نئی نسل سوشل میڈیا میں مصروف، خاندانی نظام تباہ

آصف محمود  بدھ 12 مئ 2021
نئی نسل کا مسئلہ پرائیویسی کا ہے، زینب، آن لائن اسٹڈی میں مصروف رہتے ہیں، ازکا مجید۔ فوٹو: فائل

نئی نسل کا مسئلہ پرائیویسی کا ہے، زینب، آن لائن اسٹڈی میں مصروف رہتے ہیں، ازکا مجید۔ فوٹو: فائل

 لاہور:  پاکستان سمیت 15 مئی کو خاندان کا عالمی دن منایا جائے گا لیکن افسوس کی بات ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور معاشرتی تبدیلیوں نے خاندانی نظام کو شدیدمتاثرکیا ہے۔

جدید ٹیکنالوجی اورمعاشرتی تبدیلیوں نے ہمارے خاندانی نظام کو بھی شدیدمتاثرکیا ہے ، سوشل میڈیا کی دنیا نے نوجوان نسل کواپنے بزرگوں اورخاندان سے بھی دور کردیا ہے،نوجوان نسل کاکہنا ہے پڑھائی ،ریسرچ اورسوشل رابطوں کے لئے موبائل اورلیپ ٹاپ پرمصروفیت بڑھ جاتی ہے ،بزرگ کہتے ہیں سماجی تبدیلوں نے انسانوں کے تنہاکردیا ہے،خاندانی نظام میں توڑ پھوڑ کی وجہ سے کئی بزرگ اولڈ ایج ہومزمیں رہنے پر مجبور ہیں۔

عبدالمجید کا تعلق لاہورکے علاقہ گلبرگ سے ہے، کوریڈ کی وجہ سے وہ زیادہ تر وقت گھر میں اپنی بیٹیوں کے ساتھ ہی گزارتے ہیں، ایک ساتھ بیٹھے ہونے کے باوجود بعض اوقات گھرکی نوعمر لڑکیاں موبائل فون اور لیپ ٹاپ پر مصروف رہتے ہیں۔عبدالمجید کی بڑی بیٹی زینب کہتی ہیں ا س میں کوئی شک نہیں کہ نوجوان نسل گھرسے باہرسماجی رابطوں میں رہتے ہیں لیکن ان کے پاس اپنے والدین اورفیملی کے لئے وقت نہیں ہوتا ہے، جدیدٹیکنالوجی اورسماجی تبدیلیوں کے فائدے اورنقصان دونوں ہیں، مشترکہ خاندانی نظام میں نئی نسل کے لئے سب سے بڑامسلہ پرائیویسی کا ہے جس کی وجہ سے وہ الگ رہنازیادہ پسند کرتے ہیں، تاہم یہ ماننا پڑے گا کہ آج ہمارا خاندانی نظام کمزور ہوتا جارہا ہے۔

مقامی یونیورسٹی کی طالبہ ازکہ مجید کہتی ہیں ان دنوں جوکوریڈ کی وجہ سے ہمارے تعلیمی ادارے بھی بند ہیں اورتمام سٹڈی آن لائن ہے تواس وجہ سے مصروف رہتے ہیں ،گھروالے محسوس کرتے ہیں ۔ازکہ کہتی ہیں وہ اپنے بابااورماماکووقت دیتی ہیں ان کے پاؤں دباتی ہیں۔

عبدالمجید نے بتایا کہ ان کا خاندان اکٹھا رہتا تھا، ان کے والد،چچا سب بھائی اکٹھے تھے لیکن پھرجیسے جیسے بچے بڑے ہوتے گئے ہیں الگ الگ رہنا شروع کردیا۔ مشترکہ خاندان میں فائدے اورنقصان دونوں ہیں۔ فائدہ یہ ہے کہ سب اکٹھے رہتے ہیں، ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں شریک ہوتے ہیں، مجموعی اخراجات بھی کم ہوتے ہیں۔ لیکن نقصان یہ ہے کہ اب مشترکہ فیملیزمیں اکثربچوں اور گھرکے چھوٹے موٹے کاموں کی وجہ سے جھگڑے بھی رہتے ہیں۔ ان کی بیٹیاں بےشک اپنے اپنے کام میں مشغول رہتی ہیں لیکن وہ اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ وہ سب اکٹھے کھانا کھاتے ہیں، ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں۔ بچے ان کا اوراپنی ماں کاخیال رکھتے ہیں۔

دوسری طرف خاندانی نظام میں توڑپھوڑاور رشتوں کی بے توقیری کے باعث کئی خاندانوں کے بزرگ اولڈایج ہومزمیں زندگی گزار رہے ہیں،لاہورکے مقامی اولڈایج ہوم میں مقیم مریم کا تعلق لاہور سے ہی ہے اوروہ گزشتہ تین برس سے یہاں مقیم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے بیٹے کوکاروبارمیں نقصان ہواوہ ان کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتاتھا،بیٹی بھی لاہورمیں ہی رہتی ہے اس نے پاس رکھنا گوارہ نہیں کیا،وہ بیٹی جسے اتنے لاڈ سے پال اتھا وہ خود یہاں چھوڑ گئی اور جب سے چھوڑ کر گئی ہے شاید ایک دو بار ہی ملنے ۤآئی ہے۔

مغربی سماج کے مقابلے میں ہمارے یہاں آج بھی خاندان کو معاشرے میں مرکزی کردارحاصل ہے، ایک باشعوراورپڑھالکھا خاندان ہی معاشرے کی تعمیروترقی اورخوشحالی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔