عالمی منظرنامہ اور پاک امریکا تجارتی تعلقات

ایم آئی خلیل  ہفتہ 6 فروری 2021

اگر پاکستان کی ایکسپورٹ کے اعداد وشمار بہ لحاظ ممالک کو دیکھا جائے تو ایک لمبے عرصے سے امریکا پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ملک نظر آتا ہے اور تجارتی مالیت میں بھی سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے۔

2018 میں جب پاکستانی وزیر اعظم کی امریکی صدر سے ملاقات ہوئی تھی تو اس وقت یہ بات کہی گئی تھی کہ پاک امریکا باہمی تجارت کا حجم جوکہ تقریباً 7ارب ڈالر ہے، اسے امریکی صدر نے 12 گنا بڑھانے کا عندیہ دیا تھا، لیکن پاکستان کے معاشی حکام اپنے سفارتکاروں کو جوکہ امریکا میں متعین ہیں ان کو معاشی سفارتکاری کے اعلیٰ ترین جوہر دکھانے کے لیے قائل نہ کرسکے۔

دوسری طرف بھارت امریکا تجارت زوروں پر ہے۔ امریکا پاکستان کی طرح بھارت کا پہلے نمبرکا تجارتی شراکت دار ملک ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2001 میں امریکا، بھارت سامان اور خدمات کے تبادلے کی مالیت 21 ارب ڈالر تھی جو 20 سال میں 7گنا بڑھ کر 147 ارب ڈالر تک جا پہنچی۔

واضح رہے کہ 2001 میں ہی نائن الیون کا واقعہ پیش آیا جب پاکستان نے امریکی اشارے پر اپنی تمام تر خدمات امریکا کو پیش کردی تھیں، لیکن شاید اس وقت کے حکمرانوں کی نظر اس طرف نہیں گئی تھی کہ امریکا کے لیے پاکستانی برآمدات کوکم ازکم دگنا ہی کرلیا جاتا۔

اسی دوران امریکی سرمایہ کار بھی بھارت میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہے تھے، جب کہ چند سال قبل تک امریکا اور یورپی ممالک اپنے سرمایہ کاروں اور تاجروں کو اس بات کی تلقین کر رہے تھے کہ پاکستان کا سفرکرنے سے گریزکریں۔

2019 میں امریکی سرمایہ کاروں کی بھارت میں 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی تھی۔ بھارت امریکا کا نواں بڑا تجارتی شراکت دار ملک ہے۔ اسی فہرست میں پاکستان امریکا کا پچپن واں تجارتی شراکت دار ملک ہے۔ پاکستان امریکا سے تجارتی رعایت کا طلب گار ہے تاکہ امریکی منڈیوں میں رسائی کے لیے ڈیوٹی میں کمی لائی جاسکے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، اسے فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لیے امریکی ٹیکنالوجی کی شدید ضرورت ہے۔

پاکستانی تاجروں کا کہنا ہے کہ جس طرح امریکا نے دیگر ملکوں کے ساتھ آزاد تجارت کا معاہدہ کیا اسی طرح پاکستان کے ساتھ بھی آزاد تجارت کا ترجیحی معاہدہ کیا جائے، اگر امریکی ٹیکنالوجی پاکستان ٹرانسفر ہوتی ہے تو صنعتی پیداواری لاگت میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ نئے امریکی صدر نے کئی ملکوں کے صدور کو جو ٹیلی فون کیے ان کا مرکزی نقطہ چین، امریکا تعلقات، تجارتی کشیدگی، مسئلہ تائیوان کو لے کر اور چین کی بڑھتی ہوئی معاشی برتری تھی۔ سی پیک کے باعث امریکا پاکستان کی کارکردگی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا۔ دوسری طرف افغان امن معاہدے کے بارے میں نظر ثانی کی بات کی جا رہی ہے۔

امریکا اگرچہ اس بات کو سمجھتا ہے کہ افغانستان سے پرامن واپسی کا راستہ اسلام آباد سے ہوکرگزرتا ہے۔ لہٰذا وہ پاکستان کی معیشت کو زیادہ مضبوط ہوتا ہوا دیکھنے کے بجائے کمزور معیشت والا ملک دیکھنا چاہے گا۔

اس وقت نئی امریکی انتظامیہ میں بھی بڑی تعداد میں بھارتی نژاد امریکیوں کی شمولیت سے پاک امریکا تجارتی حجم میں تیزی سے اضافے کو قدغن لگ چکا ہے۔ البتہ اس سلسلے میں پاکستان اپنی بہترین معاشی سفارت کاری کے اعلیٰ ترین جوہر دکھاتا ہے تو کوئی بعید نہیں کہ پاک امریکا تجارت میں کم ازکم دگنا اضافہ ہو جائے جوکہ 2019-20 میں امریکا کے لیے پاکستانی برآمدات کی مالیت 5 کھرب 85 ارب روپے کے ساتھ کل برآمدات میں 17.37 فیصد حصہ تھا، جب کہ 2018-19 میں یہ مالیت بہ لحاظ روپے 5 کھرب 32 ارب 85 کروڑ روپے کے ساتھ کل برآمدات میں 17 فیصد رہا۔

اگرچہ اس کو دگنا کرنا امریکا کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔ کچھ رعایت دی جائے کچھ ٹیکس میں کمی کردی جائے، ڈیوٹی فری کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ امریکا کو بھیجی جانے والی اہم ترین اشیا میں سرجیکل آلات، چمڑا اور چمڑے سے بنی مصنوعات، ٹیکسٹائل مصنوعات، سوتی دھاگہ، کھیلوں کا سامان، گارمنٹس، چاول، قالین اور دیگر کئی اشیا شامل ہیں۔

پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ امریکا سے جدید ٹیکنالوجی، جدید مشینری، جدید اسلحہ، سپر ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ادویات سازی کی صنعت میں معاونت حاصل کرے۔اس وقت پاکستان کو اپنے خارجی معاملات میں توازن برقرار رکھنے کی ضرورت ہے، اگرچہ توازن برقرار رکھنے کے معاملے میں پاکستانی سفارتکاروں کو ایک طویل تجربہ حاصل ہے، کیونکہ امریکا چین کشیدگی بڑھ رہی ہے۔

پاکستان اپنی بہترین توازن کی سفارتکاری کو کام میں لا کر ایسے اعلیٰ ترین معاشی سفارتکاروں کی ٹیم تیار کرسکتا ہے جوکہ سابق صدر ٹرمپ کے اس اعلان کو عملی جامہ پہنا سکیں کہ پاک امریکا تجارت جوکہ 7 ارب ڈالر تک ہے اسے 12 گنا بڑھایا جاسکتا ہے۔ یعنی پاکستان اسے 84 ارب ڈالر تک لے جاسکتا ہے۔ اس کے لیے آزاد تجارت کا معاہدہ اور امریکی ٹیکنالوجی زراعت و صنعت کے میدان میں اور دیگر شعبوں میں حاصل کرنا پاکستان کے لیے انتہائی اہم ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔