جنوبی افریقہ کیخلاف کراچی ٹیسٹ میں فتح خوش آئند مگر۔۔۔

عباس رضا  اتوار 31 جنوری 2021
پاکستان ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل کیلئے بہت کچھ کرنا باقی۔ فوٹو: فائل

پاکستان ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل کیلئے بہت کچھ کرنا باقی۔ فوٹو: فائل

کرکٹ کا کوئی بھی فارمیٹ ہو بہتر کارکردگی کیلئے کنڈیشنز اور حریف ٹیم کی قوت کو پیش نظر رکھتے ہوئے موزوں کھلاڑیوں کا انتخاب ضروری ہے،کسی بھی معرکے کیلئے ہتھیاروں ہی پورے نہ ہوں تو جنگ لڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔

پاکستان ٹیم کے بیرون ملک ٹورز میں وسائل کی کمی کا سامنا رہا ہے، سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسی کمزور ٹیموں کیخلاف ہوم گراؤنڈ پر میچز میں کنڈیشنز سازگار اور کھلاڑی پر اعتماد تھے، اس لیے فتوحات بھی حاصل ہوئیں، دوسری جانب آسٹریلیا، انگلینڈ اور پھر نیوزی لینڈ میں میزبانوں کا مقابلہ کرنے کیلئے وسائل ہی کم ہونے کی وجہ سے مسائل زیادہ نظر آئے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بلند بانگ دعوے کئے جانے کے باوجود پاکستان کا ڈومیسٹک سسٹم ابھی تک ایسے کرکٹرز تیار نہیں کرسکا جو پیس، باؤنس اور سوئنگ والی مشکل کنڈیشنز میں بھی جاکر تسلسل کیساتھ کارکردگی دکھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

جواز پیش کیا جاتا ہے کہ تمام ایشیائی ٹیموں کو آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ میں کھیلتے ہوئے مشکلات پیش آتی ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ بہتر وسائل اور پلاننگ کی بدولت اگر بھارت کی ’’اے‘‘ ٹیم کینگروز کو ان کے ہوم گراؤنڈ پر شکست دے سکتی ہے تو ہماری کیوں نہیں؟ ویرات کوہلی کی عدم دستیابی اور بیشتر اہم کھلاڑیوں کی انجریز کے باوجود بھارتی ٹیم کے بیک اپ میں ایسے کھلاڑی موجود تھے جو انٹرنیشنل کرکٹ کا دباؤ برداشت کرتے ہوئے بے خوف ہوکر کارکردگی دکھانے کے اہل تھے۔

دوسری جانب پاکستان کا سسٹم یہ ہے کہ اوسط درجے کے کھلاڑی منتخب اور ڈراپ ہوتے ہیں، پھر اسی طرح کی اگلی کھیپ سے نئے مہرے بساط پر لائے جاتے ہیں، پٹ جانے پر نئے تجربات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جب تک پچز، گراؤنڈز اور ٹریننگ کا معیار عالمی سطح کا نہیں ہوتا کھلاڑیوں میں تکنیکی مہارت اور دلیری نہیں آئے گی، دورہ انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کو دیکھیں تو مختلف سیشنز میں بیشتر پاکستانی کرکٹرز اہم مواقع پر امیدوں کو مایوسی میں بدلتے رہے،ٹاپ آرڈر گھبراہٹ کا شکار نظر آئی تو بولرز میں سے کسی نے ایک سپیل اچھا کروایا تو دوسرے میں دباؤ کا شکار نظر آیا، بیٹنگ میں تکنیکی خامیاں تو بولرز کی ناتجربہ کاری کھل کر سامنے آئی، فیلڈنگ تو انتہائی مایوس کن رہی۔

جنوبی افریقہ کیخلاف ہوم سیریز میں پاکستان کو سازگار ہوم کنڈیشنز میسر ہیں، سپن کا جال پھیلانے کیلئے نیشنل سٹیڈیم کی پچ کا بھرپور استعمال کیا گیا، پی سی بی کیلئے انٹرویو ریکارڈ کرواتے ہوئے سابق کپتان انضمام الحق قومی ٹیم کی تعریفوں کے پل باندھنے کے باوجود یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ کراچی کی پچ بہت خراب ہوگئی تھی، نئے چیف سلیکٹر محمد وسیم کو کریڈٹ دیا جارہا ہے کہ انہوں نے ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی دکھانے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ڈیبیو کے منتظر 9کھلاڑیوں کو ابتدائی اسکواڈ میں جگہ دی، یہ الگ بات ہے کہ پلیئنگ الیون میں صرف 2 ہی جگہ بنا سکے۔

بہرحال 14 سال بعد پاکستانی کنڈیشنز میں کھیلنے کا تجربہ کرنے والی پروٹیز ٹیم توقعات کے عین مطابق پہلی اننگز میں بڑا سکور بنانے میں ناکام رہی، یوں ٹاس جیت کر بھی مہمان کوئی فائدہ نہ اٹھاسکے، دوسری جانب پاکستان کیلیے لمحہ فکریہ ہے کہ پہلی اننگز کھیلتے ہوئے اپنی کنڈیشنز میں بھی ٹاپ آرڈر ایک بار پھر فلاپ ہوئی، ففٹی مکمل کرنے سے قبل ہی 4بیٹسمینوں کی رخصتی کے بعد ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی انہونی ہونے والی ہے لیکن فواد عالم نے ڈومیسٹک کرکٹ میں نیشنل سٹیڈیم پر کھیلنے کے اپنے تجربہ سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور بڑے صبر و تحمل سے کریز پر قیام طویل کرتے ہوئے پاکستان کو مشکل صورتحال سے نکال کر مستحکم پوزیشن تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا، اظہر علی نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ کیوی کنڈیشنز میں بہتر بیٹنگ کرنے والے فہیم اشرف کی فارم ہوم کنڈیشنز میں بھی برقرار رہی، ایک وقت میں پروٹیز کا 220 رنز کا ٹوٹل عبور کرنا بھی مشکل نظر آ رہا تھا مگر پاکستان نے اچھی سبقت حاصل کرتے ہوئے حریف پر دباؤ بڑھایا، گرچہ مہمان ٹیم نے ایک، دو شراکتوں سے فتح کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر پاکستانی اسپن کا جال اتنا مضبوط تھا کہ اس سے بچ نکلنا محال ہوگیا۔

یاسر شاہ نے اپنے تجربے کا بھرپور ثبوت دیا تو نعمان علی نے بھی اپنا ڈیبیو یادگار بنالیا، پاکستان نے اپنی کنڈیشنز کا بہترین استعمال کرتے ہوئے فتح سمیٹ لی، کراچی ٹیسٹ میں کامیابی سے ہیڈ کوچ مصباح الحق اور بولنگ کوچ وقار یونس سمیت ٹیم منیجمنٹ پر بھی دباؤ کم ہوا ہے،کرکٹ کمیٹی نے ہوم سیریز کے بعد کارکردگی کا دوبارہ جائزہ لینے کا کہتے ہوئے لائف لائن دی تھی۔

اپنی کنڈیشنز میں ایک ٹیسٹ جیت لینے سے یہ سمجھ لینا درست نہیں ہوگا کہ پاکستان کرکٹ کے تمام مسائل ختم ہوگئے، کراچی ٹیسٹ میں بھی میزبان فیلڈرز نے تسلسل کیساتھ کیچز چھوڑے، شان مسعود کی جگہ لینے والے عمران بٹ پر شاید ڈیبیو کا پریشر ہوگا، دورہ نیوزی لینڈ میں ناکام رہنے والے عابد علی بھی اپنا اعتماد گنواتے جارہے ہیں، بابر اعظم خوش قسمت ہیں کہ انہیں بطور کپتان پہلا میچ ہوم گراؤنڈ پر کھیلنے کا موقع ملا اور اس میں فتح بھی حاصل ہوئی دیگر کھلاڑیوں کا اعتماد بھی بحال ہوا ہوگا، آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ میں بھی پاکستان کی ٹیم پانچویں نمبر پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہوئی ہے۔

عالمی رینکنگ میں ترقی کا امکان بھی روشن ہوگیا لیکن تسلسل کے ساتھ عروج کی جانب سفر شروع کرنے کیلیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، ہر طرح کی کنڈیشنز میں ہر بیٹنگ اور بولنگ پوزیشن کیلیے موزوں ایک کرکٹر کیساتھ اس کا بیک اپ بھی تیار کرنے کی ضرورت ہے، یہ مقصد تب ہی حاصل ہوگا جب گراس روٹ سے فرسٹ کلاس کرکٹ تک سسٹم پوری طرح فعال ہو، میرٹ پر منتخب کیے جانے والے کھلاڑی اپنی پرفارمنس کی بنیاد پر اوپر آئیں، ’’اے‘‘ ٹیموں کے بیرون ملک کئی ٹورز شیڈول کرکے مختلف کنڈیشنز میں کھیلنے کا تجربہ دلایا جائے، انٹرنیشنل کرکٹ کے چیلنجز کیلیے کھلاڑی نہ صرف کہ تکنیکی بلکہ ذہنی اور جسمانی طور پر بھی تیار ہوں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ گراس روٹ لیول پر کرکٹ کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہ گئیں، ڈپارٹمنٹل کرکٹ سرے سے ختم کیے جانے کے بعد کلب سطح کے کرکٹرز کو اپنا مستقبل نظر نہیں آ رہا، اگر کوئی ڈومیسٹک کنٹریکٹ حاصل نہیں کر پایا اور والدین کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ طویل جدوجہد میں اس کی معاونت جاری رکھ سکیں تو کرکٹ چھوڑ دینے کے سوا کیا کرسکتا ہے، مثال کے طور پر نعمان علی کو ہی لے لیں، پی سی بی کی جانب سے نیا ڈومیسٹک سٹرکچر تعارف کروائے جانے کے بعد کے آرایل کی ٹیم ہی ختم ہوگئی۔

شکر ہے کہ ادارے نے ان کو نوکری سے فارغ نہیں کیا ورنہ 34 سالہ کرکٹر قومی ٹیم میں شمولیت سے پہلے ہی ہمت ہار جاتے، پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں مگر سسٹم اور میرٹ نہ ہونے کی وجہ سے کی کئی باصلاحیت کھلاڑی گلی میں کرکٹ شروع کرنے کے بعد سڑک پر ختم کر دیتے ہیں، موجودہ سسٹم میں کلبز میں کھیلنے والوں کیلئے بھی مواقع محدود ہوگئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔