طلبہ انھی قائدین کا روپ دھارتے۔۔۔ یوں ہم اپنے بزرگوں کو ان کی شکل کے ساتھ یاد کرلیتے۔۔۔ بہت سے اسکولوں میں تو دیواروں پر ان کی تصاویر لگائی اور بنائی جاتیں۔۔۔ ہمارے اسکول میں بھی بچے جب کبھی مصوری اور ڈرائنگ کے مقابلے کرتے، تو مختلف تاریخی مقامات کے علاوہ انھی اسلاف کے خاکے بناتے اور داد پاتے۔۔۔ پھر مصوری کے کچھ اعلیٰ ترین نمونے اسکول کے ’نوٹس بورڈ‘ کے بالکل سامنے دوسرے رخ پر بنے ہوئے شیشہ بند ’مشتہری چوکھٹے‘ میں بھی بہت دنوں تک آویزاں رہتے۔۔۔ اور آتے جاتے بچے اپنے نام کے ساتھ اپنی ڈرائنگ سجی ہوئی دیکھ کر مَن ہی مَن میں خوش ہوتے اور دوسرے بچے ان سے حوصلہ پاتے اور سیکھتے۔۔۔

آج اگر ایک نو سال کا بچہ ’سرسید احمد خان‘ کو ہی نہیں پہچانتا، تو یہ بات تہذیبی المیے سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین اور خاندان کے بڑوں سے بھول ہونے کے ساتھ ہمارا موجودہ تعلیمی نظام بھی بہت بری طرح بھٹک کر رہ گیا ہے۔۔۔ وہاں اسلاف کے تذکرے شاید اب ’گم شدہ‘ ہو چکے ہیں۔۔۔ وہاں اب کوئی ایسی سرگرمی ہوتی ہی نہیں، جہاں جناح، اقبال، لیاقت اور سرسید وغیرہ کے تذکرے ہوں۔۔۔ اُن کے نام سامنے آئیں۔۔۔ تاکہ بچہ انھیں پہچانتا ہو اور جب پہچانے گا، تو تبھی اپنے اصل اور اپنی جدوجہد اور تاریخ سے آشنا ہو سکے گا۔۔۔ اس کے بغیر اس میں کچھ کرنے اور سیکھنے کی امنگ کیوں کر جاگے گی۔۔۔

اس واقعے کے بعد ہم نے غور کیا کہ ہم نے اپنے نصاب میں پرائمری تک قائد اور اقبال کے ساتھ ’خدا پاکستان کی حفاظت کرے‘ کے عنوان سے لیاقت علی خان، ’آزادی یا موت‘ کے عنوان سے مولانا محمد علی جوہر، کے علاوہ عابدی بیگم (بی اماں)، حسن علی آفندی، ظہیر الدین بابر وغیرہ کو تو پڑھ چکے تھے۔ سرِدست ہمیں مزید نام یاد نہیں آرہے، کسی طرح نصاب کی پرانی کتب دست یاب ہوجائیں، تو ہمیں موازنہ کرنے میں آسانی ہو، کہ پہلے ابتدائی درجوں میں کیا پڑھایا جاتا تھا اور آج کیا حالت ہے۔ قصۂ مختصر یہ تمام صورت حال ہمارے مروّجہ نصاب کے علاوہ اساتذہ اور تعلیمی سرگرمیوں پر بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔۔۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔