حکیم محمد سعید…خدمت خلق کا روشن آفتاب

کراچی میں اعوان لاج کے ایک چھوٹے سے کمرے میں انہوں نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا


احمد ندیم قاسمی January 11, 2014
حکیم محمد سعید سو کے قریب اردو کتابوں کے اور تیس کے قریب انگریزی کتابوں کے مصنف اور مرتب تھے۔ فوٹو : فائل

حکیم صاحب صرف ایک شخص، صرف ایک ذات، صرف ایک فرد تھے، مگر مشکل یہ ہے کہ ان کی صرف ایک دو یا دس سرگرمیوں کا ذکر کیجئے تو ان کی بیسیوں دوسری سرگرمیاں تشنۂ توجہ رہ جاتی ہیں اور یوں ایک فرد کے پھیلاؤ کو سمیٹنا کم سے کم میرے لیے نہایت درجہ دشوار ہے۔

چناں چہ بڑی دشواری یہ بھی ہے کہ معاشرے کی بہبود اور عالم انسانیت کی فلاح کے چیلنج تو تاریخ انسانی میں بے شمار اصحاب نے قبول کیے ہیں، مگر ان سب کی فلاحی جدوجہد کسی ایک شعبے میں محدود ہوتی ہے، مثلاً اگر کوئی شخص اپنے آپ کو کوڑھیوں کے علاج اور دیکھ بھال کے لیے وقف کردیتا ہے تو یہ انتہائی نیک کام ہے اور اس ضمن میں اس شخص کی بھر پور تحسین ہونی چاہیے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی جدوجہد ایک دائرے میں محدود ہے، مگر جو شخص ایک اعلیٰ پائے کا تجربہ کار معالج ہونے کے ساتھ ہی علم و حکمت، تہذیب و ثقافت، تعلیم و تربیت اور کردار و اخلاق کے شعبوں کو بھی اپنی سرگرمیوں میں شامل کرتا ہو اور ان شعبوں کی فلاح کی انتہا کردیتا ہو، مگر ساتھ ہی طبابت کا سلسلہ بھی باقاعدگی سے جاری رکھتا ہو اور جو کروڑوں اربوں روپے کمانے کے باوجود نہایت درجہ سادہ زندگی گزارتا ہو اور جو بچوں کے لیے لکھی ہوئی ڈائری میں خود بتاتا ہو ''میں اپنی شیروانی اور کرتا پاجامہ خود ہی دھو لیتا ہوں۔ اپنا بنیان اور اپنے موزے خود دھو ڈالتا ہوں۔

صبح میں اپنا غسل خانہ روزانہ خود صاف کرتا ہوں اور ہر چیز چمکا کر آئینہ بنادیتا ہوں۔'' تو ایسا شخص ایک فرد کہاں ہوا، وہ تو اپنی ذات میں ایک ادارہ تھا اور ایک وسیع اور بھر پور ادارے کے خدوخال کو چند سطور میں بیان کرنے کے لیے دانش و حکمت کی وہ قوتیں درکار ہوتی ہیں جو میرے خیال کے مطابق مجھ میں کما حقہ' موجود نہیں ہیں۔ محترم حکیم صاحب کی تاریخ پیدائش 9 جنوری 1920ء ہے۔ چناں چہ جب آزاد پاکستان وجود میں آیا تو وہ ستائیس سال کے ایک ایسے نوجوان تھے جنہیں ہر طرح کی آسائش میسر تھی اور دولت و ثروت ان کے گھر کی باندیاں تھیں، مگر مشکل یہ تھی کہ پاکستان سے محبت ان کے جسم میں خون کی طرح رواں تھی۔ چناں چہ وہ سب دولتیں اور آسائشیں تج کر پاکستان آگئے۔

کراچی میں اعوان لاج کے ایک چھوٹے سے کمرے میں انہوں نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا (چلتے چلتے مجھے اس امر پر خوش ہولینے دیجئے کہ میں اعوان ہوں اور محترم حکیم صاحب کا آغاز کار اعوان لاج سے وابستہ ہے) پھر آرام باغ روڈ کے ایک کمرے میں انہوں نے ہمدرد مطب قائم کیا۔ کمرا بھی کرائے کا تھا اور اس کا فرنیچر بھی کرائے کا تھا اور یاد رہے کہ یہ اسی شخص کی اقامت گاہ تھی جو دہلی میں امارات کی اونچی مسند چھوڑ آیا تھا۔ یہ 1948ء کا واقعہ ہے اور پھر یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ یہ مطب اگرچہ ایک فرد واحد کی ملکیت تھا، مگر اس عجیب وغریب فرد واحد نے چار پانچ سال بعد ہی 1953ء میں مطب کو ''وقف'' قرار دے دیا اور یوں اپنا سب کچھ قوم کے سپرد کردیا۔ تب سے اب تک کی داستان بہت طویل ہے، مگر یہ ایک ایسی داستان ہے جس کی گزشتہ چند صدیوں کی تاریخ میں نظیر پیش کرنا مشکل ہے۔

وہ ہمدرد فاؤنڈیشن کے صدر تھے۔ ہمدرد یونیورسٹی کے بانی چانسلر اور ہمدرد لیبارٹریز کے بانی صدر نشین تھے۔ سو کے قریب اردو کتابوں کے اور تیس کے قریب انگریزی کتابوں کے مصنف اور مرتب تھے۔ ان کی ذاتی لائبریری پچاس ہزار کتابوں پر مشتمل تھی اور انہوں نے اپنی یہ لائبریری بھی ہمدرد یونیورسٹی کے حوالے کردی تھی۔ اس لائبریری کے لیے اب تک نوے لاکھ روپے کی کتابیں خریدی جاچکی ہیں۔ انہوں نے مدینتہ الحکمہ کے نام سے تہذیب و ثقافت اور علم و فن کا پورا شہر بسا دیا اور اس مفروضے کی عملاً تنسیخ کردی کہ:

بستی بسانا کھیل نہیں، بستے بستے بستی ہے

انہوں نے تو بستی بسانا اِدھر طے کیا، اُدھر یہ بستی زمین کے سینے میں سے کھمبیوں کی طرح آگ آئی۔ اس مدینتہ الحکمہ میں ہمدرد پبلک سکول ہے، جس میں بیک وقت تین ہزار بچے تعلیم پاتے ہیں۔ دو ہزار بچوں کے لیے یتیم خانہ الفرقان ہے۔ دس ہزار طلبہ پر مشتمل یونیورسی ہے۔ ہمدرد میڈیکل کمپلیکس ہے، ہمدرد انسٹیٹیوٹ ہے، جس میں پودوں اور جڑی بوٹیوں کے خواص کی تحقیق کا کام جاری رہتا ہے۔ سائنس میوزیم ہے، بچوں کا پلے لینڈ ہے، یوتھ سینٹر ہے اور ہمدرد طبیہ کالج ہے۔ ہر قوم کے محققین کی سہولت کے لیے آرام دہ رہائش گاہیں تعمیر ہوچکی ہیں اور یہ سب ادارے رنگ، نسل اور نظریے و عقیدے سے ماورا عالم انسانیت کے لیے وقف ہیں۔

مقبول خبریں