گزشتہ دنوں ایک دوست کی طرف جانا ہوا۔ مہمان خانے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ قریبی گھر سے اونچی آواز میں بولنے کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ تجسس نے معلوم کرنے پر مجبور کیا اور پتا چلا کہ ماں اور بیٹے کے درمیان تلخ کلامی ہورہی ہے۔ بچہ ساتویں جماعت کا طالب علم تھا جو پڑھنے سے جان چھڑوا رہا تھا۔ ماں کی آواز سے اونچی آواز اس کے بیٹے کی تھی۔ اگر ماں ایک بات کرتی تو بیٹا آگے سے دو باتیں سناتا۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ ماں جی پڑھانا چاہ رہی تھیں اور بچہ اس وقت پڑھنے سے انکاری تھا ۔ بچہ اگر بدتمیزی کررہا تھا تو ماں جی بھی غصے میں زبان پر آئی بات روکنے سے انکاری تھیں۔ کوئی 10 سے 15 منٹوں تک یہ سلسلہ جاری رہا، پھر نجانے کیسے تھم سا گیا۔
یہ مسئلہ موجودہ نسل کے ساتھ بڑی شدت سے جڑا ہوا ہے۔ والدین کے پاس اپنے بہانے ہیں، جب کہ اولاد کے پاس اپنی مصروفیات ہیں۔ کچھ مصروفیات ایسی ہیں جو جان بوجھ کر ہم نے اپنے اوپر ایسی مسلط کرلی ہیں کہ جیسے ان کے بغیر ہمارا گزارا نہیں۔ ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
اکثر و بیشتر گھروں میں یہ مسئلہ اس وقت پوری شدت سے موجود ہے۔ والدین بچوں سے دور اور بچے والدین کی الفت سے نابلد ہوکر نقصان دہ چیزوں میں پناہ ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ بچوں کے بات نہ ماننے کی وجوہ میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ والدین انھیں وقت نہیں دیتے۔ اگر کچھ والدین وقت دیتے بھی ہیں تو وہ صرف پڑھائی یا نصیحت کےلیے ہوتا ہے۔ ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ بچہ وہی کامیاب ہوگا جو پڑھ لکھ جائے گا۔ حالانکہ ایسے واقعات موجود ہیں کہ پڑھائی سے بھاگے ہوئے افراد نے پرسکون اور اچھی زندگی گزاری ہے۔ ہم تربیت کی طرف توجہ دینے کے بجائے کتابوں کو رٹا لگوانے پر زور دیتے ہیں۔ ہم بچے کو خودکار مشین سمجھتے ہیں کہ اس کے کوئی جذبات نہیں ہیں۔ بس ایک پروگرامر کی طرح بچے کو کمانڈ دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض پورا کرلیا ہے۔ کھانا، پینا، جیب خرچ، اسکول کے اخراجات، ہوم ٹیوشن کے لوازمات اور نت نئے کھلونوں سے آراستہ کمرہ دے کر احسان جتاتے پھرتے ہیں کہ اتنا کچھ کرنے کے بعد بچے ہماری بات نہیں مانتے اور نہ ہی ہمیں فوقیت دیتے ہیں۔
ہمیں ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ بچہ کبھی بھی والدین کی طرف سے دی جانے والی سہولیات کی وجہ سے قریب نہیں ہوتا، یہ صرف ذریعہ ہوسکتے ہیں۔ بچہ بچپن سے ہی سیکھنا شروع کردیتا ہے، بلکہ بچپن میں سیکھنے کا عمل تیز ہوتا ہے۔ بچے نے ہر وہ کام کرنا ہوتا ہے جو وہ اپنے سامنے ہوتا دیکھتا ہے۔ بچے کے سامنے ایک دوسرے کو عزت سے پکاریئے، زمانے کی رفتار سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کیجیے اور بچے کی تربیت اس نہج پر کیجیے کہ وہ اپنے کام خود سے کرسکے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اسے چھوٹی سی عمر میں ہی چھوٹے چھوٹے کام کرنے کو دیے جائیں۔
جب بچے حد سے زیادہ بدتمیز ہوجائیں تو ہم نفسیات کے ماہرین کے پاس جاپہنچتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ بچوں کی کاؤنسلنگ کروانے سے پہلے والدین کو اپنی کاؤنسلنگ لازمی کروانی چاہیے، بلکہ صرف اپنی ہی کاؤنسلنگ کروائیں تو شاید بہت ہی کم بچے کی کاؤنسلنگ کی ضرورت پڑے۔
ماہر نفسیات کے پاس جاکر بھی آپ کا بچہ کیا کرتا ہے؟ کبھی غور کیجیے گا۔ ماہر نفسیات اسی بچے کو قابو کرتا ہے، جسے پورا گھر قابو کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے۔ وجہ تشدد پسندانہ رویہ اور وہ طنزیہ نظریں ہوتی ہیں جو بچے کو اکساتی ہیں کہ وہ کچھ الٹا سیدھا کرے۔ ماہر نفسیات بچے کے سامنے ایک خالی سلیٹ کی مانند جاتا ہے اور بچے کو موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنا سارا غبار لکیروں، ٹوٹے پھوٹے لفظوں اور ادھ لکھے حروف کی شکل میں اس پر لکھ دے۔ جب بچے کا غبار، غصہ اور شکایات ختم ہوتی ہیں تو ماہر نفسیات آپ کی فراہم کردہ معلومات کو خوب صورتی سے، مٹھاس سے اور شیریں آواز میں اس کے دماغ میں انڈیل کر اسے قائل کرتا ہے کہ وہ اپنے والدین کا خیال کیا کریں۔ بس انداز بدلا گیا اور بچے کو وہی بات اپنے فائدے کی لگی جس کی وجہ سے اس نے جان و دل سے اسے قبول کرلیا۔
یہی وقت اگر آپ بچے کو دیں تو وہ آپ کے ساتھ اپنے مسائل بانٹے گا۔ آپ کو اپنے رویے سے اسے قائل کرنا ہوگا کہ آپ اس کا بھلا چاہتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ بھلا جوتے مارنے سے نہیں ہوتا اور نہ بچے کی عزت نفس کو سر بازار مجروح کرنے سے ہوتا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کا مفہوم ہے کہ دوست کو نصیحت اکیلے میں کرنی چاہیے۔
اولاد تو دوست سے بڑھ کر ہوتی ہے تو کیوں ہم اسے سب کے سامنے ذلیل کرکے فخر کررہے ہوتے ہیں کہ وہ بڑا فرمانبردار ہے۔ حالانکہ وہ اگر خاموش ہے تو صرف اس لیے کہ مزید تماشا نہ بنے۔ مسلسل ذہنی اذیت اور تشدد اسے چڑچڑا، بدلحاظ اور بدتمیز کردیتے ہیں اور بعض اوقات تو بات خودکشی تک پہنچ جاتی ہے۔ ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ اسے کسی کہ نظر لگ گئی ہے، حالانکہ معاملات ہم نے خود خراب کیے ہوتے ہیں۔ بجاکہ نظر کا معاملہ بھی ہے لیکن اس سے ہٹ کر بھی بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جو ہمیں اپنے آپ میں بہتر کرنا ہوتا ہے۔
ہم نے پتا نہیں کہاں سے ایک خول چڑھا لیا ہے اپنے اوپر کہ بچوں کے ساتھ ہنسی مذاق نہیں کرنا، ان سے ہنسنا نہیں ہے، انھیں اپنے ساتھ باہر نہیں لے کر جانا اور نہ ہی ان کے ساتھ دوستانہ ماحول رکھنا ہے۔ ہمیں رعب و دبدبے میں رہنا ہے تاکہ وہ سدھر کر اپنی دنیا بنالیں۔ تو جناب معذرت کے ساتھ آپ اپنے بچے پر ظلم کررہے ہیں۔ اسے لطف اندوز ہونے دیجیے، اپنے ساتھ کھیلنے دیں اور اسے اپنی عمر کے کام کرنے دیں تاکہ وہ سمجھ سکے کہ تجربات سے کیسے سیکھنا ہے۔ غلط و صحیح کا فیصلہ کرنے دیں۔ آپ بس نظر رکھیں تاکہ ان میں احساس پیدا ہو۔
خدارا! اپنے بچوں کو وقت دیجیے تاکہ وہ آپ کی بات سنیں اور اخلاقی پستیوں میں گرنے سے محفوظ رہ سکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔