سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 7 فروری 2021
مولانا ابو الکلام کو تو اﷲ تعالیٰ نے لکھنے کا بھی کمال دیا تھا اور بولنے کا بھی۔

مولانا ابو الکلام کو تو اﷲ تعالیٰ نے لکھنے کا بھی کمال دیا تھا اور بولنے کا بھی۔

اپن اپنی مستی میں۔۔۔آگ لگے بستی میں!

خانہ پُری
ر۔ ط ۔ م

شاید یہ مشینوں کا ہی اثر ہے کہ حضرتِ انسان نے ’احساس‘ سے تعلق کچھ کم کم کر لیا ہے۔۔۔ کہیں کہیں تو یہ بالکل منقطع بھی دکھائی دیتا ہے۔۔۔ بس ذرا گھر سے باہر قدم رکھیے، آپ کو جا بہ جا ایسے مناظر مل جائیں گے کہ جہاں دو پیروں پر کھڑی ہونے والی یہ ’مخلوق‘ اپنے حال میں اس درجہ مست دکھائی دے گی کہ اسے معلوم بھی نہیں ہوگا کہ اس کی وجہ سے دوسروں کو کس قدر اذیت، پریشانی یا کوفت کا سامنا ہو رہا ہے۔۔۔

اور کبھی تو آپ کو گھر سے باہر نکلنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی، کیوں کہ ہمارے آس پڑوس میں بھی ایسے ایسے لوگ آکر بس جاتے ہیں، جو اور تو کچھ ضرور ہو سکتے ہیں، لیکن ’انسان‘ کہلانے کے کسی طور پر حق دار نہیں۔۔۔! زیادہ کیوں بس ایک کیل ٹھونکنے کی مثال لے لیجیے، چوں کہ ہم سائے کی دیوار اپنی ہے، اس لیے کوئی مائی کا لال اسے نہیں روک سکتا کہ وہ چاہے تو رات کو تین بجے بھی ہتھوڑی لے کر آپ کی سمع خراشی نہ کرے۔۔۔ کیوں کہ ہتھوڑی اس کی، کیل اس کی، گھر اس کا، دیوار تو ہے ہی اس کی۔۔۔!

یہی نہیں وہ آدھی رات کو اگر کہیں سے لوٹ رہا ہے، تو اپنا گلا پھاڑ کر ایک ’حیوانی‘ سی صدا لگا کر ساتویں منزل سے کسی کو پکارے گا بھی، عین ممکن ہے کہ وہ اس موقع پر اپنی گاڑی یا بائیک کا تیز ہارن بجا بجا کر سب سے اوپری منزل پر کسی کو ’جگانے‘ کی کوشش بھی کرنے لگے۔۔۔ چوں کہ منہ اس کا ہے، گاڑی اس کی ہے اور ہاتھ تو ہی اس کا، اس لیے اسے مکمل ’استحقاق‘ ہے اور آپ خود سوچیے کہ ’’یہ گلی آپ کے ’والد‘ کی تھوڑی ہے۔۔۔!‘‘ لیکن اس کا جواب تو یہ ہے کہ والد کے تو کسی کی بھی نہیں ہے، لیکن آپ منہ نہیں لگ سکتے ایسوں کے۔۔۔ بس گھر بیٹھے عصرحاضر کے دو پیروں کے اس بدصفت ’جان دار‘ کا ’’لطف‘‘ اٹھائیے۔۔۔ آپ کو کہیں جنگل جانے کی ضرورت نہیں۔۔۔ گویا جنگل خود ہی اٹھ کر آپ کی طرف آگیا ہے۔

ثمر بھائی نے کچھ ایسا ہی ایک منظر گذشتہ دنوں اپنے دفتر کے بازو میں تعمیر ہونے والی ایک کثیرالمنزلہ عمارت کا دیکھا۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ چوں کہ شہر کے بیچ چوراہے پر یہ جرم نما غفلت برتی جا رہی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس پر توجہ دلائی جائے۔ عین ممکن ہے کہ اس وقت شہر کے طول وارض میں جاری بڑے پیمانے پر تعمیراتی سرگرمیوں میں اور بھی دیگر جگہوں پر ایسا ہی کچھ ہو رہا ہو۔۔۔ واقعہ یہ ہے کہ اس 20 منزلہ عمارت کی آخری منزل سے تعمیراتی ملبہ مناسب طریقے سے نیچے اتارنے کے بہ جائے، بے ہنگم طریقے سے براہ راست اوپر سے نیچے پھینکا جا رہا ہے۔۔۔!

جی بالکل، آپ درست سمجھے، جیسے کچھ بے حس اپنے برآمدے یا دریچے سے شانِ بے نیازی سے کوڑا کرکٹ پھینک دیا کرتے ہیں، اور وہ اڑتا اڑاتا کہاں تک چلا جاتا ہے، بالکل ایسے ہی۔۔۔ اگرچہ یہ بہت ’احسان‘ کر رہے ہیں کہ یہ ملبہ اپنی ہی دو زیر تعمیر اپارٹمنٹ کے درمیان اپنی چار دیواری میں پھینک رہے ہیں، لیکن آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ساحلی شہر کی تندوتیز ہوا کے درمیان جب اتنی بلندی سے یہ حرکت کی جائے گی تو کیا ہوگا۔۔۔

اوپر سے اگر ایک بوری کے برابر ملبہ پھینکا جاتا ہے، تو شاید اس کا 10 فی صد بھی اس کے بالکل نیچے تک نہیں پہنچتا، بلکہ ملبے کی دھول مٹی سے لے کر اس میں شامل ریت تیز ہوا سے اِدھر سے اُدھر دور تک ہوا میں پھیل کر بارش کی طرح برسنے لگتی ہے۔۔۔ جس کے سبب بلامبالغہ منوں کے حساب سے یہ ریت باہر جمع ہوچکی ہے، یہی نہیں بلکہ ہمارے دفتر کے سامنے والے فلیٹ بھی اس ’ریت گردی‘ سے ’مستفید ہو رہے ہیں، سڑک کے اطراف بھی یہ ریت اس قدر جمع ہو چکی ہے کہ پیدل چلنے والوں کے پیر دھنسے جاتے ہیں اور ہوا کے جھکڑوں سے یہ اڑ کر آنکھوں میں بھی جاتی ہے۔۔۔ لیکن کوئی کہنے سننے والا ہی نہیں!

بات یہ ہے کہ بیسویں منزل سے یہ ملبہ بہتر طریقے سے نیچے اتارنے میں یقیناً وقت بھی لگے گا اور اچھی خاصی لاگت بھی آئے گی، اس لیے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ ’بچت‘ کرتے ہوئے یہ سلسلہ زور شور سے جاری ہے۔۔۔ یوں شہر کی مصروف گزرگاہ پر سفر کرنے والے سانس کے ذریعے یہ ریت اپنے اندر ’جمع‘ کر رہے ہیں اور ایک ٹھیکے دار کی بے حسی کا خراج دے رہے ہیں، یعنی، ’اپن اپنی مستی میں آگ لگے بستی میں۔۔۔!‘

۔۔۔

علامہ طالب جوہری کا کتب خانہ
فرحان رضا
بر صغیر کے چند بڑے اور اہم ذاتی کتب خانوں کا ذکر ہو، تو یہ ناممکن ہے کہ اس میں علامہ طالب جوہری کے ذاتی کتب خانے کا ذکر نہ ہو۔ اس عظیم کتب خانے کی کتابوں کے معیار و مقدار کو لفظوں میں سمیٹنا اتنا آسان نہیں، اس لیے مولانا تقی ہادی نقوی کی ایک تحریر سے چند سطریں نقل کر رہا ہوں۔

جو انھوں نے کتاب ’’جواہر‘‘ کے آغاز میں رقم کی ہیں، وہ فرماتے ہیں جب علامہ کا خانوادہ ناظم آباد سے نارتھ ناظم آباد، سیفی کالج کے قریب منتقل ہوا، تو اس وقت تمام کتب کی از سر نو ترتیب علامہ طالب جوہری، پروفیسر سردار نقوی اور اس ناچیز (مولانا تقی ہادی نقوی) نے کی، کتب خانے میں اس وقت 10 ہزار سے زیادہ کتابیں تھیں۔ یہ بیان 30 برس قبل کی کتاب میں لکھا گیا ہے اور منتقلی 1977ء میں ہوئی یعنی 43 برس قبل اِن کتابوں کی تعداد 10 ہزار سے زیادہ تھی، اگر آج تخمینہ لگایا جائے، تو ان کتابوں کی تعداد یقینی طور پر 40 ہزار سے تو تجاوز کرچکی ہوگی۔۔۔ رضا علی عابدی نے 1985میں اپنی کتاب ’’کتب خانہ‘‘ میں بھی افتخار عارف کا بیان اس کتب خانے کے حوالے سے رقم کیا ہے۔

راقم کو بھی اس کتب خانے میں مولانا امجد رضا جوہری (فرزند علامہ طالب جوہری) کی خصوصی محبت کے سبب کچھ کتابیں ترتیب دینے کا شرف حاصل ہے۔ ان کتب میں قران فہمی و تفسیرقران پر دنیا بھر سے لکھی ہوئی عربی، فارسی و اردو کتابیں، عربی، فارسی و اردو ادب کی نادر و نایاب کتابیں، منطق و فلسفہ، علم کلام، علم عروض، اسلامی تاریخ، تاریخ ادیان و مذاہب، علم طب اور نہ جانے کیا کیا کچھ موجود ہے، جسے مختصر سی جگہ پر ضبطِ تحریر میں لانا مشکل امر ہے۔ عہدِحاضر اور پچھلے 30، 40 برسوں میں لکھی گئی، تمام اہم شاعروں اور ادیبوں کی کتابیں، جو انھوں نے علامہ طالب جوہری کو تحفتاً پیش کی ہیں، اس کے علاوہ کئی کتب کے نادر قلمی نسخے بھی ان کے کتب خانے کی زینت ہیں۔

۔۔۔

مولانا ابو الکلام آزاد کی ’’انا‘‘
مرسلہ : سارہ نایاب، مُکا چوک، کراچی

مولانا ابوالکلام آزاد اور نواب بہادر یار جنگ سے بھی ’نظام المشائخ‘ کے ابتدائی زمانے میں نواب بدھن کے کمرے میں ہی ملاقات ہوگئی تھی۔ یہ دونوں میرے ہم عمر تھے۔ مولانا ابو الکلام سے میں ایک دفعہ پہلے بھی مل چکا تھا۔ خواجہ حسن نظامی کے ساتھ کان پور کے اسٹیشن پر اور حافظ محمد حلیم، تاجر چرم کان پور کی کوٹھی میں اور پھر 1947 تک ملتا رہا۔ وہ میرے ہاں بیسیوں مرتبہ تشریف لائے اور آخر میں تو مسٹر آصف علی کا گھر ان کا گھر بن گیا تھا۔ نواب بہادر یار جنگ سے جہاں تک یاد پڑتا ہے، دوبارہ ملنا نہیں ہوا۔ البتہ ان کی دین داری اور ان کے اخلاص کی تعریفیں ہر شخص سے سنتا رہا۔

مولانا ابو الکلام کو تو اﷲ تعالیٰ نے لکھنے کا بھی کمال دیا تھا اور بولنے کا بھی۔ نواب بہادر یار جنگ کی تحریر کیسی تھی، اس کا علم نہیں ہے۔ تقریر میں وہ مولانا ابو الکلام کے مقابلے کے بتائے جاتے تھے۔ گویا اردو زبان کے مقرروں میں صف اول کے مقرر تھے۔

مولانا ابو الکلام کو انڈین نیشنل کانگریس میں جو مقام حاصل تھا، وہی مقام آل انڈیا مسلم لیگ میں نواب بہادر یار جنگ کا تھا۔

مولانا ابو الکلام اور نواب بہادر یار جنگ کی بات چیت بھی غیرمعمولی پرکشش ہوتی تھی۔ مولانا ابو الکلام اپنی مشہور ’’انا‘‘ کے باوجود مخاطب کو متاثر کرلیتے تھے اور نواب بہادر یار جنگ کی زبان کا جادو بھی مجھے یاد ہے۔ 1911ء میں نواب صاحب نواب بہادر خان تھے۔ ’نواب بہادر یار جنگ‘ کا خطاب بعد میں ملا تھا۔

مولانا ابو الکلام کی ’’انا‘‘ مغروروں اور متکبّروں کی سی ’’انا‘‘ نہیں تھی۔ وہ بس اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کے آگے جھکتے نہیں تھے۔ تو یہ تو قابل ستائش ’’انا‘‘ ہے۔ یا اپنے علم و فضل اور اپنی ذہانت و طباعی کا انھیں احساس تھا، تو اس میں بھی کیا برائی ہے۔ تھے ہی مولانا واقعی جینئس۔ مغرور اور متکبّر وہ قطعی نہیں تھے۔ میں نے ان کی حالت میں کبھی فرق نہیں پایا۔ مولانا ابو الکلام جیسے 1910ء میں تھے 1947ء تک مجھے تو ویسے ہی نظر آئے۔ اقتدار نے ان کے دماغ اور زبان پر کوئی خراب اثر نہیں کیا تھا۔ وہ گاندھی اور جواہر لال کو خاطر میں نہیں لاتے تھے لیکن ہم معمولی ملنے والوں پر دھونس نہیں جماتے تھے۔n

(ملا واحدی کی کتاب ’میرا افسانہ‘ سے چُنا گیا)

۔۔۔

آخر کوئوں کے بھی تو حقوق ہیں
شفیق الرحمٰن

کوّا گرائمر میں ہمیشہ مذکر استعمال ہوتا ہے۔ کوّا صبح صبح موڈ خراب کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ایسا موڈ جو کوّے کے بغیر بھی کوئی خاص اچھا نہیں ہوتا۔ علی الصباح کوّے کا شور انسان کو مذہب کے قریب لاتا ہے اور نروان کی خواہش شدت سے پیدا ہوتی ہے۔ کوّا گا نہیں سکتا اور کوشش بھی نہیں کرتا۔ وہ کائیں کائیں کرتا ہے۔ ’کائیں‘ کے کیا معنیٰ ہیں؟ میرے خیال میں تو اس کا کوئی مطلب نہیں۔

کوّے کالے ہوتے ہیں۔ برفانی علاقے میں سفید مائل کوّا نہیں پایا جاتا۔ کوّا سیاہ کیوں ہوتا ہے۔۔۔؟ اس کا جواب بہت مشکل ہے۔

پہاڑی کوّا ڈیڑھ فٹ لمبا اور وزنی ہوتا ہے۔ میدان کے باشندے اس سے کہیں چھوٹے اور مختصر کوّے پر قانع ہیں۔ کوّے خوب صورت نہیں ہوتے، لیکن پہاڑی کوّا تو باقاعدہ بدنما ہوتا ہے، کیوں کہ وہ معمولی کوّے سے حجم میں زیادہ ہوتا ہے۔

کوّے کا بچپن گھونسلے میں گزرتا ہے، جہاں اہم واقعات کی خبریں ذرا دیر سے پہنچتی ہیں۔ اگر وہ سیانا ہو تو بقیہ عمر وہیں گزار دے، لیکن ’سوشل‘ بننے کی تمنّا اسے آبادی میں کھینچ لاتی ہے۔۔۔ جو کوّا ایک مرتبہ شہر میں آجائے، وہ ہرگز پہلا سا کوّا نہیں رہتا۔

کوّے کی نظر بڑی تیز ہوتی ہے۔ جن چیزوں کو کوّا نہیں دیکھتا، وہ اس قابل نہیں ہوتیں کہ انہیں دیکھا جائے۔ کوّا بے چین رہتا ہے اور جگہ جگہ اڑ کر جاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ زندگی بے حد مختصر ہے، چناں چہ وہ سب کچھ دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ کون نہیں چاہتا؟

کبھی کبھی کوّے ایک دوسرے میں ضرورت سے زیادہ دل چسپی لینے لگتے ہیں۔ دراصل ایک کوّا دوسرے کوّے کو اس نظر سے نہیں دیکھتا، جس سے ہم دیکھتے ہیں۔ دوسرے پرندوں کی طرح کوّوں کے جوڑے کو کبھی چہلیں کرتے نہیں دیکھا گیا۔ کوّا کبھی اپنا وقت ضائع نہیں کرتا یا کرتا ہے؟ کوّے کو لوگ ہمیشہ غلط سمجھتے ہیں۔ سیاہ رنگ کی وجہ سے اسے پسند نہیں کیا جاتا۔ لوگ تو بس ظاہری رنگ روپ پر جاتے ہیں۔ باطنی خوبیوں اور ’کردار‘ کو کوئی نہیں دیکھتا۔ کوّا کوئی جان بوجھ کر تو سیاہ نہیں ہوا۔ لوگ چڑیوں، مرغیوں اور کبوتروں کو دانہ ڈالتے وقت کوئوں کو بھگا دیتے ہیں۔ یہ نہیں سمجھتے کہ اس طرح نہ صرف کوئوں کے لاشعور میں کئی ناخوش گوار باتیں بیٹھ جاتی ہیں، بلکہ ان کی ذہنی نشوونما پر برا اثر پڑتا ہے۔ آخر کوئوں کے بھی تو حقوق ہیں۔

کوّا باورچی خانے کے پاس بہت مسرور رہتا ہے۔ ہر لحظے کے بعد کچھ اٹھا کر کسی اور کے لیے کہیں پھینک آتا ہے اور پھر درخت پر بیٹھ کر سوچتا ہے کہ زندگی کتنی حسین ہے۔
کہیں بندوق چلے تو کوّے اسے اپنی ذاتی توہین سمجھتے ہیں اور دفعتاً لاکھوں کی تعداد میں کہیں سے آجاتے ہیں۔ اس قدر شور مچتا ہے کہ بندوق چلانے والا مہینوں پچھتاتا رہتا ہے۔ بارش ہوتی ہے تو کوّے نہاتے ہیں، لیکن حفظان صحت کے اصولوں کا ذرا خیال نہیں رکھتے۔ کوّا سوچ بچار کے قریب نہیں پھٹکتا۔ اس کا عقیدہ ہے کہ زیادہ فکر کرنا اعصابی بنا دیتا ہے۔
(کتاب ’’مزید حماقتیں‘‘ سے ماخوذ)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔