جہاز سے بس تک

عارف انیس ملک  ہفتہ 12 جون 2021
arifanees@gmail.com

[email protected]

ایک تربیتی طیارہ ویرانے میں گر کر تباہ ہو گیا تاہم پائلٹ پیراشوٹ کے ذریعے کودنے میں کامیاب ہوگیا۔وہ زمین پر اترنے کے بجائے ایک درخت کی اوپری شاخ میں پھنس گیا۔ کچھ دیر کوشش کے بعد آخرکار وہ درخت سے اترنے میں کامیاب ہوگیا۔ نیچے ایک دیہاتی کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔

میں آج ایک ریکارڈ قائم کرنے کے ارادے سے جہاز لے کر نکلا تھا، لیکن قسمت نے ساتھ نہیں دیا، پائلٹ نے ٹھنڈی سانس لے کر تھکے ہارے انداز میں زمین پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ایک ریکارڈ تو بہرحال تم نے قائم کر ہی دیا دیہاتی نے اس کا کندھا تھپکتے ہوئے کہا۔پائلٹ نے چونکتے ہوئے پوچھا: وہ کیا؟دیہاتی سنجیدگی سے بولا:  تم ایک ایسے درخت سے اترے ہو جس پر تم چڑھے ہی نہیں تھے۔

کہنے کو تو یہ ایک غیر سیاسی لطیفہ ہے مگر سمجھنے والے بین السطور اس میں سے کچھ سیاسی رموز بھی نکال سکتے ہیں۔ سیاست کو دانشور پیچیدہ ترین امور حرب میں شمار کرتے ہیں کہ میدان جنگ میں جو کچھ بھی ہو، سیاست کی شطرنج پر اصل جنگ ہاری یا جیتی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست کی آنکھ میں شرم اور سینے میں دل نہیں ہوتا۔ آج کا یہ کالم سیاست کی انھی بھول بھلیوں سے متعلق ہے۔

جہاز کا ذکر ہو تو پاکستانی سیاست میں جہانگیر ترین کا خیال آتا ہے۔ ہم میں سے اکثر نے انھیں پچھلے پانچ سالوں میں “دی ٹرانسپورٹرز” مووی کے ہیرو کی طرح پاکستان کے دور درازکونوںمیں پہنچتے اور پراسرار انداز میں چلتے ہوئے دیکھا ہے۔ نتائج کے حساب سے دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ٹھہرے ہیں۔ تاہم اب ہم اپنے ہیرو کو جہاز کے بجائے بس میں سفر کرتے دیکھتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ “اینٹی کلائمکس” کہاں سے آگیا۔ تاہم اس راکھ کو کریدا جائے تو نیچے سے سیاست کی چنگاری برآمد ہوتی  ہے۔ وہی سیاست جو بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیتی ہے۔ اور ماں باپ کی آنکھوں میں تپتی سلائیاں پھروا دیتی ہے۔

جہانگیر ترین کا سیاسی سی وی بھاری بھرکم ہے۔ ان کے وزن کے لوگ پورے ملک میں انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ وزیر کبیر بھی رہے۔ جہاں رہے وہاں اپنے نشان بھی چھوڑے۔ افسر شاہی سے کام لینا جانتے ہیں۔ اوچھی گفتگو نہیں کرتے۔ تمام حکومتی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

ساتھ کارپوریٹ سرمایہ اور ارب پتی ہونے کا ہوا بھی ہے سو لوگ انھیں ہلکا نہیں لیتے۔ تحریک انصاف میں بھی اپنی مدبرانہ سج دھج برقرار رکھی اور اسی وجہ سے تقریباً تمام سیاسی جماعتوں میں بھی انھیں قدر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ 2017 میں انھیں تکنیکی بنیادوں پر نااہل قرار دیا گیا اور 2018 میں بھی اس فیصلے کو برقرار رکھا گیا ۔

یہ الگ بات کہ جب 2018 میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو اس میں بھی اہم ترین کردار جہانگیر ترین کی “ٹرانسپورٹیشن” کا تھا۔ لیکن وہ محض ٹرانسپورٹر ہی نہیں تھے، بلکہ کئی آزاد امیدوار انھیں کی وجہ سے تحریک انصاف کی بس میں بیٹھ گئے اور ظاہر ہے کہ کئی وعدے وعید کیے گئے۔ حکومت قائم ہوئی تو جہانگیر ترین کا ڈیرہ اسلام آباد میں طاقت کا ایک مرکز بن گیا۔

میرا جب بھی وہاں گزر ہوا، انھیں ان کے اسمارٹ اور ہردل عزیز پرسنل سیکریٹری عمران شاہ سمیت کئی درجن اراکین پارلیمنٹ کے ہمراہ بہت سے امور میں گتھم گتھا پایا۔ وجہ صاف ظاہر تھی۔ ترین ایوان اقتدار کے نبض شناس تھے، وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ براہ راست رابطہ اور ٹرسٹ تھا جس کی بنیاد پر وہ حکومت کا ریسکیو نمبر بن گئے تھے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں کئی مراکز ہوتے ہیں اور بہت سوں کو عمران ترین دوستی راس نہیں آتی تھی۔ اس لیے کچھ گفتنی، ناگفتنی کی بنیاد پر ان کی کچھ ریکارڈنگز عمران خان تک پہنچانے دی گئیں اور فصیل میں دراڑ پڑ گئی۔

ترین مخالف گروپ انھیں پس پردہ دھکیل کر راضی نہیں تھا۔ اقتدار کی ہانڈی تک پہنچنے کا کھیل چونکہ اپنے مفادات کے گرد کھیلا جاتا ہے اور وہاں تک پہنچنے کے لیے جو سٹہ کھیلا جاتا ہے اس میں ایک کا دس یا سو وصول کرنے کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ سو ترین کے نازک ترین حصے کا نشانہ لیا گیا جو کہ ان کی شوگر ملوں کا بزنس تھا۔ پاکستان میں آٹا اور چینی گزشتہ ستر برس سے سیاست کے بگاڑ اور سنوار کا حصہ ہیں۔ مجھے حال ہی میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی 1973 کی ایک شہ سرخی ملی ہے جس میں وہ دھمکی دے رہے ہیں کہ “چینی چوروں کو نہیں چھوڑوں گا”۔ بدقسمتی سے 48 سال بعد بھی ہم ایسے ہی بیانات سن رہے ہیں۔

چینی کی برآمد اور کارٹیل کے حوالے سے کمیشن بنا، واجد ضیاء کی رپورٹ بھی آگئی جس میں مبینہ طور پر چینی کے بحران کی گھنٹی کو ترین کے گلے میں باندھ دیا گیا ۔ یار لوگوں کا الزام ہے کہ ترین چینی کے بحران سے پچاس ارب سے زائد کما چکے ہیں ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ چینی کی برآمد اور اس سے متعلقہ تمام فیصلے کابینہ میں کیے گئے جن کی ذمے داری سے ہر کوئی انکاری ہے۔

چینی کمیشن کی رپورٹ آئی، دوستی کا پندار کرچی کرچی ہوا تو ترین کچھ دیر کے لیے پاکستان سے لندن آئے تاکہ ٹھنڈے طریقے سے معاملہ سنبھالا جاسکے۔ اسی دوران میرے علم میں ہے کہ کئی جغادری برطانوی اخبارات نے ان سے رابطہ کیا کہ بہت سے لوگ اسکوپ کی تلاش میں تھے، مگر ترین چپ رہے۔

پھر پس پردہ رابطے ہوئے اور وعدے بھی کیے گئے اور وہ پاکستان جا پہنچے جہاں ان کو کئی سرپرائز ملے۔ ایک انہونی یہ بھی ہوئی کہ خاندان بھر کے اکاؤنٹس بند کردیے گئے اور ان  کے بچوں پر بھی ایف آئی آر درج ہوگئیں۔ پاکستانی سیاست کی شطرنج پر یہ ایک شہ مات والی چال تھی کہ عموماً سیاست دان اس حد تک پہنچنے سے گریز کرتے ہیں، تاہم یہ واضح ہوگیا کہ یار لوگ ترین کو صرف سیاست کے میدان سے باہر نہیں دیکھنا چاہ رہے، بلکہ انھیں ٹوٹا پھوٹا ہوا، حوالات میں دیکھنا چاہ رہے ہیں۔ خیر جب بات یہاں تک آن پہنچی تو پھر پاور شو بھی ہوتا، کچھ پتے دکھائے گئے، کچھ چھپائے گئے۔ ہم خیال گروپ بھی بنا، راجہ ریاض اور دیگر کی وزیر اعظم سے ملاقات بھی ہوئی، بیرسٹر علی ظفر کو بھی ثالث بنایا گیا مگر بات نہیں بن پارہی ہے۔

اگر آپ اس وقت پوچھنا چاہیں کہ موجودہ حکومت کے چلنے میں، بگڑنے میں اور تڑخنے میں سب سے مؤثر ترین کردار کون ہے تو میں ایک مرتبہ پھر جہانگیر ترین کا نام لوں گا۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ دیو کی جان اب اسی طوطے میں ہے۔ چینی زبان میں ایک قول ہے کہ کڑا سخت بحران ہے اور زبردست مواقع منتظر ہیں۔ ترین ڈی کے باہر کھیلتے کھیلتے اب ڈی کے اندر داخل ہوچکے ہیں۔

پنجاب حکومت کا مستقبل ہو، بجٹ پیش اور پاس کرنا ہو، اختیار بڑی حد تک ترین گروپ کے پاس جا چکا ہے۔ ترین اب صرف بارہویں کھلاڑی نہیں ہیں بلکہ عمران خان اور مقتدرہ کے درمیان سودا بازی کے اہم ترین سٹیک ہولڈر بھی بن گئے ہیں ۔ فرق صرف یہ پڑا  ہے کہ اب وہ شطرنج کی بازی میں دوسری طرف بیٹھے ہیں۔

میری ماہر تعلیم میاں جہانگیر سے تفصیلی بات ہوئی جوکہ لودھراں سے ترین کے دیرینہ ساتھی ہیں اور ان کے بس کے سفر میں صف اول میں نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ترین کو گرفتار کیا گیا تو پھر شیشے کے گھر میں بہت کچھ ٹوٹ سکتا ہے۔ پاکستانی سیاست کے مدوجزر کو سامنے رکھا جائے تو آنے والے دنوں میں “نااہل ترین” کی تاحیات نااہلی پر نظر ثانی بھی کی جا سکتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ “موثر ترین” کی قطار میں شامل ہوجائیں۔ اگلے دو مہینے میں پاکستانی سیاست کافی حد تک سونامی سے گزر سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔