پنگا

عثمان دموہی  اتوار 28 فروری 2021
usmandamohi@yahoo.com

[email protected]

حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ ٹرمپ روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتا رہا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جب مودی کا جگری دوست ٹرمپ غیر ملکی ایجنٹ ہو سکتا ہے تو پھر مودی جو اپنے دوست کے نقش قدم پر چل رہا ہے ضرورکسی ملک کا ایجنٹ ہو سکتا ہے۔

مودی جب سے بھارت کا وزیر اعظم بنا ہے بھارت کے مفادات کے خلاف کام میں مصروف ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ٹرمپ اپنے پورے دور اقتدار میں امریکی مفادات کے بجائے اسرائیلی مفادات کے لیے سرگرم رہا ہے۔ اس نے امریکا میں کالے قوانین نافذکرکے قوم کوکالے گورے میں بانٹ دیا۔ امریکی پارلیمنٹ پر حملہ آور ہوکر نہ صرف امریکا کو ذلیل و خوارکیا بلکہ صدیوں پرانی جمہوریت اور سیکولر ازم کا جنازہ نکال دیا۔

مودی نے بھی بھارت کو ذلیل و خوار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اس نے بھارت کو ہندو مسلمان کے علاوہ گاندھی کے چاہنے والوں اور گوڈسے کے چاہنے والوں میں بانٹ دیا ہے۔ اس نے بھارت کو مذہبی جنونیت اور عصبیت کی آگ میں جھونک کر بھارتی سیکولرازم اور جمہوریت کا بٹھہ بٹھا دیا ہے۔ ٹرمپ کی البتہ روسی جاسوس ہونے کا راز اس کے امریکی صدارت سے ہٹنے کے بعد فاش ہوا ہے۔ مودی تو اپنی حکمرانی کے دوران ہی سی آئی اے اور موساد کے ایجنٹ کے طور پر بھارتیوں میں بدنام ہو چکا ہے۔

اب مودی نے بھارت کے چہرے پر مزید کالک ملنے کے لیے کسانوں کے مفادات کے خلاف اور اپنے سرمایہ دار دوستوںکو فائدہ پہنچانے کے لیے ایسے کالے زرعی قوانین نافذکیے ہیں جن کے خلاف کسانوں نے اپنے احتجاج سے پورے بھارت کو میدان جنگ میں بدل دیا ہے۔

مودی کے ان ظالمانہ زرعی قوانین سے بھارتی سکھ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ وہ اپنی خواتین اور بچوں کے ساتھ ڈیڑھ ماہ سے دہلی کی سڑکوں پر محو احتجاج ہیں۔ وہ پہلے ہی لال قلعے پر ٹھیک بھارت کے یوم جمہوریہ پر چڑھائی کرچکے ہیں، اس دن مودی لال قلعے پر ہر سال کی طرح قوم سے خطاب بھی نہیں کر پایا تھا۔ مودی کے کسان کش زرعی قوانین کے خلاف بھارت کے دوست ممالک کے سربراہان بھی خاموش نہ رہ سکے اور انھوں نے کسانوں کے حق میں بیانات دیے ہیں مگر مودی نے انھیں بھی رد کر دیا ہے۔

کینیڈا ایک ایسا ملک ہے جہاں سکھوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ سکھوں نے کینیڈا کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے انھیں وہاں بڑی عزت وتکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وہاں کے وزیر اعظم ٹروڈو نے سکھ کسانوں کے حق میں دو مرتبہ بیانات دیے ہیں وہ بھارت میں سکھوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر بہت دکھی ہیں۔

کینیڈا میں خالصتان کے حق میں متحرک عالمی سکھ تنظیم پر ٹروڈو نے کبھی قدغن نہیں کی ہے حالانکہ مودی نے ان سے اس تنظیم کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے مگر انھوں نے اسے کشمیریوں کی طرح سکھوں کو آزادی سے محروم کرنے کی سازش قرار دے کر رد کردیا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم نے بھی بھارتی سکھوں کے حق میں بیان دیا ہے امریکی حکومت نے بھی مودی کوکسانوں کے خلاف زرعی قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے مگر مودی اپنی ہٹ دھرمی پر بدستور قائم ہے۔

کسان دہلی کے آس پاس اب بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں ان کے حوصلے بلند ہیں۔ وہ ٹرینوں کی آمد و رفت کو روک کر ریلوے کے نظام کو تہس نہس کرچکے ہیں اب وہ 27 فروری کو دہلی پر ایک بڑے حملے کی تیاری کر رہے ہیں یہ حملہ بھارتی دارالحکومت کے لیے پہلے سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ سکھوں نے مودی کو دھمکی دی ہے کہ اگر اب بھی ان کے مطالبات کو نہ مانا گیا تو وہ پورے پنجاب کے کھیتوں میں گندم کی کھڑی فصل میں آگ لگا کر بھسم کر دینگے اگر کسان ایسا کرنے پر مجبور ہوگئے تو بھارت میں قحط سالی کا سماں پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ بھارت میں پنجاب سب سے زیادہ گندم پیدا کرنیوالا خطہ ہے۔

مودی کی پراسرار ہٹ دھرمی سے سکھوں میں بھارت کے خلاف روزبروز نفرت بڑھتی جا رہی ہے، اب انھیں آزادی کے وقت اپنے بزرگوں کے بھارت کے حق میں غلط فیصلہ کرنے کا شدید احساس ہو رہا ہے۔ اب وہ خالصتان کی تحریک کو عروج پر پہنچانے کے لیے سرگرم ہو گئے ہیں۔ وہ بھارت سے آزادی حاصل کرنے کے لیے پاکستان کی جانب بھی دیکھ رہے ہیں حال ہی میں ایک سکھ تنظیم نے کھلم کھلا کہا ہے کہ جس طرح بھارت نے پاکستان کو توڑ کر بنگلہ دیش بنایا تھا اب پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھارت کے پنجاب صوبے کو توڑ کر خالصتان کا قیام عمل میں لے آئے۔

سکھ پاکستان کے اس احسان کو کبھی نہیں بھولیں گے۔ سکھوں پر مودی کے مظالم سے بھارتی فوج میں شامل سکھ فوجیوں میں بھی بھارت کے خلاف غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے کئی سکھ فوجیوں نے اپنے خفیہ پیغام میں بھارت سے بغاوت کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ مودی نے سکھوں سے پنگا لے تو لیا ہے مگر وہ شاید سکھوں کی تاریخ سے واقف نہیں ہے۔ انگریز اگر آج سکھوں کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ برصغیر میں 1857 میں چلنے والی تحریک آزادی کو سکھ فوجیوں کی مدد سے کچلنے میں کامیاب ہوئے تھے مگر دوسری جانب انگریزوں کو برصغیر سے نکالنے میں سکھوں کے بھگت سنگھ جیسے سیکڑوں حریت پسندوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

1907 میں جب برطانوی حکومت نے برصغیر کے کسانوں کے مفادات کے خلاف زرعی قوانین نافذ کیے تھے تو یہ سکھ ہی تھے جنھوں نے ’’پگڑی سنبھال جٹا‘‘ جیسی تحاریک شروع کرکے برطانوی حکومت کو کسانوں کے خلاف قوانین کو واپس لینے پر مجبور کردیا تھا۔

مودی اپنے ہندوتوا کے نشے میں کسانوں کے خلاف قوانین نافذ کرنے کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 350A کو ختم کرکے اپنے تئیں یہ سمجھ رہا ہے کہ اس نے بھارت کے حق میں تاریخی فیصلے کیے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس نے اپنی ان بیوقوفانہ حرکتوں سے بھارت کی سلامتی کو سخت خطرے میں ڈال دیا ہے۔

مودی کی اس وقت بھرپور کوشش ہے کہ کسی طرح بھارت سلامتی کونسل کے مستقل اراکین میں شامل ہو جائے تاکہ وہ پھر مسئلہ کشمیرکو اپنے ویٹو کے استعمال سے سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے ہمیشہ کے لیے خارج کرا دے مگر مودی کی یہ طفلانہ کوششیں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکیں گی کیونکہ اب چین کشمیریوں کی آزادی کے لیے سرگرم ہو گیا ہے۔ وہ اس مسئلے کو گزشتہ سال تین مرتبہ سلامتی کونسل میں اٹھا چکا ہے۔

مودی کی بے وقوفیوں کی وجہ سے جہاں اب مسئلہ کشمیر کے حل ہونے کا وقت قریب آگیا ہے وہاں خالصتان کے قیام کی منزل بھی زیادہ دور نظر نہیں آرہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔