عوام کی بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات

بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ملکی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔


Editorial March 26, 2021
بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ملکی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ فوٹو: فائل

لاہور: میڈیا کی اطلاع کے مطابق آئی ایم ایف بورڈ نے 6 ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام کے تحت پاکستانی معیشت کے چار زیرالتوا جائزوں اور تقریباً 50کروڑ ڈالر کی قسط جاری کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ پیشگی شرائط کے طور پر ان اقدامات میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ، 140ارب روپے کے ٹیکس لگانے اور اسٹیٹ بینک کو خودمختاری دینے پر اتفاق کرنا بھی شامل تھا۔

وفاقی کابینہ نے جمعہ کو ایک آرڈیننس کے نفاذ کی منظوری دی تھی جس کا مقصد صارفین سے 884 ارب روپے وصول کرنے کے لیے اکتوبر سے اب تک بجلی کے نرخوں میں کم از کم 5.65 روپے فی یونٹ اضافے کے لیے قانونی راہ تیار کرنا ہے۔

موجودہ صورتحال میں اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں رہا کہ بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ملکی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے، ملکی معیشت کو پہلے ہی بہت سے چیلنجز درپیش ہیں اور ایسے میں حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات تمام شعبہ ہائے زندگی پر پڑیں گے۔ عام آدمی سمیت صنعت اور زراعت بُری طرح متاثر ہو گی، پاکستان کی برآمدت کا ہدف پورا کرنا مشکل ہو گا، مہنگائی، غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہو گا ۔

آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی کڑی شرائط پوری کرتے کرتے ملکی صنعت اور عوام کا جینا مشکل ہوچلا ہے۔اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ مہنگائی کے حالیہ اعداد و شمار متغیر ہیں اور ماہ فروری سے اس میں تیزی سے اضافہ ہوا جس کی بڑی وجوہات بجلی کے نرخوں میں اضافہ اور چینی و گندم کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں۔

بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ آیندہ مہینوں کے دوران عمومی مہنگائی کے اعداد و شمار میں ظاہر ہوتا رہے گا جس سے رواں مالی سال میں اوسط مہنگائی 7 سے 9 فیصد رہے گی۔ حکومت پاکستان بھاشا ڈیم سمیت کئی اور چھوٹے ڈیموں پر تو کام کر رہی ہے لیکن کالا باغ ڈیم جیسے قابل عمل مگر مفید منصوبے کو سیاسی گورکھ دھندے سے نکالنے کے لیے رتی بھر بھی کوششیں نہیں کر رہی ہے۔

سندھ طاس معاہدے کے اس اہم منصوبے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی سفارش 1960ء میں ورلڈ بینک نے بھی کی تھی لیکن 56 سال کا طویل عرصہ ہم نے سیاست کی نذر کر دیا اور سالانہ تقریباً 4000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے اس اہم منصوبے کے فوائد سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ آبی ماہرین کئی بار پانی سے بجلی پیدا کرنے کے اس سستے ترین منصوبے کو پورے ملک کے لیے نہایت کار آمد قرار دے چکے ہیں لیکن قومی مفاد کا یہ منصوبہ گروہی اور سیاسی مفادات کی زد میں آچکا ہے۔

ہم نے اگر پانی جیسی نعمت سے بروقت فائدہ اٹھایا ہوتا تو آج وطن عزیز میں ہر طرف اجالا ہی اجالا ہوتا۔ ہماری صنعتوں کا پہیہ پوری رفتار سے گھومتا اور ہماری برآمدات میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہوتا، سب سے بڑھ کر ملکی معیشت مضبوط ہونے کی وجہ سے آج ہمارا شمار بھی خوشحال ممالک میں سے ہوتا لیکن افسوس ذاتی مفادات، صوبائی تعصب اور باہمی منافرت نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ آج ہم دنیا کی مہنگی ترین بجلی پیدا کرنے پر مجبور ہیں، ملکی معیشت قرضوں کے بوجھ تلے دب چکی ہے ، ایسے میں حکومتی معاشی ماہرین ایسے فیصلے کررہے ہیں جس سے عام آدمی براہ راست متاثر ہورہا ہے۔

حکومت کے اس فیصلے سے عوام کے لیے بجلی کے بل ادا کرنا تقریبا ناممکن ہوجائے گا، انتہائی مہنگے نرخ عام صارف کو مجبور کریں گے کہ وہ بھی بجلی چوری کرے ، بجلی چوری کے راستے اور طریقے محکمہ بجلی کے اہلکار خود بتا دیتے ہیں ، یعنی کرپشن کا ایک راستہ نچلی سطح تک بھی کھل جائے گا۔ سادہ سی بات ہے کہ اگر بجلی کے نرخ کم رکھے جائیں تو زیادہ بجلی کے استعمال سے حکومت کو زیادہ آمدنی حاصل ہوگی ، لیکن یہاںتو حکومت کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے ۔

ہمارا ہمسایہ بھارت تو اپنے ہر علاقے بلکہ ہمارے ہی پانیوں پر سیکڑوں ڈیم بنا چکا ہے لیکن ہم کفران نعمت کے مرتکب ہوتے ہوئے اس پانی کو توانائی کے لیے استعمال کیے بغیر مسلسل سمندر میں گرا رہے ہیں جس کے نتیجے میں وطن عزیز تاریکی کے اندھیروں میں ڈوبا رہا ہے ۔زرعی ملک ہونے کی وجہ سے ہمیں اپنی زراعت کے لیے وافر پانی کی بھی ضرورت ہے۔ زرعی مقاصد کے لیے ٹیوب ویل چلانے میں بھی بجلی درکار ہوتی ہے، دوسری طرف ڈیزل مہنگا ہونے کی وجہ سے اس سے ٹیوب ویل نہیں چلایا جا سکتا کیونکہ اس کے فی گھنٹہ چلانے کے اخراجات کسان کے بس سے باہر ہیں۔

ویسے تو سال 2020 پوری دنیا ہی کے لیے کسی عذاب سے کم ثابت نہیں ہوا، لیکن بالخصوص پاکستانی نوجوان تو ہر اعتبار سے ابتری کے شکار نظر آئے۔ ہماری ملکی آبادی کا 63 فی صد نسلِ نو پر مشتمل ہے۔ اس لیے نسلِ نو کی طاقت کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان بھی یہ بات تسلیم کر چکے ہیں کہ بس اسی حال میں جینا پڑے گا کہ سالِ رفتہ تو گزشتہ برسوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی کٹھن ثابت ہوا۔ درحقیقت بے رزوگاری، مفلسی ، بھوک اور بیماری کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے، ایک بے رزوگار نوجوان ، خاندان کے تمام افراد کی بدحالی اور پریشانی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔

دوسری جانب بے روزگاری اور غریبی کی وجہ سے طرح طرح کی اخلاقی اور سماجی برائیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ بے روزگاری کے انفرادی اور سماجی نقصانات کے علاوہ سب سے بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ بے روزگاری کااثر ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہے ، دنیا کی نظر میں وہ ملک پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے جو اپنے باشندوں کی ایک بڑی تعداد کو نوکریاں بھی فراہم نہیں کرسکتا ، تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بیروزگاری کا مطلب ہے کہ ملک کے تعلیمی منصوبوں سے جو ملک کو ترقی اور فائدہ ہونا چاہیے تھا وہ سب بے کار اور ضایع ہورہا ہے ۔

عالمی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں دنیا کی نویں بڑی لیبر فورس ہے،جو ہر سال بڑھتی جارہی ہے۔مالی سال 2019-2020میں بے روز گار افراد کی تعداد 58 لاکھ تھی، جب کہ 2020-21 میںیہ تعداد66لاکھ 50ہزار تک بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ رپورٹس کے مطابق گزشتہ برس مُلک میں ملازمت پیشہ افراد کی تعدادقریباً 6کروڑ 92 لاکھ رہی۔ پاکستان میں تعلیم یافتہ بے روزگار افراد کی تعداد میں بھی خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا۔

ڈگری ہولڈرنوجوانوں میں شرحِ بے روزگاری مجموعی طور پر بے روزگار افراد کے مقابلے میں قریباً 3گنا زیادہ رہی اور اس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ جامعات میں پڑھائے جانے والے مضامین اورمُلک کی معاشی ضروریات کے مابین ہم آہنگی نہیں ہے، چونکہ پاکستان میں پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت کے شعبوں میں بہت کم داخلے ہوتے ہیں، تونوجوانوں میں روزگار سے متعلق صلاحیتوں کے اس فرق کے نمایاں اثرات سامنے آرہے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے تعلیم اور روزگار کے مابین ایک متحرک رشتہ استوار کیا جائے۔

اقتدار میں آنے سے قبل تو ہر سیاسی جماعت کا موقف ہوتا ہے کہ روزگار فراہم کرناریاست کے ذمے داری ہے، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد یہ سب کچھ بھلا دیا جاتاہے۔ اب موجودہ حکومت بھی یہ کہتی نظر آتی ہے کہ ''روزگار حکومت کی نہیں،نجی شعبے کی ذمے داری ہے،کورونا کے باعث لاک ڈاؤن کے دوران تعلیمی ادارے بند کرنا اپنی جگہ پر حکومت کی انتظامی مجبوری تو ہو سکتی ہے، لیکن یہ ضمانت کون دے گا کہ وہ کروڑوں پاکستانی بچے اور نوجوان جو گھر بیٹھے ہیں۔

ان کا کوئی تعلیمی نقصان نہیں ہو گا؟ تقریبا ایک تہائی پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کی سہولت ہی میسر نہیں، تو پھر وہ آن لائن تعلیم کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ ملک میں موبائل فون استعمال کرنے والے شہریوں میں سے چالیس فیصد کی مشکل یہ ہے کہ وہ اپنے اسمارٹ فون میں دی گئی ایپس کو پوری طرح استعمال کرنا جانتے ہی نہیں۔ان حالات میں یہ خدشہ بھی بالکل بجا ہے کہ اگر یہی صورت حال رہی، تو بچے امتحانات میں کس طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔ اگر پاس ہو گئے تو کس طرح کی علمی قابلیت کے ساتھ؟ اگر اگلی جماعت میں ترقی بغیر امتحانات کے خود بخود ہی ہو گئی، تو یہ بچوں کی تعلیمی قابلیت پر سمجھوتہ کرنے والی بات ہو گی۔ ملک میں تعلیم وصحت کے شعبوں کی حالت زار کا سب کو علم ہے ، حکومت تمام تر دعوؤں کے باوجود صحت کے شعبے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی سکی ہے۔

بجلی کے نرخوں میںمزید اضافے سے عام آدمی کے لیے گھریلو بل ادا کرناناممکن ہوجائے گا، اور صنعتوں کی پیداواری لاگت بہت زیادہ بڑھ جائے گی ۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں ان کا تیار شدہ مال فروخت ہونا دشوار ہو جائے گا۔ پہلے ہی بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ اور اونچے ترین ٹیرف کی وجہ سے کئی صنعتی یونٹ بند ہو چکے ہیں،اور لاکھوں لوگ بیروزگار ہوچکے ہیں ۔ حکومت بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرکے ریونیو حاصل کا طریقہ اختیار نہ کرے بلکہ ایسے متبادل تلاش کرے ، جن سے ریونیو کا ہدف حاصل کیا جاسکے۔

مقبول خبریں