سینیٹ الیکشن

ظہیر اختر بیدری  پير 1 مارچ 2021
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

سینیٹ کے انتخابات سامنے ہیں جب کہ لیڈران کرام پروپیگنڈہ مہم میں مصروف ہیں۔ اس سسٹم میں سب سے زیادہ اہمیت پروپیگنڈے کی ہوتی ہے اور پروپیگنڈہ جھوٹ اور سچ میں تمیز نہیں کرتا بلکہ جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنا ہی اس سرمایہ دارانہ نظام کا بڑا کارنامہ ہے۔

بے چارے عوام صرف نعرے لگانے کے لیے پیدا ہوتے ہیں وہ اپنا کام بڑی ایمانداری سے کرتے ہیں۔ عوام کا ایک حصہ ان لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے جو نسلاً کسی مخصوص جماعت کے لیے اپنے دل میںہمدردی رکھتے ہیں ان پر کسی پروپیگنڈے کسی سچائی کا کوئی اثر نہیں ہوتا کیونکہ وہ نسلاً کسی پارٹی کے حامی یا مخالف ہوتے ہیں۔ اس رجحان کی وجہ سے سچائی کی بھینس  پانی میں چلی جاتی ہے اور جھوٹ کا بچھڑا سینگ مارتا ہوا یا سینگ مارتی ہوئی ہجوم میں گھس جاتی ہے۔

پروپیگنڈا مہم الیکشن لڑنے والی ہر جماعت کا حق ہوتا ہے وہ سچ اور جھوٹ کی تمیزکیے بغیر اپنی جماعت کے حق میں بولتے چلے جاتے ہیں۔ تقریر ایک فن ہے اور اس فن کو جاننے والے جھوٹ کو سچ بتا کر اس طرح پیش کرتے ہیں کہ سامعین ذہنی الجھنوں کا شکار ہوکر رہ جاتے ہیں اور یہ پروپیگنڈا ہی ہوتا ہے جو رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرتا ہے۔ آواز کا زیر و بم اور اتار چڑھاؤ یہ وہ قابلیت ہیں جسے ہم اکتسابی کہہ سکیں یا  خوبی مقرر کی ذاتی خوبی ہوتی ہے اور یہی خوبی ہجوم کی سائیکی کو متاثرکرتی ہے۔

پچھلے کچھ عرصے سے بعض سیاسی جماعتیں جھوٹ اس دھڑلے سے بول رہی ہیں کہ ہوشیار آدمی کا ایمان بھی ڈگمگا جاتا ہے، اسی کو فن تقریرکہا جاتا ہے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ آج کے میدان سیاست میں مرد کی روایتی برتری کی بجائے ایک خاتون کی غیر روایتی برتری کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ آواز کا زیر و بم کے ساتھ خصوصاً ہاتھوں کی نقل و حرکت عوام کو متاثر کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ خوبی بہت کم مقررین میں ہوتی ہے خاص طور پر خواتین میں اور یہ مسلم لیگ (ن) کی خوش قسمتی ہے کہ اسے  شاندار مقررین ملے ہیں۔

تقاریر کے میدان میںان کا کوئی جواب نہیں۔ ایک طویل عرصے بعد وزیر اعظم عمران خان نے بھی اس میدان میں قدم رکھا ہے اور عوام ان کی تقریر سے تو متاثر ہوتے نظر نہیں آتے، البتہ وہ اپنی تقاریر میں جوکچھ بولتے ہیں عوام کا متاثر ہونا ایک فطری امر ہے اور عوام اس سے بہت فائدہ اٹھا رہے ہیں کیونکہ ایک چھوٹا سا سچ ہزار جھوٹ پر بھاری ہوتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سچ بولنے کے فن سے ضرور واقف ہیں جو سارے جھوٹ کو نگل لیتا ہے۔

مشکل یہ ہے کہ عمران خان کا ایک چھوٹا سا سچ جھوٹ کے پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دیتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اپنے دس سالہ دور میں جو لوٹ مار کی اس کا پروپیگنڈا قومی ہی نہیں بین الاقوامی سطح پر اتنا شدید رہا کہ ملک کا بچہ بچہ اس نامور اسکینڈل سے واقف ہو گیا ہے۔ اس حقیقت کو پروپیگنڈا سے چھپانا بہت مشکل ہے۔ عمران خان اور ان کی پارٹی کو یہ کریڈٹ حاصل ہے کہ باوجود سر توڑکوششوں کے عمران اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہ ہو سکی جس کا بھرپور بینفیٹ عمران خان کو مل رہا ہے۔

عام خیال یہ ہے کہ ملک میں مہنگائی کا جو طوفان آیا ہوا ہے وہ اپوزیشن کی سازش کا حصہ ہے اس تاثر سے اگرچہ عوام گومگو کی حالت میں ہیں لیکن اگر اس حوالے سے عمران خان ٹھوس ثبوت پیش کرتے ہیں تو عوام کی پکی حمایت انھیں حاصل ہوسکتی ہے۔ ویسے بھی پاکستان تحریک انصاف اس سے قبل اقتدار میں نہیں آئی لہٰذا اس پر کرپشن کے الزامات عوام کے سامنے ایک مذموم پروپیگنڈے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ اپوزیشن کی جوشیلی تقاریرکی تعریف تو کی جاسکتی ہے لیکن اپوزیشن کے 10 سالہ ماضی کے کارنامے بدل نہیں سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دوران جو کرپشن کی گئی اسے عوام نہیں بھلا سکتے۔

انتخابات سینیٹ کے ہونے جارہے ہیں، قومی اسمبلی کے نہیں لیکن ان انتخابات کی اہمیت ایک آزمائشی پرواز سے زیادہ نہیں۔ ان انتخابات سے دونوں جماعتوں کو عوام میں اپنی اپنی مقبولیت کا اندازہ ہوگا اور اس کے حوالے ہی سے وہ قومی انتخابات کی پالیسی بنائیں گے۔

اپوزیشن نے اپنے 10 سالہ زریں دور میں جو کارنامے انجام دیے ،اس کا عوام کے ذہنوں پر منفی اثر ہونا لازمی ہے اس حوالے سے (ن) لیگ کے لیے قومی انتخابات ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ (ن) لیگ آج اپنے جلوسوں کو چھومنتر سے جو کامیابی دلا رہی ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ اس ملک میں اس قسم کی چالاکیاں عام ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے  کہ آنے والے انتخابات تک اگرحکومت کو مہلت ملتی ہے تو عمران خان قوم ملک کے لیے اتنا کام کر جائیں گے کہ آیندہ دس پندرہ سال تک وہ اقتدار میں رہیں گے تو وہ عوامی مسائل کو حل کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہو جائیں گے۔

اصل مسئلہ یہی ہے جسے (ن) لیگ اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر حکومت کو پانچ سال بھی مل گئے تو وہ عوامی مسائل حل کرنے میں اس حد تک کامیاب ہو جائے گی کہ آیندہ دس پندرہ سال اگر کوئی آسمانی سلطانی نہ ہو تو اقتدار میں رہ سکتی ہے جس کا مطلب 11 جماعتی اتحاد کے کریا کرم کے علاوہ کچھ نہ ہوگا۔ گھوڑا اور میدان سامنے ہے اگر پی ڈی ایم کسی بھی طریقے سے سینیٹ کے انتخابات جیت لیتی ہے کیونکہ ہماری سیاست میں معجزے کارفرما رہتے ہیں اگر حکومت اپنی نااہلی کے باوجود انتخابات جیت جاتی ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنے پیر جما لیے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔