ڈبویا مجھ کو ’’ہونے ‘‘نے

سعد اللہ جان برق  پير 21 جون 2021
barq@email.com

[email protected]

مرشد کا ویسے تو ’’ہرلفظ ہے سرمستی‘‘ہرحرف ہے رندانہ ،یعنی جو بھی کہتے ہیں کمال کہتے ہیں لیکن اس شعرمیں تو ایسا کرگئے کہ کمال بھی دانتوں تلے انگلیاں داب لے۔ پہلامصرعہ تو رہنے دیجیے کہ نہ ہم اس کی تاب لاسکتے ہیں اورنہ آپ لاسکیں گے لیکن دوسرا مصرعہ بھی غضب کاہے ۔

ڈبویامجھ کو ’’ہونے‘‘ نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

پڑھئے، سوچئے، غورئیے کہ کیاکیا،کچھ کہہ گئے ہیں۔کیاکیاکچھ سوچنے پر مجبورکرتے ہیں۔ گویا…

کچھ بھی نہ کہا اورکہہ بھی گئے

کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے

’’ہونا‘‘ہی تو وہ ’’ام ال سب کچھ ‘‘ہے جو ساری دنیا کو پریشان کیے ہوئے ہے ،’’نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا‘‘ یعنی کچھ بھی نہ ہوتا،وہ بھی جوہوتا ہے، ہوتی ہے،ہوا،نہ ہوا ہوگانہ ہوگا۔ مطلب یہ کہ سارا خاندان ’’ہو‘‘ بھی نہ ہوتا،تو دنیاکتنے آرام سے رہتی کہ جو ہوتا رہا ہے، وہ بھی نہ ہوتا،جو ہورہاہے، وہ بھی اورجو ہوگا وہ بھی یعنی یہ ’’ہونے‘‘کاکم بخت‘‘ بانس‘‘نہ ہوتا تو نہ کوئی بانسری بجتی اورنہ بجانے والا …بلکہ بجانے والے خود ہی بجتے جو اب اتنا ’’بج‘‘ رہے ہیں کہ جا بہ جاکشتوں کے پشتے لگے ہوئے ہیں۔

زندگی کا سازبھی کیا ساز ہے

بج رہا ہے اور بے آواز ہے

سب سے پہلے اگریہ مکر کی پڑیا ، فساد کی گھڑیا اور پیدائشی بڑھیا، دنیا، نہ ہوتی توکتنا امن ،کتنا چین اورکتنی شانتی ہوتی،شانتی شانتی شانتی،نہ یہ جلسے ہوتے نہ دھرنے ہوتے نہ شورنہ شرابا نہ شہرنہ بازار اورنہ ہی یہ آدم زاد جو بجائے خود ایک آزارہے، اپنے لیے، قوم کے لیے اورہراس مقام کے لیے جہاں یہ پہنچ جائے۔

نہ یہ چاندہوتانہ تارے ہوتے

نہ ہی یہ دوست نمادشمن ہمارے ہوتے

اب اگر دوست نما دشمنوں کی فہرست درکار ہو تو پہلے اپنا نام لکھ دیجیے، پھر لکھتے جائیے، آپ اور کاغذ قلم دونوں ختم ہو جائیں گے لیکن فہرست نامکمل  رہے گی اوریہ سب کچھ اس کم بخت ’’ہونے‘‘ کاکیادھرا ہے۔چلیے دنیاکو بھی گولی مارئیے۔

مجودرستی عہد ازجہان مست وخراب

کہ این عجوزہ عروس ہزارداماد است

یعنی اس سے ’’وفا‘‘ کی کیا امید جو ہزار شوہروںکی دلہن ہو،صرف اپنے ’’ہونے‘‘ پردھیان دیجیے کہ اگرہم نہ ہوتے تو کتنے غم نہ ہوتے، فراغت ہی فراغت ہوتی،مزے ہی مزے ہوتے اورامن ہی امن، نہ یہ ڈالر ہوتے نہ ریال نہ روپیہ نہ لیڈرنہ وزیراورنہ وہ …وہ…اوروہ یایہ…یہ اور ’’یہ‘‘…

فراغت کس قدر رہتی مجھے تشویش مرہم سے

بہم گر صلح کرتے پارہ ہائے دل نکمدان پر

ایک رازکی بات بتائیے کہ اگرہم تم نہ ہوتے تو آئی ایم ایف بھی نہ ہوتا،قرضے بھی نہ ہوتے اور سود تو بالکل بھی نہ ہوتا،کہ قرض لینے والے بھی نہ ہوتے اوردینے والے بھی،یعنی نہ یہ بات ہوتی نہ وہ بات ہوتی اورجب بات نہ ہوتی توآفات، معاملات، فسادات ،تقریرات،اخبارات ،چینلات مطلب کہ کہیں بھی کوئی ہائے ہسیات نہ ہوتا،شانتی  شانتی شانتی ۔ایک پشتوٹپہ ہے کہ ۔

سومرہ قلارہ قلاری شوہ

چہ لیونے جانان میں ورک شو دوطنہ

یعنی کتنا سکون کتنی خاموشی کتنا قرار ہوگیا، جب میرا دیوانہ وطن سے فرار ہوگیا۔

لپٹ گیا تیرادیوانہ گرچہ منزل سے

اڑی اڑی سی ہے یہ خاک رہگزرپھر بھی

اوروہ دیوانہ کون ہے جس نے دنیا کو سر پر اٹھا رکھا ہے، یہ آپ بھی جانتے ہیں ہم بھی جانتے ہیں اورآئینہ بھی جانتا ہے۔

گویا مرشد نے ٹھیک ٹھیک اصل نشانے پر تیر ماراہے ’’نہ ہوتا میں تو کیاہوتا‘‘ دنیا جہان کا ہے سارا ہونا نہ ہونا ،ہونی انہونی صرف ’’ہونے‘‘سے ہے ۔

ہونے کو انہونی کردیں انہونی کو ہونی

ایک جگہ جب جمع ہوجائیں امر اکبراورانتونی

نام کچھ بھی رکھئے ’’ہونے‘‘ تو سارے ’’ہونے‘‘ ہی ہوتے ہیں ،کریلے کو آپ کسی بھی طرح اورکسی بھی جانب سے چکھیں کڑوا ہی ہوگا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون،کون ہے اور کیا، کیاہے صرف ’’ہونا‘‘ہی کافی ہے کہ ہونا بجائے خود سب سے بڑا ہونا ہوتا ہے۔

چلیے باقی سارے ’’ہونے‘‘ ایک طرف کر دیجیے صرف اگر ’’ہم‘‘ نہ ہوتے  تو وہ سب کچھ بھی نہ ہوتا جو ہم پر حملہ آور ہے ،بقول قہرخداوندی، آندھی خالی میدان سے کیا لے کرجائے گی، ہوا تو صاف وشفاف ہواہوتی ہے ،ساری گندگی گردوغبار تو کوئی ’’ہوتا‘‘ہی اس میں شامل کردیتاہے۔

ذراکسی دریاکے کنارے جاکردیکھیے کہ چشمے سے جو شفاف پانی نکلاتھا،اس میں اس کم بخت ’’ہونے‘‘ نے کیاکیاہونے ڈال کر ملادیے ہیں۔

نہ ہونے کاسب سے بڑا فائدہ یہ ہوتاکہ ہم نہ ہندسے بنتے نہ ووٹ۔خالی صفرہوتے تو نہ کوئی تختہ سیاہ پر لکھتا نہ مٹاتا،بلکہ بڑافائدہ یہ کہ تختہ سیاہ، لکھنے والے اورمٹانے والے بھی نہ ہوتے۔

چاند کے ساتھ کئی زخم پرانے نکلے

کتنے غم تھے جو ترے غم کے بہانے نکلے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔