اے ٹی ایم کارڈ کے بجائے اپنا چہرہ دکھا کر پیسے ادا کریں

رچرڈ بیمبرج  جمعرات 11 فروری 2021
چین کے مختلف شہروں میں اس طرح کی ادائیگیاں دن میں لاکھوں مرتبہ پہلے ہی ہو رہی ہیں۔ فوٹو: فائل

چین کے مختلف شہروں میں اس طرح کی ادائیگیاں دن میں لاکھوں مرتبہ پہلے ہی ہو رہی ہیں۔ فوٹو: فائل

سارہ سٹیورٹ لاس انجلیز میں قائم ایک چھوٹے سے میکسیکن ریستوران میں داخل ہوتی ہیں اور سینڈوچ کی ایک قسم ’ٹورٹا‘ کا آرڈر دیتی ہیں۔

رقم کی ادائیگی کے لیے وہ کیشیئر کے کاؤنٹر پر لگی ایک سکرین پر اپنے چہرے کا عکس دکھاتی ہیں۔ ٹِپ دینے کے لیے وہ جلدی سے سکرین کے سامنے انگلیوں سے وکٹری کا نشان بناتی ہیں۔ یوں کھانے کے عوض ادائیگی کا عمل مکمل ہو جاتا ہے۔

اس پورے عمل میں پانچ سیکنڈ سے کم لگے ہیں اور یہ تمام عمل ’ کانٹیکٹ لیس‘ یعنی بغیر کسی چیز کو چھوئے مکمل ہوا ہے۔ دوسرا یہ کہ سارہ سٹیورٹ کو نہ تو اپنا موبائل فون اپنے پاس رکھنا پڑا اور نہ ہی کسی بینک کا کارڈ۔ اور نہ ہی کسی اور قسم کی شناخت کی چیز۔ ادائیگی کے عمل کو مکمل کرنے کے لیے انھیں اپنا پن نمبر بھی نہیں ڈالنا پڑا۔ تو جناب چہرے کی شناخت کے ذریعے ادائیگی کرنے والی مستقبل کی دنیا میں آپ کا خوش آمدید۔

ہو سکتا ہے کہ آپ کو یہ کسی سائنس فکشن فلم کا سین لگے لیکن چین کے مختلف شہروں میں اس طرح کی ادائیگیاں دن میں لاکھوں مرتبہ پہلے ہی ہو رہی ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کو اب امریکہ اور دوسرے ممالک جیسے ڈنمارک اور نائجیریا میں متعارف بھی کرایا جا رہا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہم سب آیندہ چند برسوں میں اس کا استعمال کر پائیں گے؟ اور کیا اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے دوران ہمیں ڈیٹا سکیورٹی اور پرائیویسی کے معاملات کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے؟

18 سالہ یونیورسٹی کی طالبہ سارہ سٹیورٹ کا کہنا ہے کہ انھیں اس طرح کا کوئی خدشہ نہیں ہے۔ ’میں سمجھتی ہوں کہ ٹیکنالوجی کی رفتار اتنی تیز ہے کہ لوگ اس طرح کے استعمال کے بارے میں دوسری مرتبہ نہیں سوچتے۔ ہمارے فون ہمارے چہرے پڑھتے ہیں اور ہمارے چہرے پہلے ہی انٹرنیٹ پر موجود ہیں، لہذا میں نہیں سمجھتی کہ اس سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ یہ تیز رفتار ہے، زیادہ آسان ہے اور محفوظ ہے۔۔۔ اور آپ کو اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ آپ اپنا فون یا کارڈز گھر پر چھوڑ آئے ہیں۔‘

وہ امریکی ٹیک سٹارٹ ایپ ’پاپ آئی ڈی‘ کے ذریعے چہرے کی شناخت کے ذریعے رقم کی ادائیگی کرتی ہیں۔ آپ اس کی ویب سائٹ کے ذریعے اپنے چہرے کی تصویر اپ لوڈ کر کے سائن اپ کرتے ہیں، جو فرم کے ’ کلاؤڈ بیسڈ سسٹم ‘ میں محفوظ رہتی ہے۔ اس کے بعد آپ اپنے اکاؤنٹ کو اپنے بینک کارڈ سے لنک کر دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ آپ ٹپ دینے کے لیے پاپ آئی ٹی کو استعمال کر سکتے ہیں جو کہ ہاتھ کے چند اشارے ہیں۔ سٹیورٹ نے اوپر کے طرف انگوٹھے کے نشان کو 10 فیصد ٹپ کے لیے، انگلیوں کے ذریعے وکٹری یا امن کے نشان کو 15 فیصد اور شاکا یا ’مجھے کال کرو‘ کے نشان کو 20 فیصد پر سیٹ کیا ہوا ہے۔

پاپ آئی ڈی کا دفتر لاس اینجلس میں ہے اور اب امریکہ کے مختلف شہروں میں تقریباً 70 ریستوراں اور کیفے اسے استعمال کر رہے، خاص طور پر ویسٹ کوسٹ پر۔ پاپ آئی ڈی کے چیف ایگزیکٹیو جان ملر کہتے ہیں کہ ’ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ادائیگی کے لیے اپنا چہرہ استعمال کرنا اپنا فون استعمال کرنے سے مختلف نہیں ہے۔ یہ صرف اپنی شناخت کا ایک اور طریقہ ہے۔ (سیل کے وقت لی گئی ڈیجیٹل) تصویر کو فوری طور پر ختم کر دیا جاتا ہے، اور ڈیٹا کسی کے ساتھ شیئر نہیں کیا جاتا۔‘

بلکہ وہ کہتے ہیں کہ یہ موبائل فون کے ذریعے ادائیگی کرنے سے زیادہ محفوظ ہے کیونکہ فون جی پی ایس کے ذریعہ ہر وقت آپ کی لوکیشن کا سراغ لگا سکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاپ آئی ڈی اصل تصاویر کو نہیں بلکہ چہرے کے منفرد ویکٹرز یعنی خطِ حامل کے ریاضیاتی نقشے محفوظ کرتا ہے۔

آج کل پاپ آئی ڈی کے استعمال کے لیے عارضی طور پر اپنا فیس ماسک نیچے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اپنا نظام اپ ڈیٹ کر رہی ہے تاکہ مستقبل میں ایسا نہ کرنے پڑے۔

یہاں سے کچھ سات ہزار میل دور چین کے شہر گوانگزو میں ایک اور طالب علم کے ذہن میں چہرے کے ذریعے ادائیگی کی ٹیکنالوجی ہے۔ لنگ (جو اپنا اصلی نام ظاہر کرنا نہیں چاہتیں) کا کہنا ہے کہ ان کی سن یات سین یونیورسٹی کے رہائشی بلاک میں وینڈنگ مشین سے کھانا خریدنے کا اب یہی واحد طریقہ ہے۔

لاس انجلیز میں بیٹھی سارہ کے برعکس، لنگ ٹیکنالوجی کے استعمال سے اتنی خوش نہیں ہیں۔ ان کو تشویش ہے کہ اس سے ان کی روزمرہ کی زندگی میں مداخلت بڑھتی جا رہی ہے اور وہ اسی وجہ سے اسے استعمال کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ٹیک جوار بھاٹا کی طرح ہے اور ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ آپ اس کی مخالف سمت تیر سکیں۔ لیکن میں پھر بھی ایک قسم کا مؤقف اختیار کیے ہوئے ہوں، اور جب تک ہو سکے اس پر قائم رہوں گی۔‘ اگر سمجھا جائے کہ ٹیکنالوجی واقعی ایک جوار یا اونچی لہر ہے تو پھر چین میں چہرے کی شناخت کے ذریعے رقم کی ادائیگی کی ٹیکنالوجی کا رول آؤٹ واقعی ایک سونامی سے کم نہیں۔

چین میں تقریباً 98 فیصد موبائل کے ذریعے ادائیگیاں صرف دو ایپس سے کی جاتی ہیں۔ ایک ہے علی پے (جو علی بابا کی ملکیت ہے) اور دوسری ہے وی چیٹ پے۔ اور یہ دونوں ہی ملک بھر میں چہرے کی شناخت کے نظام کو لانے کی دوڑ میں مصروف عمل ہیں۔

علی پے تین سالوں میں اس پر تین ارب یوآن (42 کروڑ ڈالر) خرچ کرے گا اور چینی سرکاری میڈیا کے مطابق اگلے سال تک 76 کروڑ افراد چہرے کی شناخت کی ادائیگی کا نظام استعمال کریں گے۔

صوبہ ہینان کے لویانگ وکیشنل کالج آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وینگ بینگ کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے اس میں تیزی لائی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چین میں کووڈ کے تجربے نے لوگوں کو چہرے کی شناخت کے نظام میں لانے کے معاملے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ انھوں نے مزید کہا کہ سافٹ ویئر اور کیمرے کا نظام اتنے اعلی درجے کا ہے کہ اس کے ساتھ چالاکی کرنا ناممکن ہے، جیسا کہ کسی کی تصویر چوری کر لینا۔ یہ ٹیکنالوجی جڑواں بچوں کے درمیان بھی فرق کر سکتی ہے۔

لیکن کیا باقی دنیا میں بھی یہ ٹیکنالوجی آ جائے گی؟ بینکنگ اور مستقبل میں ادائیگی کے نظام کے ماہر بریٹ کنگ کا خیال ہے کہ اگر حکومتیں اسے روکنے کا فیصلہ نہیں کرتیں تو ایسا ضرور ہو گا۔ بینکنگ 4.0 نامی کتاب کے مصنف بریٹ کنگ کہتے ہیں کہ آپ کے چہرے کی صحیح پیمائش اور خصوصیات دراصل آپ کے اکاؤنٹ کے پاس ورڈز سے زیادہ محفوظ ہیں۔ فیشل پیمنٹ بڑھتے ہوئے ڈیجیٹل شناختی ڈھانچے کا ایک حصہ ہے۔۔۔ میں پرائیویسی (رازداری) کے بارے میں خدشات کو سمجھتا ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حفاظت اور سلامتی کے لیے (چہرے پر مبنی) ڈیجیٹل شناخت کا ڈھانچہ ناگزیر ہے۔ (ڈیجیٹل) ادائیگیاں، لین دین اور سروسز ہماری زندگی اور ہماری دنیا کا زیادہ سے زیادہ حصہ بن گئی ہیں، اور اس کے لیے یقیناً بائیومیٹرکس کی ضرورت ہو گی، کیونکہ پاس ورڈز اتنے محفوظ نہیں ہیں۔‘

بریٹ کنگ نے مزید کہا کہ ایپل فون کے بہت سارے صارفین اپنے ہینڈ سیٹس تک رسائی کے لیے چہرے کی شناخت والی ٹیکنالوجی خوشی خوشی استعمال کر رہے ہیں اور چہرے کی ادائیگی کا نظام اسی کی ہی توسیع ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ شاید امریکی ریگولیٹرز اس ٹیکنالوجی پر غور کریں۔ کیونکہ یہ اس وقت ہو رہا ہے جب چہرے کی شناخت کے نظام کے بارے میں تشویش بڑھی ہے۔

امریکی کانگریس میں کچھ ڈیموکریٹس چاہتے ہیں کہ اس سال ایک بل کو دوبارہ پیش کیا جائے تاکہ اس ٹیکنالوجی کو روکا جائے جسے ایف بی آئی جیسے وفاقی ادارے مشتبہ ملزمان کی شناخت کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اور ایسے خدشات بھی ہیں کہ اویغر نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد کی شناخت کے لیے چین میں چہرے کی شناخت کا نظام استعمال کیا جا رہا ہے۔

پاپ آئی ڈی کے جان ملر کا کہنا ہے کہ وہ کارڈ کی ادائیگی کرنے والی اہم کمپنیوں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ چہرے کی شناخت کے ذریعے ادائیگی کو ایپل پے اور گوگل پے جیسی موبائل فون ایپس کو نظرانداز کرنے کے طریقے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’وہ فون پر انحصار کرنا نہیں چاہتے، کیونکہ ایپل ایک ایسی کمپنی ہے جو انھیں دھمکا سکتی ہے۔ لہذا ادائیگی کے نظام کو براہ راست کارڈ سے چہرے پر منتقل کرنے کا خیال انھیں بہت دلکش دکھائی دیتا ہے۔‘

اس کے باوجود ملر تسلیم کرتے ہیں کہ چہرے کی شناخت کے ذریعے ادائیگی ایک ایسا خیال ہے جسے کچھ لوگ کبھی بھی قبول نہیں کریں گے۔ ’آبادی کا ایک طبقہ اسے کبھی نہیں اپنائے گا، اس سے قطع نظر کہ آپ فون سے اس کا موازنہ کرنے کے حوالے سے اس میں کتنی ہی منطق ڈال دیں۔ کیونکہ ان کے لیے یہ صرف ایک نفسیاتی (مسئلہ) ہے۔‘

( بشکریہ بی بی سی )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔