آنے دو پانی کے بحران کو بھی

سعد اللہ جان برق  جمعـء 18 جون 2021
barq@email.com

[email protected]

خوشخبری تو آپ نے بھی سن لی ہوگی کہ خیر سے پانی کا بحران بھی تشریف لانے والا ہے اور یہ کسی ایسے ویسے ذریعے نے نہیں کہا ہے بلکہ ریاست مدینہ کے سب سے بڑے صادق و امین نے کہا ہے جو غلط کبھی نہیں بولتے، جب بھی بولتے ہیں بالکل صحیح بولتے ہیں، مطلب یہ کہ ایک اور مہمان ’’خانہ انوری‘‘تلاش کررہاہے تو آئے ’’چشم ماروشن دل ماشاد‘‘ اہلاً وسہلاً ومرحبا،جگ جگ آئیو۔خیر نال آ۔

اور خیر نال کبھی ’’مت جا‘‘ کیونکہ آج تک یہاں جو بھی آیا ہے اپنا بوریا بستر ہی لایا ہے۔کرشمہ دمن دل می کشید کہ جا ایں جاست۔معلوم نہیں ہم میں اتنے محبت والے، خدمت والے، خلوص والے کہ اگر(104) ڈگری بخار بھی آئے تو اسے رخصت نہیں کرتے۔یا ہوسکتا ہے کہ ہماری اس زمین کے نیچے کوئی خفیہ مقناطیس لگاہو یا لگایا گیا ہے کہ جو بھی آتا ہے، اسے دوسری بار آنے کی ہوس نہیں ہوتی کیونکہ دوسری بار کے لیے وہ جاتا ہی نہیں ہے۔

جی میں ہے کہ اس در پہ ہمیشہ پڑے رہیں

سر زیربار منت بحراں کیے ہوئے

ویسے بھی بقول چشم گل چشم کہ خالی میدان سے آندھی کیا لے کر جائے گی۔اب اگر پانی کا بحران بھی ہے تو آتا رہے اس سے پہلے کیا کم بحران آئے ہیں۔ بحرانوں کے درمیان تو ہم اب منڈی کے بیل ہوگئے ہیں، مستقل منہ کھولے ہوئے کہ جو چاہے آئے، ہمارے دانت دیکھے بلکہ اگر چاہے تو ’’آنت‘‘ بھی دیکھ سکتاہے۔مطلب یہ کہ پانی کے بحران کے آنے کا نہ ہمیں کوئی ڈر ہے نہ تشویش کہ ہم بحرانوں ہی کے پالے ہوئے ہیںجو ڈوب جائے اس کے اوپر پانی ایک نیزہ ہو یا سوا نیزے،کیا فرق پڑتا ہے۔ مرے پر سو درے اور مارے جائیں تو بھی مردے کو تکلیف نہیں ہوتی۔

غم رہا ہے تو رہے اس کا تسلسل قائم

مری غربت میں کسی شے کی تو بہتات رہے

کچھ اور نہیں تو بحرانوں کی بہتات ہی سہی، چاہے پانی کا ہو، ہوا کا ہو، گیس، پیٹرول کا ہو یا وہ سب سے بڑا بحران تمام بحرانوں کا’’مجع البحران‘‘ مہنگائی۔

اک طرف ابرکرم ہے تو ادھر اشک رواں

میری دنیا میں ہمیشہ یہی برسات رہے

البتہ ہمیں تشویش تھوڑی سی اس بات کی ہے کہ اب باقی تو تمام بحران تشریف لاچکے ہیں، صرف ایک بحران باقی ہے، وہ کب ا ٓئے گا۔ پانی کے بحران سے پہلے یا بعد میں اور وہی بحرانوں کا دی اینڈ ہے جس کے بارے میں مرشد نے بہت پہلے خبر دی ہوئی ہے۔

ہوچکیں غالب بلائیں سب تمام

ایک مرگ ناگہانی اور ہے

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ پانی کا بحران جب آجائے گا تو وہ کیسا ہوگا؟ کیا اس میں ہم پانی پی پی کر ایک دوسرے کو کوسیں گے؟کیا اتنا پانی بھی نہیں ملے گا کہ چلو بھرسکیں۔کیونکہ اب تو صرف چلو بھر پانی ہی کی ضرورت پڑے گی زیادہ کی نہیں۔ ویسے ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ پانی کا بحران ہمارا کچھ بھی بگاڑ نہیں پائے گا کیونکہ اس سے پہلے کاٹنے والوں نے اتنا کاٹا ہوگا کہ ہم پانی مانگنے کے قابل ہی نہیں ہوں گے یا پھر ہم پانی سے ڈریں گے۔

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد

ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

ویسے قابل لائق فائق اور ذہین لوگوں کے لیے کوئی بحران پریشانی کا باعث نہیں ہوتا۔ہمیں اچھی طرح یاد ہے، ایک وزیرصاحب نے فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کو اپنی زمینوں میں زراعت کے لیے استعمال کرنا شروع کیاتھا۔آپ نے کبھی ’’پنک پینتھر‘‘ کارٹون دیکھا ہوگا۔ ایک مرتبہ پنک پینتھر‘‘کے گھر میں ایک ایسی مکھی نہ جانے کہاں سے آئی کہ اس مکھی نے پنک پینتھر کے گھر کا سارا فرنیچر بھی غارت کردیا، دروازے کھڑکیاں بھی کتر کر رکھ دیں لیکن پینتھر بھی کچھ کم نہ تھا۔

اس نے وہ مکھی پکڑی، ایک لوہے کی میز سے باندھی اور اس سے لکڑیاں چیرنے یعنی آرا مشین کاکام لینا شروع کردیا جیسا کہ آج کل لوگ کورونا وائرس کے ساتھ کررہے ہیں چنانچہ پانی کے بحران سے بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں، ہمارے ایک سے بڑھ کر ذہین اور ذہین ترین، عقل مند ترین لائق ترین اور نہ جانے کیاکیا ’’ترین‘‘لوگ پڑے ہوئے ہیں ،وہ اس پانی کے بحران کو بھی پکڑ کر کہیں ’’باندھ‘‘ دیں گے اور کار آمد بنالیں گے۔

جب سیلاب، زلزلے،کورونا،مہنگائی وغیرہ کو کارآمد بنایا جا سکتا ہے تو پانی کا بحران کیا چیز ہے۔بلکہ ہمارا تو خیال ہے کہ ہمارے’’ترین‘‘لوگ پانی کے بحران کے ساتھ  ’’ہوا کا بحران‘‘بھی ’’جھونگے‘‘میں لے آئیں گے اور اسے کارآمد بنالیں گے۔ مطلب یہ کہ آدمی ہوشیار یا ترین ہو تو بحران پربھی سواری گانٹھ سکتا ہے۔ آنے دو اس پانی کے بحران کو بھی، پردہ نشین کو بے پردہ نہ کیا تو میرا نام بھی ترین نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔