’’آٹوپائلٹ موڈ‘‘ پر چلتی پی ایس ایل

سلیم خالق  بدھ 17 فروری 2021
 نجم سیٹھی میں ایک بڑی خوبی یہ تھی وہ لوگوں سے کام نکلوانا جانتے تھے فوٹوفائل

نجم سیٹھی میں ایک بڑی خوبی یہ تھی وہ لوگوں سے کام نکلوانا جانتے تھے فوٹوفائل

’’ہمیں بس پاکستان سپر لیگ کرانی ہے، اس میں کون کون میرے ساتھ ہے‘‘

پی سی بی گورننگ بورڈ میٹنگ میں جب چیئرمین نجم سیٹھی نے یہ بات کہی تو ہاں میں ہاں ملانے والے ان کے اپنے لوگ بھی ہچکچاہٹ کا شکار تھے، مگرانکار کرنے کی ہمت نہ تھی اس لیے ہاں کہہ دی، اب مسئلہ یہ تھا کہ یہ لیگ ہو گی کیسے، سابق چیئرمین ذکا اشرف نے یہ خواب دیکھا تھا لیکن اسے عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا، نجم سیٹھی کیلیے سب سے بڑا مسئلہ ٹیموں کی فروخت کا تھا، 5 فرنچائزز کیلیے صرف چار اصل بڈرزسامنے آئے، کوئٹہ کی ٹیم کوئی لینے کو تیارنہ تھا، پھر ندیم عمر سے بات کی گئی۔

اب مسئلہ یہ تھا کہ پانچوں نے بنیادی قیمت سے کم رقم دینے کا کہا،انھیں پھر سہانے خواب دکھا کر منایا گیا، جب ٹیلی ویڑن رائٹس بیچنے کی بات آئی تو اتنی کم پرائس سامنے آئی کہ بورڈ حکام سر پکڑ کر بیٹھ گئے، ان دنوں پاکستان میں کرکٹ نہیں ہو رہی تھی، یو اے ای میں بھی میچز کرانے میں مشکلات پیش آئیں تو ایونٹ دوحا منتقل کرانے کا فیصلہ ہوگیا، وہاں کا گراؤنڈ چھوٹا تھا لہذا پھر اماراتی دوستوں کو منا کر پہلا ایڈیشن وہیں کرایا گیا، اگر ہم مشکلات کا جائزہ لیں تو ہمیں اب بھی حیرت ہو گی کہ پی ایس ایل کا آغاز کیسے ہوگیا؟ آپ سب جانتے ہیں کہ سیٹھی صاحب سے میرے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے لیکن اس کے باوجود میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ لیگ کے انعقاد کا کریڈٹ انہی کو جاتا ہے، جیسے تیسے انھوں نے اسے شروع کرا دیا اور پھر یہ کامیاب برانڈ بھی بن گئی۔

البتہ سابق چیئرمین نے کئی بڑی غلطیاں بھی کردیں، انھوں نے فرنچائزز کے ساتھ یکطرفہ معاہدہ کیا،اس سے پی سی بی تو اب تک کما رہا ہے لیکن ٹیمیں نقصان میں ہیں، نجم سیٹھی میں ایک بڑی خوبی یہ تھی وہ لوگوں سے کام نکلوانا جانتے تھے، اگر انھیں پتا چلے کہ فلاں دفتر میں بورڈ کا یہ کام پھنسا ہے جو وہاں کا کلرک آسانی سے کر سکتا ہے تو وہ انا کو پس پشت ڈال کر اسے براہ راست کال کر لیتے، انھوں نے فرنچائز مالکان کے ساتھ بھی یہی کیا،انھیں ایسے خوابوں کے محل دکھائے کہ وہ مان گئے لیکن بیچارے اب تک نقصانات کا حساب ہی لگا رہے ہیں۔

سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ تمام ٹیمیں الگ الگ  رقم پر فروخت ہوئیں مگر انھیں منافع یکساں ملنا تھا، جیسے آپ نے ایک ٹیم سو روپے کی خریدی اور میں نے 500 کی مگر پرافٹ میرا بھی 10روپے ہوگا اور آپ کو بھی اتنی رقم ملے گی، اسی کے ساتھ ڈالرز میں فیس دینے کی شق شامل ہوئی، اس وقت ڈالر کا ریٹ شاید 102 تھا جو اب 160 کے قریب ہے، یعنی فیس میں خود بخود بڑا اضافہ ہو گیا، پھر ایک اور مسئلہ یہ کہ آپ کی پاس ٹیم 10برس کیلیے ہے، اس کے بعد ویلیو کا جائزہ لے کر نئی آفر دی جائے گی،یعنی آپ نے اپنی فرنچائز کو جتنا بڑا برانڈ بنایا انتا ہی اپنے ساتھ ظلم کیا، اس وقت تو فرنچائززسے ’’ملک و قوم‘‘ کی خدمت کرنے کا کہہ کر معاہدے پر دستخط کرا لیے گئے اب بیچارے سب مالکان پریشان ہیں، سیٹھی صاحب اپنے گھر پر سکون سے بیٹھے ہیں اور فرنچائزز کو اب ایک منیجر لیول کے آفیشل سے معاملات ڈسکس کرنے پڑتے ہیں،چیئرمین تک ان کی رسائی ہی نہیں ہے،اسی لیے معاملہ عدالت میں چلا گیا جس سے جگ ہنسائی ہوئی، اب چھٹا ایڈیشن شروع ہونے والا ہے۔

اس لیے سب خاموش بیٹھے ہیں، ایونٹ کے بعد پھر شور مچے گا، بورڈ نے فنانشل ماڈل پر نظرثانی کا یقین تو دلایا تھا دیکھتے ہیں کیا بنتا ہے، احسان مانی کی شخصیت نجم سیٹھی سے بالکل مختلف ہے، وہ زیادہ تر وقت برطانیہ میں رہے ہیں اس لیے اسٹائل بھی گوروں والا ہے، میڈیا سے بھی دور دور ہیں، ان تک پہنچنے کیلیے جو پل (میڈیا ڈپارٹمنٹ) ہے اس کے دروازے پر اتنی تلاشی ہوتی ہے کہ آپ تنگ آ کر واپس چلے جاتے ہیں، بورڈکنٹرول میڈیا  پالیسی پر عمل پیرا ہے، ہر چیز بنی بنائی واٹس ایپ گروپس میں شیئر کی جاتی ہے

پلیئرز کے انٹرویوز بھی نہ ہونے کے برابر کر دیے گئے ہیں، بیشتر سابق کرکٹرز کو نوکریاں دے دیں، ڈومیسٹک کھلاڑیوں کو بھی پابندیوں کی زنجیروں میں جکڑ دیا،پی سی بی کا بس چلے تو وہ اخبارات کو اسپورٹس کے صفحات اور ٹی وی چینلز کو بلیٹن بھی پی سی بی میڈیا ڈپارٹمنٹ سے بنوا کر دیں،اس پالیسی کے سبب میڈیا گھٹے گھٹے ماحول میں کام کر رہا ہے مگر بیچارے رپورٹرز ان سے بگاڑ بھی نہیں سکتے ورنہ روزمرہ کے امور کیسے نمٹائیں گے، چونکہ بورڈ حکام یہی چاہتے ہیں تو انھیں بھی اس پالیسی پر اعتراض نہیں، چلیں صحافیوں کی حد تک تو درست ہے لیکن فرنچائز مالکان نے تو اربوں روپے لگائے ہیں ان سے تو چیئرمین کو بات کرنی چاہیے،آپ کی براڈ کاسٹر سے قانونی جنگ ہوئی، جوئے کی ویب سائٹ پر لائیو اسٹریمنگ ہو گئی۔

پھر معاہدہ ختم کرنا پڑا، فرنچائزز سے تنازع عدالت تک گیا،صاف ظاہر ہے کہ پی ایس ایل کے معاملات درست انداز میں نہیں چلائے جا رہے،لیگ کرا کے آپ کوئی کمال نہیں کر رہے، سب کچھ بنا بنایا ملا، اربوں روپے اور پورا انفرا اسٹرکچر بورڈ کے پاس موجود ہے،کوئی بھی چیئرمین ہو ایونٹ کرا سکتا ہے، مگرجو مسائل کا انبار لگا ہے انھیں حل کریں، گذشتہ برس کی افتتاحی تقریب کیسی ’’شاندار‘‘ تھی سب کویاد ہوگا،اس بار کے ترانہ سن کر لوگ انگلیاں دانتوں میں دبائے بیٹھے ہیں کہ یہ کیا تھا؟ افتتاحی تقریب کے گانے تک ’’نیوٹرل وینیو‘‘ ترکی میں ریکارڈ کیے گئے۔

اس کی کیا منطق ہے یہ بورڈ کے بقراط ہی بتا سکتے ہیں، لیگ اس وقت آٹو پائلٹ موڈ پرچل رہی ہے، گذشتہ کچھ عرصے میں کریش ہوتے ہوتے بھی بچی،اگر کسی ماہر پائلٹ نے انتظام نہ سنبھالا تو آگے حالات اچھے نہیں لگ رہے، برسوں بعد پاکستان نے کوئی بڑا برانڈ بنایا ہے اس خراب نہ کریں، سنجیدگی سے مسائل  حل کرنے کی کوشش کریں، چاہے اس کے لیے انا کو پس پشت بھی رکھنا پڑے، نجم سیٹھی کو بھی یہ زعم تھا کہ وہ وزیر اعظم نواز شریف کے خاص الخاص ہیں لیکن  اب وہ کہاں ہیں؟ اسی طرح احسان مانی بھی وزیر اعظم عمران خان کے بہت قریب ہیں لیکن وقت اور حکومت جب بدلتی ہے تو اپنے بھی آنکھیں پھیر لیتے ہیں انھیں یہ یاد رکھنا چاہیے۔

نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔