خواتین کے کھیلوں پر توجہ کیوں نہیں؟

حبا رحمن  منگل 23 فروری 2021
حکومتی سطح  پر صنف نازک کے کھیلوں کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔ فوٹو: فائل

حکومتی سطح  پر صنف نازک کے کھیلوں کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔ فوٹو: فائل

دنیا بھر میں خواتین کے کھیل کو بہت ترجیح دی جاتی ہے اور اب اس دقیانوسی سوچ کو پیچھے چھوڑا جاتا ہے کہ عورتیں کھانا پکانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتیں۔

پاکستان میں یہ سوچ پوری طرح ختم نہیں ہوئی ہے، لیکن ہمارے خیال میں 80 فی صد لوگوں کی سوچ اس سوچ سے کافی مختلف ہے وہ اپنے گھر کی عورتوں کو اجازت بھی دیتے ہیں اور ان کا ساتھ بھی دیتے ہیں۔

کھیل تو بہت ہیں، لیکن کھیلے تو تب جائیں ناں، جب کوئی اچھا سکھانے والا ہو۔۔۔ پاکستان میں عورتوں کو صرف کرکٹ کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور وہ بھی کچھ خاص نہیں لڑکیوں  میں جذبہ تو بہت دکھائی دیتا ہے، لیکن جیسے ایک اچھا کھلاڑی کھیلتا ہے ویسے نہیں کھیل پاتی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی ان پر اتنی توجہ دیتا ہی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ جب بین الاقوامی میچ ہوتے ہیں۔

دوسری ٹیم کو سپورٹ کرنے ان کے ملک کے لوگ آتے ہیں، لیکن ہمارے لوگ اپنی ٹیم کو سپورٹ کرنے نہیں جاتے۔ نہ ان کا میچ دیکھتے ہیں کیوں کہ وہ پہلے ہی کہہ دیتے ہیں کہ یہ لوگ جیتتے تو ہیں نہیں اور نہ ہی اچھا کھیلتے ہیں، تو کیوں دیکھیں یا سپورٹ کرنے جائیں۔ اس کے علاوہ باسکٹ بال، فٹ بال، آئس اسکیٹنگ، ہاکی، چیس، کیرم، ٹیبل ٹینس، بیٹ منٹن  جیسے کھیل کھیلنے کی ہمت اور جذبہ بہت ہے ہمارے ملک کی لڑکیوں میں۔ لیکن بس مسئلہ وہی ہے کہ یا تو کوئی اجازت نہیں دیتا یا اچھا سکھانے والا نہیں ہوتا، فنڈ نہیں ہوتے۔

یہ لوگ بس لڑکوں کے کھیل دیکھ کے خوش ہوتے رہتے ہیں یا اولمپکس میں برونز یا سلور میڈل لے کے خوش ہوتے ہیں اس میں بھی گنتی کی لڑکیوں کو لے کے جاتے ہیں، لیکن پھر بھی وہ زیادہ کچھ نہیں کر پاتیں، کیوں کہ زیادہ توجہ تو ان کے ساتھ گئے ہوئے لڑکوں پر دی گئی ہوتی ہے۔ اس سے یہ ہوتا ہے کہ جو لڑکیاں واقعی اچھی ہوتی ہیں جن کو کچھ نہ بھی ٹریننگ دی جائے، تب بھی وہ جیت جائیں، لیکن وہ بھی یہ سب دیکھ کے آگے نہیں آتیں اور اپنے خواب بس دل میں رکھتی ہیں۔ ہم کچھ کر نہیں سکتے، سوائے اس امید کے کہ ہماری حکومت کو کچھ خیال آئے اور وہ خواتین کے کھیلوں پر بھی توجہ دیں اور ان کے خواب کو بھی پورا کرے۔

اس ضمن میں یہاں ایک اہم پہلو تو چِھڑا ہی نہیں، وہ یہ کہ زیادہ  تر ماں باپ اپنی بیٹیوں کو ٹریننگ سینٹر بھیجنے سے کتراتے ہیں! وہ اس لیے کیوں کہ آج کل ’ہراساں کیے جانے اور اس جیسی خوف ناک چیزوں کے معاملات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اب ڈر ہی لگتا ہے، لیکن ان سب سے مقابلہ کرنے کے لیے جوڈو کراٹے بھی ہیں، لیکن بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ یہ کون سکھائے لڑکیوں کو اتنا اچھا کہ وہ ماہر ہو جائیں اس میں۔۔۔ ایسی بات نہیں ہے کہ یہاں بالکل بھی کوئی سکھانے والا نہیں ہے۔۔۔ لوگ ہیں تو، لیکن وہ سکھا کر پھر کیا کریں۔۔۔؟ حکومت ہی آگے کے لیے ’منظوری‘ نہ دے، پھر تو سب  ضایع ہو جائے گا، یا پھر اپنے دفاع کے لیے اس کا چلن اتنا عام ہو کہ بات بن جائے، دراصل یہاں غلطی کسی ایک انسان کی نہیں ہے۔

کسی ایک انسان کو نہیں پکڑا جا سکتا اور نہ ہی کوئی ایک انسان اس میں تبدیلی  لا سکتا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے کھیلوں پر برابر کی توجہ دی جاتی ہے اور بعض ممالک میں تو لڑکون کی بہ نسبت لڑکیاں زیادہ اچھا کھیلتی ہیں۔ اور ان کو یہ ہمت دینے والے لوگوں میں ان کی حکومت کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ اتنا آگے بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ہماری طرح نہیں کہ بس اگر ایک طرف سے لڑکوں کو میڈل مل رہے ہیں، تو بس اسی طرف توجہ زیادہ دیں اور لڑکیوں کا  فقط وقت اور محنت ہی ضائع کرائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔