خود اپنے ہی خنجر سے خودکشی

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 30 جنوری 2021
barq@email.com

[email protected]

ایک محترمہ نے دوسری محترماؤں سے کہا ہے کہ کم وقت میں زیادہ آمدنی کے لیے ماڈلنگ بہترین  پروفیشن ہے۔ مسئلہ کمائی کا ہے بلکہ جدید الفاظ میں کیریئر بلکہ ’’کارئیر‘‘بنانے کا ہے۔اس لیے ہم اس کی پرزورتائید کرتے ہیں واقعی اگرچہ اردگرد اور بھی پروفیشن ہوں گے لیکن ماڈلنگ کی کمائی نہ صرف زیادہ ہوتی ہے بلکہ اس میں شہرت بھی بہت ہوتی ہے ۔

کمائی کا لفظ پہلے بہت ہی کم رتبے کا لفظ ہوا کرتا تھا اور پرانے زمانے کے لوگ کمانے اور کمائی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے لیکن پھر انقلاب آیا اوپر کی مٹی نیچے اور نیچے کی مٹی اوپر ہونا شروع ہوئی جسے’’ہل‘‘چل بھی کہتے ہیں کہ ترقی کا ہل بلکہ ٹریکٹر چل گیا۔ چنانچہ ’’کمائی کا کم‘‘۔آئی ہوگیا ہے۔

انگریزی لفظ کم(come)کے جواب میں دیسی زبان نے کہا ’’آئی‘‘۔اور پھر کم کم آئی آئی ہوگیا۔اور ہرطرف اب صرف یہی دو آوازیں گونج رہی ہیں۔ اس پر ہمیں ایک اشتہاری مکالمہ یاد آرہاہے جو پڑوسی ملک کی بہت ساری ایجادوں میں سے ایک ایجاد ہے حالانکہ پبلسٹی ایک ڈیٹرجنٹ کی ہوتی ہے۔ ایک شوہر بڑبڑاتے ہوئے آتا ہے۔گرمی پسینہ، محنت۔  بیوی اس وقت واشنگ مشین میں کپڑے دھورہی ہے چنانچہ ایک کپڑا اٹھا کر،ایک ہاتھ پیچھے کمر پر رکھ کر ایک ہاتھ سے نچوڑنے کی کوشش یا ایکٹنگ کرتی ہے۔

شوہر کہتا ہے دونوں ہاتھوں سے نچوڑو۔آسان ہوگا نا۔اس پر ساس محترمہ کپڑے کا دوسرا سرا شوہر کے ہاتھ میں دے کرکہتی ہے۔دونوں کمائیں گے تو گھر چلانا بھی آسان ہوگا نا۔اس’’ دونوں کی کمائی‘‘ اور گھر چلانے کے ’’شعر‘‘ پریقیناً وہ لوگ سردھنیں گے جو’’کمائی‘‘کے لیے گھر یا گھر کے لیے کمائی کے علمبردار ہیں۔لیکن ہم جیسے اگلے وقتوں کے مڈل کلاسیے یا تھرڈ کلاسیے سوچ رہے ہیں کہ کیا ضروری ہے کہ ’’گھر‘‘کو ایک بہت سارے’’ڈبوں‘‘کی ریل گاڑی بنائیں اور پھر جسے ’’دوانجنوں‘‘کی ضرورت پڑے۔خواہشوں، فیشنوں اور فضولیات اور نمائشوں کے چند ڈبے الگ کیوں نہیں کرلیتے۔وہ محترمہ پندرہ ہزار کی واشنگ مشین گراں قیمت ڈیٹرجنٹ سے کپڑے دھورہی ہے جس میں واشنگ پاوڈر اور بجلی بھی خرچ ہوتی ہے۔

اگرکپڑے کم کرے۔حالانکہ کپڑے ایک اور طرح سے ’’کم‘‘کرنے کا سلسلہ بھی ہے۔لیکن اگر تعداد میں کم کرے اور سادھارن طریقے پر دھوئے تو تاریخ میں ایسی کوئی مثال ریکارڈ نہیں ہوئی ہے کہ کوئی عورت کپڑے دھونے یا تعداد میں کم کپڑوں یا بغیر واشنگ اور ڈیٹرجنٹ کے مرگئی ہو۔البتہ ایسی مثالیں نہ صرف تاریخ بلکہ جغرافیہ میں اور معاشرتی علوم میں بے شمار ہیں کہ دونوں کمائی کے لیے نکلنے والوں کی پھر کوئی خبر اپنے آپ کوبھی نہیں ہوتی۔

…نکلے گی تو پھر ’’دور‘‘تلک جائے گی۔

کیونکہ خواہشات،نمائشوںاورآسائشوں کا جنگل بہت دور دور تک پھیلا ہوا ہے، ایک مرتبہ بچھڑ جائیں تو پھر کبھی نہیں ملتے۔کمائی۔کم۔آئی کی یہ دنیا بہت زیادہ روشنی کی وجہ سے انتہائی تاریک بھی ہے اور جو تاریک راہوں میں مارے جاتے ہیں وہ رزق خاک ہوجاتے ہیں۔

اس دشت میں ایک شہر تھا وہ کیا ہوا آوارگی۔یہ رونا تو ہم اکثر روتے ہیں کہ ’’ماں‘‘کو کمائی پر لگانے کے بعد کمائی تو آجاتی ہے لیکن ’’مائی‘‘پھر کبھی واپس نہیں آتی۔ چاہے کوئی ہزار بار مائے نی مائے نی گائے۔ہمیں پتہ ہے کہ اس بے پناہ شور میں ہماری’’صدا‘‘سسکیوں کی سنائی نہیں دے رہی ہے لیکن ہم بھی کیا کریں کہ ہمیں ایٹم بم کی تباہی سے اتنا ڈر نہیں لگ رہاہے جتنا انسانی زوج کے ٹوٹنے سے لگ رہاہے جو خدا کی لاٹھی کی طرح بے آواز ہے لیکن بہت ہی دردناک بھی ہے۔رونا دھونا بہت ہوچکا ہے اور آیندہ بھی روتے رہیں گے کہ اب یہ عمر بھر کا رونا ہے۔لیکن اب تھوڑی سی خوشی کی بات بھی ہوجائے، پڑوسی ملک کے چینلوں اور ’’آزادی‘‘کی یلغار آہستہ آہستہ ہم پر بھی ہورہی ہے، مومبائی گالی وڈ اور اونچی سوچ ہم پر اثرانداز ہورہی ہے یوں کہیے کہ علامہ اقبال کی یہ بات سچ ہورہی ہے کہ

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی

جوشاخ نازک پہ بنے گا آشیانہ ناپائدار ہوگا

ترقی کی دھن اور خود کو ترقی یافتہ بنانے کے جنون میں اب وہاں ساری ترقی’’عورت‘‘کے جسم کے گرد گھومنے لگی ہے کیونکہ وہاں کے دھرم میں ایسا کچھ نہیں ہے جو اس ترقی کو روک سکے یا ٹال سکے۔بلکہ قدم قدم پر اس کی مددگار چیزیں موجود ہیں۔لکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے شاید یہ ہمارے بزرگوں کی دعائیں ہیں یا دین حکیم کی، جو اب صرف تل چھٹ باقی رہا ہے کی برکت ہے کہ ہمارے معاشرے میں کچھ حدود وقیود باقی ہیں جو معاشرتی ڈھانچے کو مکمل تباہی سے روکے ہوئے ہیں۔

چنانچہ تمام تر خرابیوں کے باوجود اور اس یلغار کے ہوتے ہوئے بھی ابھی ہمارے پاس ایسا بہت کچھ ابھی باقی ہے جسے ہم ’’انسانی‘‘کہہ سکتے ہیں۔یعنی انسان ابھی مکمل طور پر حیوان نہیں بنا ہے اور نہ ہی صرف عورت کا جسم یا مشین۔عورت کو صرف گھر سے باہر نکالا گیاہے کپڑوں اور عورت پن سے باہر نہیں کیا ہے نہ ہی دکان بنایا گیاہے۔گویا ابھی انسان کے سینے میں دل باقی ہے

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت

احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

یہ حدود وقیود جو مکمل آزادی پسندوں کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں ابھی ہمارے محافظ بنی ہوئی ہیں بلکہ یوں کہیے کہ ’’دل‘‘کے محافظ بھی اور اس عورت کی بھی۔جو صرف جسم نہیں ہے ۔انسانیت کی ماں بھی ہے۔ہم جب اپنے اور ان کا موازنہ کرتے ہیں تو اپنی پس ماندگی اور اسلام کی حدود وقیود کو دعائیں دیتے ہیں جو مکمل تباہی سے بچائے ہوئے اگرچہ بہت ٹوٹ پھوٹ گیا ہے لیکن پشتو کہاوت کے مطابق۔گوشت جل بھی جائے تو ساگ سے اچھا ہوتا ہے۔میں جب بھی ’’پس ماندگی‘‘اور جہالت کا کوئی مظاہرہ دیکھتاہوں تو اپنے بزرگوں کو دعائیں دینے لگتا ہوں آگے خدا مالک ہے لیکن فی الحال تو وہ حالت نہیں جو وہاں ہے۔

آپ چینلوں پر نشر ہونے والی آزادی کو دیکھیے۔تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔کیا انسان کے پاس ایسا کچھ ابھی بچا ہے جو اسے حیوان سے ممتاز کرے۔جو صرف ’’پیٹ‘‘اور جسم سے الگ ہو اور یہ تو صدیوں سے انسان اور حیوان دونوں کے پاس ہیں سفر کچھ الگ سا ہوگیا تھا۔انسان لباس بھی پہنے لگاتھا اور کچھ اور بھی ایسا حاصل کیا جو پیٹ اور جسم کے علاوہ تھا،لیکن اب وہ جو علاوہ تھا یا لباس تھا وہ بھی اس نے پھینک دیا۔تو فرق کیا ہوا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔