کورونا کی صورتحال تشویشناک۔۔۔ پاک فوج کو بلانا معاملے کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے !!

فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

کورونا وائرس ملک میں تشویشناک حد تک پھیل چکا ہے اور اس وباء سے شرح اموات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے حکومت سخت فیصلے لے رہی ہے اور بار بار ایس او پیز پر عمل کرنے پر زور دے رہی ہے۔ کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال پر ماہرین کی رائے جاننے کیلئے ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر رانا صفدر

(ڈائریکٹر جنرل وزارت قومی صحت)

کورونا وائرس کی حالیہ لہر میں شدت کے بعد کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی بنا نا انتہائی ناگزیر ہے ۔ کرونا کے پھیلاؤ کو روکنا بڑے پیمانے پر عوام کے ہاتھ میں ہے، کوئی اور ایسا نہیں کرسکتا۔ ہر پاکستانی کو انفرادی اور معاشرتی سطح پر مکمل ذمہ داری کا احساس دکھانا ہوگا تاکہ قوم کو اس تشویشناک صورتحال سے بچایا جاسکے جو اس وقت بھارت کو درپیش ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے صورتحال بہت سنجیدہ ہے، پاک فوج کو بلانے کا اقدام بھی معاملے کی سنجیدگی کے پیش نظر کیا گیا ہے۔کورونا وائرس کی وجہ سے ہیلتھ سسٹم شدید دباؤ کا شکار ہے۔

ہسپتالوں میں 90 فیصد تک بیڈز اور وینٹی لیٹرز زیراستعمال ہیں۔ صورتحال مزید خراب ہوئی تولاک ڈاؤن جیسے سخت اقدامات بھی اٹھانا پڑسکتے ہیں ۔ ایسی پابندیاں لگا کر صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جائے گی۔اس وائرس سے بچاؤکاواحد حل احتیاطی تدابیر پرعمل کرنے میں  ہے۔

شہری ماسک کے استعمال کو یقینی بنائیں۔ اس کے علاوہ صفائی سے متعلق سادہ سی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا بہت زیادہ سودمند ہے۔چھینک آنے پر منہ ڈھانپنا، ہاتھ دھونا اور ہاتھ دھونے سے پہلے منہ پر نہ لگانا جیسی احتیاطی تدابیر سانس کے ذریعے وائرس کی منتقلی روکنے میں مددگار ہو سکتی ہیں۔ کورونا وائرس سے بچنے کے لئے ضروری حفاظتی اقدامات کو یقینی بنایاجائے۔اس ضمن میں متواتر ہاتھوں کو گرم پانی اور صابن سے باقاعدگی سے دھویا جائے۔جتنا بھی ممکن ہو اپنی آنکھوں اور ناک کو چھونے سے گریز کریں۔صحت مند انداز زندگی اپنائیں۔ کوروناوائرس سے بچاؤکے لئے ویکسی نیشن لازمی کرائی جائے۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

(چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل)

کورونا کی وباء دنیا کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔ اس کا واحد حل احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے میں ہے لہٰذا پوری انسانیت نے مل کر ہی خود کو اس وباء سے محفوظ کرنا ہے۔ کوروناکی تیسری لہر انتہائی خطرناک ہے لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ علماء اکرام اور اسلامی نظریاتی کونسل کی مشاورت کے ساتھ مل کر وہی ایس او پیز لاگو کرے اور وہی اقدامات اٹھائے جو کورونا وبا کی پہلی لہر کے دوران اٹھائے گئے تھے۔

اس وقت علماء کرام نے اس بات کی اجازت دی تھی کہ کورونا کی خطرناک صورتحال میں لوگ گھر پر رہ کر عبادت کریں، مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کی اجازت بھی نہ دی جائے بلکہ لوگ مذہبی اجتماعات میں جانے سے گریز کریں۔ اگر حکومت کی طرف سے ان پر پابندی لگائی جائے تو اس پر عمل کرنا شرعی طور پر لازم ہے۔

حکومت وقت نے گزشتہ سال رمضان المبارک میں مساجد بند نہیں کیں، مساجد میں ایس او پیز پر عمل ہوا اور وائرس اتنا نہیں پھیلا جتنا خطے کے دیگر ممالک متاثر ہوئے۔ مسجد کی تالا بندی اور بندش کا تصور نہیں کیا جانا چاہیے لیکن نمازیوں کی تعداد محدود کرنے پر حکومتی اقدامات کی تعمیل کی جائے۔ حکومت ایس او پیز پر عملدرآمد کے حوالے سے علماء کرام اور آئمہ حضرات سے تعاون حاصل کرے۔اسلامی نظریاتی کونسل نے یہ رائے بھی دی تھی کہ نماز کے اوقات اور جمعہ کا خطبہ بھی محدود کیا جائے۔ ایسے مذہبی معاملات جو فرض نہیں ہیں، اس طرح کی وبائی صورتحال میں انہیں پورا کرنے پر اصرار درست نہیں ہے۔

نماز جنازہ ایک فرض کفایہ ہے، اگر نماز جنازہ کے اجتماع سے وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ ہے تو مختصر افراد نماز جنازہ میں شرکت کریں۔ گزشتہ رمضان المبارک میں کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران کونسل نے رائے دی تھی کہ مصیبت کے وقت میں مالی طور پر کمزور افراد، بے روزگار اور اقلیتی برادری کو بطور خاص یاد رکھا جائے اور صاحبِ استطاعت افراد سے درخواست کی کہ وہ عمرہ، زیارات یا دیگر مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے مختص رقم کو کورونا وائرس سے معاشی دباؤ کا شکار افراد کے لیے عطیہ کریں۔

اس کے علاوہ کونسل نے عوام سے درخواست کی کہ وہ کورونا وائرس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے متاثر ہونے والے تمام شہریوں کی معاشی کفالت کے لیے مذہبی و علاقائی امتیاز سے بالاتر ہو کر اقدامات کریں۔ علماء اکرام پر زور دیا جائے کہ وہ مساجد کے اندر ایس او پیز کا اہتمام کرائیں جیسا کہ مسجد کے اندر نمازیوں میں فاصلہ رکھیں، نمازی وضو گھر سے کر کے جائیں، اپنی اپنی جائے نماز ساتھ لے کر جائیں جبکہ بزرگ شہری مسجد میں آنے سے اجتناب کریں۔

اس کے علاوہ مسجد کے فرش کی روزانہ دن میں دو سے تین بار دھلائی کی جائے اور مسجد کے صحن میں نماز میں ادا کی جائے۔ یہاں ایک بات انتہائی اہم ہے کہ کورونا کے حوالے سے احتیاطی تدابیر اپنانا ضروری ہیں لیکن اس میں خوف یاڈر کا ماحول نہ بنایاجائے بلکہ شہریوں کو اس کی سنگینی کے حوالے سے آگاہی دی جائے، اس کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں۔

پروفیسر ڈاکٹر تنویر خالق

( وائس چانسلر شہیدذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی اسلام آباد)

پاکستان سمیت پوری دنیا اس وقت کورونا کی لپیٹ میں ہے۔ خاص طور پر کورونا کی تیسری لہر نے دنیا بھر میں تباہی مچا رکھی ہے۔ اگرچہ دنیا کے کئی بڑے اور ترقیاتی ممالک کے مقابلے میں پاکستانی کورونا سے کم متاثر ہیں لیکن اس کے باوجود یہاں اب تک 8 لاکھ سے زائد افراد اس وباء سے متاثر ہوچکے ہیں جن میں سے 17 ہزار سے زائد اموات ہوئی ہیں۔ کورونا وباء سے جہاں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا ہے وہیں اس نے ملکی معیشت کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے، ملک میں سماجی سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں اور بے روزگاری بڑھ چکی ہے۔

اگرچہ حکومت نے ان مشکلات سے نمٹنے کیلئے کافی اقدامات کیے ہیں لیکن اس کے باوجود کئی شعبوں میںشدید مشکلات کا سامنا ہے۔کورونا وائرس ایک ایسی وباء ہے جس سے کوئی محفوظ نہیں، اس وباء سے بڑوں کے ساتھ بچے اور خواتین کو بھی بری طرح متاثر ہیں۔ محض اسلام آباد کے اندر تقریباََ 8 ہزار بچوں میں کورونا وائرس کی تصدیق کی جاچکی ہے۔

کورونا وائرس سے جہاں عام لوگ متاثر ہیں وہیں اس وباء سے مریضوں کے علاج پر مامور فرنٹ لائن پر لڑنے والے ڈاکٹرز، نرسز و پیرا میڈیکل سٹاف کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ ملک میں کوروناسے متاثرہیلتھ کیئرورکرزکی مجموعی تعداد تقریباََ16 ہزار تک جاپہنچی ہے۔ کورونا سے متاثرہ ہیلتھ کیئر ورکرز میں سے مجموعی طور پر 150سے زائد ہیلتھ کیئرورکرزجبکہ 100 کے قریب ڈاکٹرزبھی جاں بحق ہوچکے ہیں۔

کورونا کی تیسری لہر کے دوران کیسز کی تعداد میں تیزی آنے سے ہسپتالوں پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے جس کی وجہ سے بیڈز ، آکسیجن ، وینٹی لیٹرز و دیگر سہولیات کم پڑ رہی ہیں۔ کورونا مریضوں کے دباؤ کی وجہ سے ہسپتالوں میں معمول کے کام منسوخ کئے جارہے ہیں جن سے عام مریضوں کو بھی مشکلات پیش آرہی ہیں۔پاکستان میں کورونا کے خلاف ویکسین لگانے کی پہلی مہم کے دوران ہیلتھ کیئر ورکرز کو ویکسین لگائی گئی، دوسرے مرحلے میں60برس سے زائد عمر کے شہریوں کی ویکسی نیشن کا آغاز ہوا۔ یہ خوش آئند ہے کہ اب  کامیابی کے ساتھ کورونا کے خلاف ویکسی نیشن کا تیسرا مرحلہ شروع ہوچکا ہے جس میں50 سے 59برس کے شہریوں کو ویکسین لگائی جارہی ہے۔

ویکسی نیشن کے عمل کو کامیابی سے آگے بڑھانے کیلئے ملک بھر میں ’’ایڈلٹ ویکسی نیشن‘‘ مراکز قائم کیے جا چکے ہیں جن میں ویکسی نیشن کا عمل ڈیجیٹل میکنزم سے کنٹرول کیا جارہا ہے۔ ویکسی نیشن کے لیے پنجاب میں 189، سندھ میں 14 ، خیبر پختونخوا میں 280، بلوچستان میں 44 ، اسلام آباد میں 15، آزاد کشمیر میں 25 اور گلگت بلتستان میں16 مراکز قائم کئے گئے ہیں۔کورونا سے خود کو اور دوسروں کو محفوظ رکھنے کیلئے ہمیں ہاتھوں کو بار بار دھونا، ماسک کا استعمال اور سماجی فاصلوں کو اپنانا ہوگا، صفائی کا خاص خیال رکھیں، متوازن غذا استعمال کریں، بیمار افراد سے سماجی فاصلہ اختیار کریں، کورونا علامات آنے کی صورت میں خود کو قرنطینہ کریں اور کورونا سے بچاو کی ویکسین لازمی لگوائیں۔

دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو متاثر کرنے والے کورونا وائرس کی تین بڑی علامات ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی بھی علامت ظاہر ہوتی ہے تو لازمی ٹیسٹ کرانا چاہیے۔ ان علامات میں مسلسل کھانسی، 37.8 سینٹی گریڈ یا 100 فارن ہائٹ کا بخار اور سونگھنے اور چکھنے کی حِس ختم ہونا یا پہلے سے مختلف ہو جانا شامل ہیں۔اگر کسی بھی شخص میں ان میں سے کوئی بھی علامت ظاہر ہوتی ہے تو جلد از جلد ٹیسٹ کروائیں اور کسی بھی وجہ سے گھر سے نہ نکلیں۔

عموماً کورونا انفیکشن لگنے سے لے کر علامات ظاہر ہونے تک اوسطاً کم از کم پانچ دن سے 14 دن تک لگ سکتے ہیں۔اگر ٹیسٹ مثبت آیا ہے تو گھر میں موجود تمام افراد سے خود کو 10 سے 14 روزتک الگ کریں اور تمام گھر والوں کا ٹیسٹ بھی کرائیں۔ دنیا بھر میں تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا سے متاثر افراد میں مزید کئی علامات کی نشاندہی ہوئی جس میں سر درد ، سونگھنے کی حس کا خاتمہ، پٹھوں میں درد ، کھانسی، گلے میں تکلیف، سینے میں درد ، بخار، آواز کا بیٹھ جانا ، بھوک ختم ہو جانا، معدے کی تکلیف، تھکاوٹ، گھبراہٹ، پٹھوں میں درد،سانس اکھڑنا ، اسہال، پیٹ میں درد کی علامات شامل ہیں۔بیشترافراد میں ہلکی علامات ہوتی ہیں جن کا علاج درد کش ادویات سے ہوجاتا ہے۔جب انہیں سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے تو ایسی صورت میں آکسیجن دی جاتی ہے۔

بہت زیادہ بیمار افراد کو وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑتی ہے جہاں مریض کے پھیپھڑوں میں ہوا کو داخل کیا جاتا ہے۔بزرگ افراد یا ایسے لوگ جو پہلے سے طبی مسائل کا شکار ہوتے ہیں جیسا کہ دمہ، ذیابیطس ، دل کے امراض وغیرہ ، کے شدید بیمار پڑنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ کورونا سے خود کو یا دوسروں کو محفوظ رکھنے کا سب سے اہم طریقہ یہ ہے کہ آپ باقاعدگی سے ہاتھ دھوئیں، بہتر ہے کہ صابن اور پانی استعمال کریں۔ماسک کا استعمال کریں اور بیمار افراد سے سماجی فاصلہ رکھیں۔ کورونا وائرس اس وقت پھیلتا ہے جب انفیکشن کا شکار افراد کھانستے یا چھینکتے ہیں تو ان پانی کے قطروں کے ذریعے وائرس ہوا میں پھیل جاتا ہے، پھر اس ہوا میں جب کوئی دوسرا شخص سانس لیتا یا اس جگہ کو چھوتا ہے ہیں جہاں یہ قطرے گرتے ہیں تو یہ وائرس اس شخص کو منتقل ہوجاتا ہے اور جب وہ ہاتھ اپنے منہ، ناک یا آنکھوں کو لگاتا ہے تو یہ وائرس جسم میں داخل ہوجاتا ہے لہٰذا کھانستے اور چھینکتے ہوئے منہ کو رومال سے ڈھانپ لینا چاہیے۔

ہاتھ دھوئے بغیر چہرے و آنکھوں کو مت چھوئیں اور متاثرہ افراد سے قریبی رابطے سے گریز کریں۔ اپنے ہاتھ دھو کر یا الکوحل پر مبنی جراثیم کش محلول کا استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو اور دوسروں کو انفیکشن سے محفوظ رکھیں۔ بند اور ہجوم والی جگہوں پر ماسک استعمال لازمی کریں اور مناسب فاصلہ رکھیں۔ ایک فرد کی حیثیت سے، آپ دوسرے لوگوں کے ساتھ اپنے رابطے کی شرح کو کم کرکے انفیکشن کے خطرے کو کم کرسکتے ہیں۔

اس عالمی وبا کی وجہ سے دنیا بھر کے طبی محققین ویکسین کی تحقیق اور ترقی میں تیزی سے حصہ لے رہے ہیں۔شہید ذولفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی ،اسلام آباد کی پہلی پبلک سیکٹر یونیورسٹی ہے جوڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان کی منظوری سے کوویڈ19 ویکسین کے تیسرے مرحلے کے کلینکل ٹرائلز کے لئے ٹرائل سائیٹ نامزد ہوچکی ہے۔جس کے بعد چین کی اکیڈمی آف سائنسز کے انسٹی ٹیوٹ آف مائیکرو بیالوجی اور چینی فارماسیوٹیکل کمپنی کی تیار کردہ پروٹین ویکسین زیڈ ایف2001کی کلینکل ٹرائل کا تیسرا مرحلہ پاکستان میں شروع ہوچکا ہے جبکہ لاہور، کراچی و فیصل آباد میں بھی ٹرائلز ہوں گے۔شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی اسلام آباد ویکسین کے کلینکل ٹرائلز کیلئے 1 سے2 ہزار رضاروں کی خدمات حاصل کرے گی۔

اب تک 50 کے قریب رضا کار ٹرائل کا حصہ بن چکے ہیں۔ رضا کاروں کو 16 ہزار روپے اعزازیہ دیا جائے گا، تمام رضاکاروں کی انشورنس کی جائے گی اور سائیڈ افیکٹ کی صورت میں علاج کیلئے کمپنی 30 لاکھ تک کاخرچہ برداشت کرے گی اور تمام رضا کاروں کے مفت ویکسین و پی سی آر سمیت اینٹی باڈیز ٹیسٹ کیے جائیں گے۔ ٹرائلز کا عمل 3 ماہ تک چلے گا تاہم ٹرائلز میں حصہ لینے والے رضا کاروں کو 6 ماہ تک فالو کیا جائے گا۔

یہ ویکسین حلال ہے اور روزوں میں بھی لگوائی جا سکتی ہے۔ زیڈ ایف2001 ویکسین ایک پروٹین ویکسین ہے اور اس ویکسین کو تیز ترین و موثر ویکسین سمجھا جاتا ہے۔اس ویکسین کے 3 ڈوز لگیں گی اور ہر ڈوز 1 ماہ بعد لگائی جائیگی ۔ اس ویکسین کی کووڈ 19 کے خلاف موثریت کی شرح 92 سے 97فیصد ریکارڈ کی گئی ہے اور اسے کورونا سے متاثرہ سانس کی شکایات کے خلاف موثر ترین سمجھا جارہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔