اسے نوبیل انعام نہیں دیا گیا

زاہدہ حنا  بدھ 24 فروری 2021
zahedahina@gmail.com

[email protected]

نوم چومسکی کی عمر دراز ہو، وہ دنیا کے ان باضمیر دانشوروں میں سے ہے، جن کی توقیرکی جاتی ہے۔ اسے نوبیل انعام نہیں دیا گیا لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے، وہ دنیا کے ہر با ضمیر انسان کے دل میں زندہ ہے۔

نوم چومسکی کی بین الاقوامی شہرت کا آغاز ایک ماہر لسانیات کے طور پر ہوا لیکن 70ء کی دہائی سے انھوں نے بین الاقوامی سیاست میں امریکی مداخلت، شہری اور انسانی حقوق اور دنیا بھرکی مظلوم اقوام کے لیے انصاف کے حصول جیسے اہم موضوعات پر امریکی حکمرانوں سے کھل کر اختلاف کرنا شروع کردیا تھا۔ 1977 میں انھوں نے کمبوڈیا کے بارے میں امریکی پالیسیوں پر تنقیدکی، پھر آہستہ آہستہ ان کی آواز بلند ہوتی گئی اور جلد ہی وہ تیسری دنیا کی مظلوم اقوام کے حمایتی بن کر سامنے آئے۔

امریکی حکومت کی انسان دشمن پالیسیوں پر ان کی تنقید کا لہجہ سخت سے سخت ترین ہوتا گیا۔ خلیج کی جنگ میں امریکی حکومت کے سامراجی رویوں اور اس کے بعد امریکی دباؤکے تحت اقوام متحدہ کی جانب سے عراق پر عائد کی جانے والی ظالمانہ پابندیوں پر انھوں نے شدت سے اعتراض کیا۔

دسمبر 2001 میں نوم چومسکی نے برصغیرکا دورہ کیا تو ان کے اس دورے کو بہت اہمیت دی گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ساری دنیا 11 ستمبر 2001 کے سانحے سے دہشت زدہ تھی، امریکا نے دہشت گردی کے اس واقعے کو ساری دنیا پر اپنی بالادستی کے لیے استعمال کرنے کا تہیہ کرلیا تھا اور ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر افغانستان کے نہتے اور بے گناہ عوام پر امریکی طیاروں کی بے محابا بمباری جاری تھی اور امریکا اور اس  کے اتحادیوں کی افواج افغان شہروں اور دیہاتوں میں کارروائیاں کررہی تھیں۔ یہی وہ زمانہ ہے جب بین الاقوامی پریس میں نوم چومسکی، ارون دھتی رائے اور ایڈور سعید کے امریکا مخالف مضامین شایع ہورہے تھے اور افغانستان کے مظلوم عوام کے ساتھ یک جہتی کا اظہارکیا جارہا تھا۔

نوم چومسکی ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1955سے وہ امریکا کے ایک مشہور اور معتبر تعلیمی ادارے MIT سے وابستہ ہیں۔ اس امریکی یونیورسٹی سے وابستہ ہونے کے باوجود انھوں نے امریکی حکمرانوں سے اختلاف کرنے اور اسرائیل کی صیہونی پالیسیوں اور فلسطین دشمن رویوں پر شدید تنقید کرنے کا کوئی بھی موقعہ کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔

نوم چومسکی کے درجنوںمضامین دنیا کے معتبر اخبارات اور رسائل و جرائد میں شایع ہوچکے ہیں۔ انھوں نے جمہوریت اور بین الاقوامی سطح پر امریکا کی ریاستی دہشت گردی جیسے اہم اور حساس موضوعات پر متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ اردو میں ابھی تک ان کی کسی کتاب کا ترجمہ نہیں ہوا تھا لیکن کچھ دنوں پہلے ان کی ایک مختصر سی کتاب “What Uncle Sam Really Wants” اسلم خواجہ نے ’’چچا سام کیا چاہتا ہے‘‘ کے عنوان سے ترجمہ کی ہے ۔

نوم چومسکی نے یوں تو بہت سی کتابیں لکھی ہیں لیکن ان کی اس مختصرکتاب کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ 1992 میں شایع ہوئی اور  اب تک انگریزی میں اس کتاب کے متعدد ایڈیشن چھپ چکے ہیں اور اس کی لاکھوںکاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ اس کتاب کے اب تک دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمے بھی ہوچکے ہیں۔

ایک مبصر نے نوم چومسکی کی تحریروں کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ نوم چومسکی طاقت (Power) کے تاریک رُخ کو بڑی بے رحمی کے ساتھ واضح کرتا ہے۔ سیاست جو کچھ ہے، نوم چومسکی بس وہیں نہیں، وہ آپ کو وہاں تک لے جاتا ہے، جہاں قدم دھرنے کی ہمت کم ہی لوگ کرتے ہیں۔‘‘

اس کے بارے میں آرتھر نائمین اور سینڈی نائمین نے لکھا ہے کہ ’’ دنیا اگر زیادہ معقول جگہ ہوتی تو انصاف کے حصول کے لیے اپنی ان تھک کوششوں پر نوم چومسکی کو امن کا نوبل انعام مل چکا ہوتا مگر نوبل امن انعام دینے والی کمیٹی یہ اعزاز ہنری کسنجر جیسے لوگوں کو دے دیتی ہے۔‘‘

’’چچا سام کیا چاہتا ہے‘‘ ایک ایسی کتاب ہے جس میں دنیا پر بلاشرکت غیرے اقتدار حاصل کرنے اور اس بالادستی کو ہمیشہ کے لیے اپنے قبضے میں رکھنے کی خاطر امریکی حکومت کے ظالمانہ ، غیر انسانی اور غیر جمہوری رویوں پرکھل کر بحث کی گئی ہے۔ نوم چومسکی نے اپنی اس کتاب میں ویتنام اور مشرق بعید کے دوسرے ملکوں، افریقا، لاطینی امریکا، ایشیا اور شرق اوسط کے مختلف ملکوں کے بارے میں امریکی پالیسیوں کو شدید تنقیدکا نشانہ بناتے ہوئے لکھا ہے کہ آئیے ہم لاطینی امریکا پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور انسانی حقوق کے تناظر میں اپنی بات کی ابتدا کرتے ہیں۔

لاطینی امریکا میں انسانی حقوق کے ایک اہم ماہر لارس شولزکی تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ ’’امریکا کی جانب سے لاطینی امریکا کی ان حکومتوں کو بے تحاشہ امداد دی گئی جو اپنے شہریوں پر جبر و تشدد کررہی تھیں۔‘‘ اس امداد کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں تھا کہ ان ملکوں کو اس امداد کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔ اس کا تعلق اس بات سے تھا کہ وہ امریکی مفادات کا تحفظ کرنے پر رضامند ہیں یا نہیں۔

ماہر اقتصادیات ایڈورڈ ہرمین نے بین الاقوامی سطح پر تشدد اور امریکی امداد کے درمیان قریبی تعلقات کا انکشاف کیا ہے۔ نوم چومسکی، ایڈورڈ ہرمین کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہے کہ لاطینی امریکا میں معیار زندگی کو بہتر بنانے کی صدرکینیڈی کی پالیسی کو بڑھاوا دیا گیا۔ اس پالیسی کے تحت جس نوعیت کی ترقی پر زور دیا گیا، وہ امریکی سرمایہ کاروں کی ضروریات کے مطابق تھی۔ اس ’’ ترقیاتی پروگرام‘‘ کے تحت گائے کے گوشت کی پیداوار میں اضافہ تو ضرور ہوا لیکن اس کی طلب میں کمی ہوگئی۔

نوم چومسکی لکھتا ہے کہ ترقی کا یہ امریکی نسخہ عام طور پر ایسا ’’معاشی معجزہ‘‘ کر دکھاتا ہے جس کے تحت مجموعی پیداوار میں تو یقینا اضافہ ہوجاتا ہے لیکن ملکی آبادی کی اکثریت کو بھوکا رہنا پڑتا ہے۔ ایسی پالیسیوں پر عمل درآمد کے نتیجے میں لازمی طور سے عوامی مزاحمت پیدا ہوتی ہے جسے جبر و تشدد کے ذریعے کچل دیا جاتا ہے۔پہلا قدم یہ اٹھایا جاتا ہے کہ عوامی مزاحمت کو پولیس کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن جب اس کام میں پولیس ناکام ہوجاتی ہے تو اس ملک کی فوج کے جرنیلوں سے رابطہ کیا جاتا ہے اور آخری حل کے طور پر حکومت کا تختہ الٹ دیا جاتا ہے۔

نوم چومسکی اس طرف بہ طور خاص اشارہ کرتا ہے کہ امریکی حکومتیں تیسری دنیا کی اسٹیبلشمنٹ سے ہمیشہ بہتر اور قریبی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ پالیسی اس لیے اختیارکی جاتی ہے کہ اگرکسی ملک کی حکومت سے امریکا کے تعلقات خراب ہوجائیں اور وہ امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے کام نہ کرے تو پھر اس ملک کی فوج کے ذریعے ’’ ناپسندیدہ حکومت‘‘ کا تختہ الٹ دیا جائے۔ اسی طریقۂ کار کے تحت 1973میں چلی اور 1965 میں انڈونیشیا کی فوجوں نے اپنی اپنی حکومتوں کا تختہ الٹا اور فوجی ’’انقلاب‘‘ کے خلاف ہونے والی عوامی مزاحمت کو پوری قوت سے کچل دیا گیا۔

اس سارے عمل کو امریکی حکومت کی آشیر واد حاصل تھی۔ نوم چومسکی یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ امریکا حالانکہ چلی اور انڈونیشیا کی اس وقت کی حکومتوں کا سخت مخالف تھا، اس کے باوجود امریکا مخالف ان حکومتوں کو امریکی فوجی امداد فراخ دلی سے دی جارہی تھی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ امریکی اعلیٰ حکام اس فوجی امداد کے پردے میں چلی اور انڈونیشیا کی فوجوں میں اپنا اثرورسوخ بڑھا رہے تھے اور جرنیلوں سے وہ رابطے استوار کررہے تھے جو بعد میں ان ملکوں کی حکومتوں کا تختہ الٹنے کے کام آئے۔ یہی وہ جرنیل تھے جنھوں نے اقتدار پر قبضے کے بعد امریکی مفادات کے مکمل تحفظ کے لیے کام کیا۔

نوم چومسکی اپنی اس مختصر کتاب میں لکھتا ہے کہ ’’1980 کی دہائی میں امریکا کی جانب سے ایران کو اسرائیل کے ذریعے اسلحہ فراہم کرنے کے پیچھے بھی یہی سبب کارفرما تھا۔‘‘ اسی طرح وہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ 1960 کی دہائی میں جب برازیل کی جمہوری حکومت اپنے ملک کو امریکی اثرات سے فاصلے پر رکھنے کے لیے زیادہ سرگرم ہوئی تو کینیڈی انتظامیہ نے 1964 کے دوران برازیل میں فوجی بغاوت کے لیے راہ ہموارکی۔

امریکا نے اس قدر پُرجوش انداز میں برازیل کی فوجی بغاوت کی حمایت کی کہ برازیلی جرنیل قابو سے باہر ہوگئے اور انھوں نے تشدد اور جبر کے وہ طریقے اختیارکیے جو نازی طریقے کہلاتے ہیں۔ نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ برازیل کے فوجی جرنیلوں کی امریکا نے جس طور پشت پناہی کی اس کے نتیجے میں ارجنٹائن اور چلی کے خطے میں 60ء کی دہائی کے وسط سے لے کر 1980 کی دہائی تک ایسے واقعات کے تسلسل نے جنم لیا جو لاطینی امریکا میں ’’خونیں دور‘‘ کے طور پر مشہور ہے۔

’’چچا سام کیا چاہتا ہے‘‘ ایک ایسی کتاب ہے جس کا ہر صفحہ تیسری دنیا کے عوام کی طرف سے امریکا کے خلاف فردِ جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کتاب کو لکھتے ہوئے نوم چومسکی نے خفیہ امریکی دستاویزات، منرو ڈاکٹرائن اور دوسری اہم امریکی کتابوں کو سامنے رکھا ہے، ان کے حوالے دیے ہیں اور اپنے ہر الزام کو درست ثابت کرنے کے لیے حقائق کا اور اعداد و شمار کا سہارا لیا ہے۔ کہنے کو یہ 88 صفحات پر مشتمل ایک ’’مختصر‘‘ سی کتاب ہے لیکن اس کے صفحوں پر تیسری دنیا کے مظلوم عوام کا مقدمہ نوم چومسکی نے نہایت قوت اور مہارت سے لڑا ہے۔ اس کی ایسی ہی تحریروں نے اسے بیسویں اور اکیسویں صدی کے اہم اور باضمیر دانشوروں کی صفِ اول میں جگہ دلائی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔