مردوں کے بدمعاشی کے اڈے

ہمارا ایک ٹی وی چینل پولیس کی نشاندہی پر فحاشی کے ایک اڈے پر گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے سے حملہ آور ہے، وہ تو...


Abdul Qadir Hassan January 14, 2014
[email protected]

KARACHI: ہمارا ایک ٹی وی چینل پولیس کی نشاندہی پر فحاشی کے ایک اڈے پر گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے سے حملہ آور ہے، وہ تو بجلی بند ہو گئی ورنہ میں بتاتا کہ وہ کب تک اس سماجی برائی کے خلاف جہاد میں مصروف رہا۔ ہمارے اخباروں میں اکثر ایسی خبریں چھپتی ہیں کہ پولیس نے فلاں جگہ فحاشی کے اڈے پر چھاپہ مارا اور وہاں سے اتنی عورتیں اور اتنے مرد فحاشی میں مصروف پکڑے گئے لیکن اب جب ٹی وی کا زمانہ آیا ہے تو ان اڈوں اور یہاں فحاشی میں مصروف لڑکیوں اور مردوں کو دکھایا جاتا ہے۔ عورتیں پردے میں ہوتی ہیں اور مرد اپنی جرات کے نشے میں کھلے منہ سامنے آتے ہیں۔ ان اڈوں کو آباد کرنے والی عورتوں کو تو چھوڑیں وہ گھروں میں ہوں یا اڈوں پر بازار میں ہوں یا کسی حویلی میں کسی نہ کسی صورت میں وہ مردوں کی ہوس کا نشانہ بنتی ہی رہتی ہیں۔ اصل بات مردوں کی ہے جو کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں محض تفریح اور ہوس کی وجہ سے ان اڈوں پر آتے جاتے ہیں اور جب کبھی کسی اڈے والے یا والی کا پولیس کے ساتھ لین دین کھٹائی میں پڑ جاتا ہے تو پھر چھاپہ پڑتا ہے اور گرفتاریاں ہوتی ہیں۔ کسی بھی تھانیدار کو اپنے علاقے میں کسی ایسے اڈے کا سو فی صد علم ہوتا ہے۔ کہیں اجنبی عورتوں اور مردوں کا آنا جانا ہو تو عام محلے والوں کو بھی اس کا پتہ ہوتا ہے کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔ اگر کسی ہوٹل میں ایسی کوئی محفل جمتی ہے تو پولیس کی مرضی سے بلکہ جن ہوٹلوں میں ایسا کام ہوتا ہے وہ پولیس کی مستقل آسامی ہوتے ہیں۔

مردوں کو تو چھوڑیے کہ انھیں ایسے اڈوں پر آنے کی کوئی ایسی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ مجبور ہوں لیکن اصل سوال ان عورتوں کا ہے جو یہاں اپنی معاشی مجبوری کی وجہ سے آتی ہیں۔ دنیا میں شاید ہی کوئی عورت ہو جو صرف پیسے لے کر خوشی سے مردوں کو خوش کرتی ہو۔ میں نے ایک زمانے میں جب میں فیض صاحب کے جریدے لیل و نہار میں فیچر رائٹر تھا تو پیشہ ور یا فحاشی میں مصروف عورتوں سے انٹرویو کیے تھے۔ یہ اس طرح کی غالباً پہلی اخباری کوشش تھی جس میں چیف ایڈیٹر فیض احمد فیض صاحب اور ایڈیٹر سید سبط حسن کی منظوری ہی نہیں حوصلہ افزائی بھی شامل تھی۔ میں نے کچھ لوگوں کے تعاون سے متعدد ایسی عورتوں سے ملاقاتیں کیں جو ایسے اڈوں پر آتی تھیں۔ یہ انٹرویو لیل و نہار میں چھپا تو اس مقبول عام رسالے کی وجہ سے اس کا بہت چرچا ہوا، اس کا عنوان غلام عباس کے مشہور افسانے ''آنندی'' کے عنوان پر رکھا گیا جس میں بازار حسن سے بے دخل کی جانے والی عورتیں جہاں آباد ہوتی ہیں وہاں ایک اور بازار حسن بن جاتا ہے۔

میں نے جن عورتوں کے انٹرویو کیے وہ سب نوجوان تھیں، سب نے اپنی اپنی کہانی سنائی اور یہ کہانی کے پیچھے کوئی نہ کوئی معاشی مجبوری تھی مثلاً کئی لڑکیوں نے بتایا کہ ان کے گھر والوں نے سود پر رقم لی اور اب اس کی قسطیں ادا کرنے کی کوئی صورت نہیں تھی سوائے اس کے کہ گھر کی نوجوان عورتیں گھر والوں سے بظاہر چھپ کر ان کی مدد کرنے لگیں۔ بعض لڑکیوں نے اپنے کسی بھائی کی تعلیم کے لیے خرچ کرنا تھا یا کسی کا کوئی عزیز یعنی ماں باپ بیمار تھا۔ ان کی یہ کام شروع کرنے کی وجہ کئی مائیں تھیں جنہوں نے گھر کی ضرورتوں کے لیے ان کو اس پیشے میں ڈال دیا۔ میں نے کئی ایک سے کرید کرید کر پوچھا کہ یہ ان کا ایک شوق بھی ہو سکتا ہے جس میں ان کی کوئی مجبوری نہیں اپنی مرضی شامل ہو لیکن کسی نے بھی اس کا اقرار نہ کیا۔ کئی ایک نے جواب دیا کہ وہ اپنے کسی دوست کے ساتھ خوشی سے جا سکتی ہیں لیکن مجبوری کی کوئی بات نہیں ہو سکتی اور دوستی میں تو تحفے تحائف دوطرفہ ہوتے ہیں۔ آج سے کئی برس پہلے جو صورت حال تھی یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ کم و بیش آج بھی وہی ہے۔

البتہ ہمارے معاشرے میں جو بے باکی پیدا ہو چکی ہے اس کی وجہ سے ہو سکتا ہے کوئی عورت پہلے شوقیہ اور پھر اس کی ضرورت بن جائے کیونکہ یہ 'مفت' کی زندگی کسے بری لگتی ہے۔ بہر حال ایک بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ کوئی عورت خوشی سے یہ کام نہیں کرتی، اپنے آپ کو بیچتی نہیں ہے۔ اگر کوئی بیچتی ہے تو اس کا ایک لطیفہ مشہور ہے کہ کسی نے کہا کہ میڈم آپ اتنی رقم لے لیں اور میرے ساتھ چلیں، اس کے جواب میں سخت زبان استعمال کی گئی۔ اس نے قیمت بڑھا کر پھر اپنی پیش کش کو دہرایا تو جوابی لہجہ اتنا سخت نہیں تھا۔ حوصلہ پا کر اس نے مزید رقم کا کہا تو نرمی سے جواب ملا کہ کیا کہہ رہے ہو۔ اس پر اس نے کہا کہ مادام آپ تیار تو ہو گئیں اب رقم کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ یہ ایک کھلے سرمایہ دارانہ معاشرے کا لطیفہ ہے جس میں روپے یا قیمت کچھ بھی ہو سکتی ہے لیکن ہمارے مشرقی معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا۔ عورت کے لیے سب سے بڑی دولت اس کی عزت اور عصمت ہوتی ہے جو اسے خاندان سے ورثے میں ملتی ہے لیکن معاشی مجبوری بھی ایک اٹل حقیقت ہے اور جب یہ لاحق ہوتی ہے تو پھر کوئی خاندانی روایت اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ سر جھکا کر سب کچھ کر لیا جاتا ہے۔

میں جب بھی ایسی خبریں پڑھتا ہوں اور پولیس کو ان عورتوں سے گستاخی کرتے دیکھتا ہوں تو مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے کہ یہ معاشرے کا وہ مظلوم اور مجبور طبقہ ہے جس کے ساتھ حد سے زیادہ نرمی اور ملائمت کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ ان کے اڈوں پر چھاپہ مارنے والی پولیس کے کارکن کیا دیانت و امانت کے پتلے ہوتے ہیں جو ان عورتوں کو مجرم سمجھ کر ان کے ساتھ بے رحمانہ سخت سلوک کرتے ہیں۔ یہ مجبور عورتیں تو خیرات کی اصل مستحق ہیں۔ ایک مسلمان معاشرے میں تو ایسی صورت حال پیدا ہی نہیں ہونی چاہیے کہ کوئی عورت اپنی معاشی ضرورت کے لیے اپنی عصمت فروخت کرے۔ ایک مسلمان عورت کے پاس اس کی عصمت کے سوا اور ہوتا ہی کیا ہے۔ سنٹرل ایشیا کی مسلمان ریاستیں جو روسی آزادانہ ثقافت اور تہذیب کا حصہ بن چکی ہیں وہاں بھی عورت شادی تک اپنی عصمت کی حفاظت ہر قیمت پر کرتی ہے۔ سمرقند میں ٹیکسی ڈرائیور نے کہا کہ مجھے اگر تھوڑی سی چھٹی مل جائے تو میں یہاں قریب ہی ایک شادی بھگتا لوں۔ میں نے کہا ضرور، میں یہاں کہیں چائے پیتا ہوں۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ آیا کہ آپ مہربانی کریں اور شادی میں شریک ہوں، شادی والے بہت خوش ہوں گے، اس شادی والے گھر میں گیا تو صحن میں کرسیاں رکھی تھیں اور مہمان واڈکا پی رہے تھے۔ مجھے ایک اہم جگہ پر بٹھایا گیا اور تعجب ہوا کہ چند لمحوں کے لیے مجھے اندر خواتین کی محفل میں بھی لے جایا گیا جہاں پاکستان کے اس براتی کا پرجوش خیر مقدم کیا گیا۔ تھوڑی دیر بعد باہر برآمدے میں ایک سفید چادر لائی گئی جسکا مقصد براتیوں کو بتانا ہے کہ دلہن پاک و صاف تھی۔ اس سے آپ اندازہ کر لیں کہ عورت کی عصمت کو کس قدر اہم اور قیمتی سمجھا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں پاکستان میں ہم سب کو معلوم ہے کہ کسی لڑکی کا کنوارپن کس قدر اہم اور باعزت ہوتا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی عورت اپنی خوشی اور رضا سے اپنی اس قیمتی چیز سے کیسے محروم ہو سکتی ہے۔ یہ سب ہماری مجبوریاں ہیں جو گھروں کو بے عزت کر رہی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب مہنگائی کا ذکر آتا ہے یا کسی دوسری مجبوری کا تو کہا جاتا ہے کہ اس نے ہمارے گھروں کو بھی بے عزت کر دیا ہے۔ اس معاملے کو ہر پاکستانی سمجھتا ہے کہ اصل میں صورت حال اور اس کے اسباب کیا ہیں ہماری پولیس ہو یا ہم عام شہری ہمیں ان مجبور اور مقہور عورتوں سے ہمدردی بلکہ عزت کا سلوک کرنا چاہیے۔ ہمارا موضوع کوئی پرویز مشرف نہیں یہ مجبور ماں بہنیں ہونا چاہئیں۔ ہمارے اصل مسئلے یہی ہیں جو ہماری اسلامی اور مشرقی روایات کو گندا کر رہے ہیں۔

مقبول خبریں