ترقی کے منصوبے

شہلا اعجاز  جمعـء 28 مئ 2021

2018 میں چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے پاکستان میں آبی ذخائر کے حوالے سے ڈیم بنانے کی مہم کے لیے چندہ جمع کرنے کا کام شروع کیا تھا اور لوگوں نے بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیا خاص کر بیرون ملک پاکستانیوں نے نہ صرف دل کھول کر چندہ دیا بلکہ اس کے لیے مختلف مہمات بھی چلائیں اور اندازاً بارہ ارب روپے اکٹھے کیے۔

2019 میں جب ثاقب نثار چلے گئے تو فنڈ کے حوالے سے کئی شکوک و شبہات ابھرے۔ اتنی خطیر رقم کیا ادھر ادھر ہوگئی، حکومت نے نگل لی اور خدا جانے جتنے منہ اتنی باتیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ لوگ پاکستانی قوم کے جذبات اور خلوص سے کھیلتے ہیں اور پھر خرد برد کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور ہر کھیل کے بعد ’’ چلو جی مٹی پاؤ ‘‘ اور آپ اپنے گھر اور ہم اپنے گھر والی کہانی ہوتی ہے لیکن کچھ عرصہ قبل اسی مہم کے حوالے سے ایک خوش آیند خبر تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند آئی۔ یعنی ثاقب نثار کی کوششیں رائیگاں نہیں گئیں بلکہ خیر سے اس پر کام بھی ہو رہا ہے اور عنقریب اس کے پھل کھانے کا موسم بھی آجائے گا۔

پاکستان نے 1967 میں آزاد کشمیر کے ضلع میر پور میں دریائے جہلم پر منگلا ڈیم تعمیر کیا تھا اس کا مقصد دریائے جہلم کے پانی کو بجلی پیدا کرنے اور آبپاشی کے لیے استعمال میں لانا تھا اس وقت تک یہ دنیا کا بارہواں بڑا ڈیم تھا لیکن دریائے جہلم میں منگلا ڈیم میں بھی پانی کی قلت کے باعث بجلی کی پیداوار میں کمی آگئی تھی گو یہ ڈیم ملک کے کئی علاقوں کو زرعی مقاصد کے لیے وافر مقدار میں پانی فراہم کر رہا ہے لیکن پھر بھی بارشوں کے نظام اور ماحول کے باعث پانی کی مقدار کو کسی حد تک برقرار رکھنے میں دشواریاں تھیں جو ملک میں بڑھتی آبادی کے تناسب سے بھی غیر متوازن ہی تھیں۔

دارالحکومت اسلام آباد سے جنوب مشرق میں 160 کلو میٹر پر منگلا ڈیم جب کہ سوکلو میٹر دور شمال مغرب میں تربیلا ڈیم کشمیر سے نکلنے والے دریائے جہلم اور سندھ پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ پاکستان کی پچاس فیصد بجلی دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں سے پیدا ہو رہی تھی، لیکن سیلاب اور خشک سالی کے باعث غیر متوازن صورتحال پیدا ہو جاتی ہے جس سے بجلی کی پیداوار اور زرعی حوالے سے مشکلات درپیش رہی ہیں۔

جب کہ بھارت نے کشمیر میں پن بجلی کے منصوبوں کو اپنی تحویل میں لے رکھا ہے جس میں اوڑی کا منصوبہ جس سے 280 میگاواٹ، کشن گنگا سے 330 میگاواٹ، برسار سے 1020، پالا کالڈل سے 1000 اور سیوا سے 120 میگاواٹ بجلی کی متوقع پیداوار ہے گو ان بے شمار منصوبوں میں تکنیکی خرابیوں کے باعث بھارت میں سیلابی تباہ کاریوں میں اضافہ ہوا ہے اور ناقدین کی جانب سے یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ بھارت نے پاکستان دشمنی میں ڈیمز کی تعمیر کرکے اپنے لیے مشکلات پیدا کرلی ہیں جس سے بے انتہا بارشوں کی صورت میں ان علاقوں میں بھی سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی جہاں پہلے ایسی حالت کبھی نہ ہوئی تھی۔ یوں جہاں پاکستان میں اس وجہ سے مسائل پیدا ہوئے وہیں بھارت بھی بچ نہ رہ سکا، لیکن زیادہ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث بھی بھارت کی جانب سے زیادہ پانی چھوڑنے کے باعث پاکستان میں غیر متوقع حالات پیدا ہوئے۔

اسی طرح کوہ ہندوکش سے وادی کالام اور ضلع سوات کی جانب بہتا دریائے سوات جو ضلع لوئر دیر اور ضلع مالاکنڈ سے ہوتا ہوا وادی پشاور میں چارسدہ کے مقام پر دریائے کابل میں جاگرتا ہے۔ پہاڑوں پر برف پگھل جانے کے باعث اور زیادہ بارشوں کی صورت میں بھی سیلاب کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے جس سے سوات، وادی کالام ، مینگورہ میں بڑے پیمانے پر تباہ کاریاں ہوتی رہی ہیں جس سے زرعی زمینیں اور باغات کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچتا ، آمدورفت کے سارے ذرایع بھی معطل ہوجاتے ، ایسے میں ضرورت تھی کہ یہاں آبی ذخائر کو محفوظ رکھنے کے لیے ڈیم بنایا جائے، گو 1963 میں دریائے سوات پر ڈیم کی ضرورت کے خیال کو سامنے لایا گیا تھا لیکن اتنے برسوں میں اس منصوبے کوکسی کونے میں ڈال دیا گیا۔

سندھ طاس معاہدے کے تحت 19 ستمبر 1960 میں جہلم ، چناب اور سندھ کے پانی کو پاکستان کی ملکیت قرار دیا گیا تھا جب کہ دریائے راوی ، ستلج اور بیاس کے پانیوں کو بھارت کا حق قرار دیا گیا تھا لیکن بھارت میں ذرا رفتار ملاحظہ فرمائیے بگلیہار ڈیم کی ہی مثال لیں جس کو پہلی بار 1992 میں پیش کیا گیا 1996 میں اس کی منظوری دی گئی اور 1999 میں اس بڑے منصوبے پر کام شروع ہوا اور ایک ارب ڈالر کی بڑی رقم سے 2004 میں اس کا پہلا منصوبہ مکمل ہو چکا تھا، خدا کا شکر ہے کہ پاکستان میں دریائے سوات پر گزشتہ ڈیڑھ برس سے کام ہو رہا ہے، مہمند ڈیم کا 35 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے تین سو ارب روپے کی خطیر رقم سے بننے والے اس ڈیم میں میاں ثاقب نثار کے جمع کردہ فنڈز بھی شامل ہیں۔

فاٹا کے علاقے میں 2019 میں کام کا اختتام ہوا یہ وہی علاقہ ہے جہاں پہلے کبھی طالبان کے قبضے کے حوالے سے خوف و ہراس قائم تھا لیکن اب ترقی کے کام بخیر و خوبی انجام پا رہے ہیں اس لیے کہ یہاں سیکیورٹی سخت ہے، ادارے اپنی خدمات بخوبی نبھا رہے ہیں اس طرح علاقے میں عام آبادی کے لوگوں کو ملازمت بھی مل رہی ہے اور دیگر وسائل کو علاقے سے ہی قدرتی ذرایع سے پورا کیا جا رہا ہے۔ اس طرح ایک ویران اور بنجر علاقے کو ملک کی آبی ضروریات اور پن بجلی کے منصوبے کے تحت خوب استعمال کیا جا رہا ہے اگر اسی منصوبے کو برسوں پہلے شروع کیا جاتا تو بہت سے مسائل پر قابو پانے کے ساتھ بجلی جیسے اہم مسئلے کو بھی حل کیا جاسکتا تھا پر دیر آید درست آید۔

حالیہ حکومت نے ڈیمز کی تعمیر پر کام کی رفتار کو بڑھا کر اس امر کو تقویت دی ہے کہ 2025 تک یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا۔ پاکستان کے اہم مسائل میں مہنگی بجلی کا حصول عوام کے لیے خاصا تکلیف دہ ہے اس پر آئے دن بجلی کی آنکھ مچولی کے علاوہ کنڈے کی بجلی اور چوری کے تار مہنگی بجلی کے باعث توانائی کے بحران میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

توقع ہے کہ مہمند ڈیم اور بھاشا ڈیم کے بننے کے بعد عوام کو سستی بجلی کی فراہمی ہوسکے گی، بھاشا ڈیم سے 4500 میگاواٹ بجلی کی پیداوار ہوسکے گی جب کہ دس ہزار میگاواٹ بجلی کے منصوبے شروع ہوچکے ہیں جس سے نہ صرف بنجر زمین جو لاکھوں ایکڑ کی تعداد میں ہے کام میں لایا جاسکے گا وہیں لاکھوں گیلن پانی کو ذخیرہ کیا جاسکے گا ورنہ یہ قیمتی پانی ہر سال ضایع ہو جاتا تھا۔ دس بڑے چھوٹے ڈیمز کے منصوبے سستی بجلی اور زراعت کے شعبوں میں کارگر ثابت ہوں گے اگر بروقت کام مکمل ہو جائے تو یہ ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

ماضی میں حکومتوں نے بہت سے منصوبے شروع کیے تھے جو تیز رفتاری سے بڑھے بھی لیکن الیکشن کے نتائج کے ساتھ ہی وہ منصوبے بھی گرد میں اٹی فائلوں کی مانند پڑے ہیں ترقی کی راہ میں آنے والے وہ تمام منصوبے جس سے ملک و قوم کی بھلائی اور فلاح بھی ہو قابل قدر آنے والی نسلیں ان منصوبوں کے افتتاح کی وہ تختیاں پڑھتی بھی ہیں یا نہیں لیکن ان منصوبوں سے مستفید ہو کر جو خوشی اور راحت وہ محسوس کریں گے اور جو ہم شکایات کرتے ہیں وہ بہت اہم ہیں کہ یہ دلوں سے ہونے والی رجسٹریشن والی رجسٹریشن بہت قیمتی ہے۔

کس نے اچھا کام کیا کس نے برا کام کیا اور کس نے صرف اپنا پیٹ بھرا۔ یہ اس دنیا کے کاغذات میں بھر دیا جاتا ہے لیکن اس کا رزلٹ تو وہیں جا کر پتا چلتا ہے کہ جنھوں نے عام سے بندوں کو خاص بنانے کے لیے خاص مقامات اور عہدے عطا کیے۔ یقیناً رزلٹ کو پکا اچھا بنانے میں یہ تیرا اور وہ میرا نہیں بلکہ یہ ہم سب کا ہے سوچ کر کام کریں تو دیکھیے اس دنیا میں بھی عزت اور آخری مقام میں بھی راحت۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔