کینیڈا کا دوسرا روپ

سید عاصم محمود  اتوار 27 جون 2021
ترقی اور مثالی امن و امان کی شہرت رکھنے والے ملکوں میں بھی اندر ہی اندر اسلام مخالف انتہا پسندی جڑ پکڑ رہی ہے۔ فوٹو: فائل

ترقی اور مثالی امن و امان کی شہرت رکھنے والے ملکوں میں بھی اندر ہی اندر اسلام مخالف انتہا پسندی جڑ پکڑ رہی ہے۔ فوٹو: فائل

 رات نو بجے ڈاکٹر جاوید سکھیرا کو جیسے ہی خبر ملی کہ ان کے شہر کی سڑک پر ایک مسلم پاکستانی خاندان شہید ہو چکا تو وہ سراسیمہ ہو گئے۔ وہ کینیڈا کے صوبے، اونٹاریو میں واقع شہر،لندن کے باسی ہیں۔ بطور ماہر نفسیات شہریوں کی خدمات بجا لاتے ہیں۔نیز پولیس سروس بورڈ کے سربراہ بھی ہیں۔

صوبہ اونٹاریو کے ہر شہر میں ایسے بورڈ قائم ہیں ۔معززین شہر بورڈ کے ارکان ہوتے ہیں۔یہ سول ادارہ پولیس کی سرگرمیوں پہ نظر رکھتا اور انھیں بہتر بنانے کی خاطر تجاویز دیتا ہے۔رات نو بجے ڈاکٹر سرور اسی ادارے کے دفتر میں بیٹھے کچھ کام نمٹا رہے تھے۔

پولیس سروس بورڈ کے چئیرمین کی حیثیت سے انھیں عام شہریوں کی نسبت جلد اطلاع مل گئی کہ حادثے کا شکار ہونے والے ان کے ہم وطن ہی نہیں قریبی دوست بھی ہیں۔کچھ دیر پہلے چھیالیس سالہ سلمان افضال اپنی والدہ،طلعت افضال،بیگم مدیحہ افضال،پندرہ سالہ بیٹی، یمنی اور نوسالہ بیٹے فیاض کے ساتھ فٹ پاتھ پر خوش گپیاں کرتے چہل قدمی کر رہے تھے۔اچانک ایک سیاہ پک اپ ان پہ چڑھ دوڑی ۔بیٹے کے سوا سبھی اس حملے میں شہید ہو گئے۔انھیں پولیس سے یہ خبر بھی ملی کہ قاتل نے مسلمان ہونے کے باعث اس خاندان کو نشانہ بنایا۔یہ پاکستانی نژاد فیملی چودہ پندرہ سال قبل نئی اُمیدیں اور امنگیں لیے ہجرت کر کے کینیڈا آئی تھی۔مگر اب نفرت ،عناد اور حسد کے مارے ایک سفید فام نوجوان نے اس ہنستے بستے خاندان کی چھوٹی سی دنیا ہی اجاڑ دی۔

فٹ پاتھ پہ چلتے ہوئے خوف

ڈاکٹر جاوید سکھیرا نے تمام پیشہ وارانہ مصروفیات ترک کیں اور گھر روانہ ہو ئے۔ان کے شہید خاندان سے قریبی تعلقات تھے۔دراصل چند برس قبل جب وہ اہل خانہ کے ساتھ لندن آئے تو پاکستانی ہونے کی وجہ سے پہلے پہل ان کی سلمان افضال اور مدیحہ ہی سے جان پہچان ہوئی۔دونوں خاندان بہت قریب تھے۔گھر پہنچ کر ڈاکٹر جاوید نے اپنی بیگم کو انتہائی صدمہ انگیز اطلاع دی اور اپنے نو اور  گیارہ سالہ بچے آغوش میں لے لیے۔دونوں بچے یمنی اور فیاض کے ساتھ کھیلتے خوب محظوظ ہوتے تھے۔ڈاکٹر جاوید اور ان کی بیوی غم سے نڈھال اور دل گرفتہ تھے۔شہید میاں بیوی ’’سونے کا دل‘‘رکھتے تھے۔پیار کرنے والے،ہمدرد،دکھ سکھ کے ساتھی اور بے غرض انسان تھے۔مگر ایک مجسم نفرت ہستی نے انھیں زندگی کی تمام مسّرتوں اور خوشیوں سے محروم کر دیا۔

غم واندوہ سے نڈھال ڈاکٹر جاوید پھر اپنے پیاروں کی تجہیز وتکفین کے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ساتھ ساتھ وہ خوف سے لرزتے یہ بھی سوچ رہے تھے کہ کیا اب کینیڈا میں رہائش رکھنا سود مند ہے؟سلمان افضال کے خاندادن کی جس انداز میں شہادت ہوئی تھی،اس نے انھیں ہی نہیں لندن کے تمام مسلمانوں کو دہشت زدہ کر دیا۔اس واقعے کے بعد گویا کینیڈا کی گلیاں اور سڑکیں  ان کے لیے محفوظ نہیں رہی تھیں۔یہی وجہ ہے،اب چھوٹے چھوٹے معصوم مسلمان بچے فٹ پاتھوں پہ چلتے ہوئے خوف محسوس کرنے لگے ہیں۔ظاہر ہے،اس خوفناک واقعے نے آشکارا کر دیا کہ اسلاموفوبیا اور سفید فام برتری کے زہر میں ڈوبا کوئی بھی انتہا پسند انھیں راہ چلتے کسی بھی طریقے سے نشانہ بنا سکتا ہے۔

 افسوس ناک رخ

کینیڈا کا شمار دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔وہاں شرح خواندگی تریباً سو فیصد ہے۔شہریوں کا معیار زندگی بہت بلند ہے۔بیشتر شہری ہمارے حساب سے ہر ماہ لاکھوں روپے کماتے ہیں۔انھیں ایک سے بڑھ کر ایک آسائش میسّر ہے۔مملکت میں جمہوریت کا بول بالا ہے۔انسانی حقوق کی قدر ہے۔ہر کسی کو عدل و انصاف دستیاب ہے۔لوگ قانون پسند ہیں۔غرض کینیڈا مثالی ریاست ہے،اسی لیے پاکستان سمیت دنیا بھر کے لوگ وہاں آباد ہونے کی تمنا رکھتے ہیں۔مگر پاکستانیوں کو وہاں جانے سے قبل یاد رکھنا چاہیے کہ تمام تر ترقی کے باوجود ریاستی مشینری اپنے کئی یورپی النسل شہریوں کے سروں سے نسلی برتری کا بھوت نہیں اتار سکی۔اسی نسل پرستی نے ’’سفید فام برتری‘‘(White supremacy)اور ’’اسلامو فوبیا‘‘ (اسلام اور مسلمانوں سے خوف)جیسے نفرت انگیز اور منفی نظریات کو جنم دیا۔یہ نسل پرستی کینیڈا ہی نہیں سبھی مغربی ممالک میں صدیوں سے پھل پھول کر پروان چڑھ چکی اور جیتی جاگتی سچائی ہے۔یہی بظاہر ترقی یافتہ ،خوشحال اور روشن خیال کینیڈا کا منفی اور افسوس ناک دوسرا روپ پیش کرتی ہے۔

حکمرانی کرنے کا حق

دنیائے مغرب میں نسلی احساس ِتفاخر نے نسل پسندی اور سفید فام برتری جیسے انسان دشمن نظریات کو پیدا کیا۔ان نظریات کی رو سے سفید فام اقوام دیگر سیاہ و گندمی قوموں سے اعلی وبرتر ہیں،اسی لیے وہ ان پہ حکمرانی کرنے کا حق رکھتی ہیں۔ مورخین لکھتے ہیں کہ ان نظریات نے پندرہویں صدی کے بعد نشوونما پائی جب یورپی جدید اسلحے کے بل پہ شمالی ولاطینی امریکا،ایشیا اور افریقا میں مختلف علاقوں پہ قابض ہو کر وہاں نوآبادیاں قائم کرنے لگے۔ان یورپی فاتحین میں یہ سوچ پروان چڑھ گئی کہ سفید فام زیادہ ذہین،تعلیم یافتہ،مہذب اور بہادر ہیں۔اس لیے انھیں ہی غیر سفید فام اقوام پر حکومت کرنا چاہیے۔دنیائے مغرب کی نامی گرامی شخصیات اس نظریے کی قائل رہی ہیں،مثلاً جرمن فلسفی آرتھر شوپنہار،برطانوی سیاست داں،چرچل،جرمن آمر ہٹلر،سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ وغیرہ۔یہ نظریہ آج بھی مغربی معاشروں میں پھل پھول رہا ہے۔

یورپی لشکر جب چار پانچ سو سال پہلے جنوبی وشمالی امریکا پہنچے تو ان براعظموں میں ریڈ انڈین قبائل رہتے بستے تھے۔یورپیوں نے چھوٹتے ہی انھیں وحشی اور جنگلی قرار دیا۔ ان کا یہ نظریہ مذید پختہ ہو گیا کہ وہ دنیا بھر میں ہر لحاظ سے … نسلی، مذہبی، ثقافتی، تمدنی، عسکری اور معاشی طور پہ  اعلی وبرتر نسل ہیں۔لہذا وہ زور زبردستی سے براعظموں کے مقامی باشندوں کو عیسائی بنانے کی کوششیں کرنے لگے۔جو ریڈ انڈین عیسائی نہ بنتا، اس پر طرح طرح سے ظلم وستم کرتے۔امریکا کا دریافت کنندہ کہلانے والا کرسٹوفر کولمبس بھی ظالم انسان تھا جس نے سیکڑوں ریڈ انڈین محض عیسائیت قبول نہ کرنے پہ مار ڈالے تھے۔

 اندر کا ’’انڈین‘‘مارا جا سکے

یورپی باشندوں نے پھر مختلف ہتھکنڈوں،چالوں اور حربوں سے سعی کی کہ ریڈ انڈینز کو مغربی تہذیب وثقافت اور مذہب کے مطابق ڈھالا جائے۔مثلاً کینیڈا میں انیسویں صدی کے اواخر میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مشنریوں نے اقامتی (بورڈنگ)اسکول کھول لیے جہاں ریڈ انڈین والدین کے بچوں کو مغربی تعلیم دی جانے لگی۔مقصد یہ تھا:’’بچوں کے اندر کا ’’انڈین‘‘مارا جا سکے۔‘‘بعد ازاں کینیڈین حکومت نے باضابطہ طور پہ پورے ملک میں ایسے اقامتی اسکول قائم کر دئیے۔نیز قوانین نافذ کر کے ریڈ انڈینز کو مجبور کیا کہ وہ اپنے بچے ان اسکولوں میں داخل کرائیں تاکہ وہ مغربی تہذیب وتمدن کا لبادہ اوڑھ سکیں۔

ریڈ انڈینز میں سے جو خاندان بچے اقامتی اسکول بھجوانے سے انکار کرتا،مقامی انتظامیہ زبردستی اس سے بچے چھین کر اسکول بھجوا دیتی۔بیسویں صدی میں ایسی مذید اقامتی درس گاہیں کھولی گئیں۔ان اسکولوں میں کوئی ریڈ انڈین بچہ اپنی مادری زبان نہیں بول سکتا تھا۔اگر بولتا تو اسے سزا دی جاتی۔اسکول میں صرف انگریزی بولنے کی اجازت تھی۔عمموماً اسکول انتظامیہ حکومت سے ملے فنڈ ہڑپ کر جاتی۔اس بنا پر اکثر بچوں کو بھوکا رہنا پڑتا۔ان کا علاج بھی نہ کرایا جاتا۔دور جدید کے کینیڈین ماہرین کا کہنا ہے،بھوکا رہنے اور بیماریوں میں مبتلا ہونے سے چار تا چھ ہزار ریڈ انڈین بچے چل بچے۔ان اموات کی ذمے دار کرپٹ و ظالم اسکول انتظامیہ تھی۔

ثقافتی نسل کشی

بیشتر اقامتی اسکولوں میں انتظامیہ متوفی ریڈ انڈین بچوں کی لاشیں خفیہ مقامات پر دفن کر دیتی۔ والدین کو علم ہی نہ ہوتا کہ بچے کہاں گئے؟وہ بیچارے عمر بھر پریشان حال اپنے پیارے بچوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے۔یہ گویا ایک لحاظ سے اسکول انتظامیہ کی جانب سے ریڈ انڈین بچوںکا قتل تھا۔کینیڈا میں اب ریڈ انڈین بچوں کے اقامتی اسکول بند ہو چکے۔مگر سابقہ اسکولوں کی اردگرد کی زمین میں دبائی گئی بچوں کی لاشیں برآمد ہوتی رہتی ہیں۔حالیہ ماہ مئی میں بھی ایک اقامتی اسکول سے ’’251‘‘ریڈ انڈین بچوں کی لاشیں نکلیں تو کینیڈا میں ہنگامہ برپا ہو گیا تھا۔

جدید دور کے دانشوروں کی رو سے کینیڈین حکومت کی سرپرستی میں چلنے والے اقامتی اسکولوں میں دراصل ریڈ انڈین بچوں کی ’’ثقافتی نسل کشی‘‘(cultural genocide )کی گئی۔ایک اقامتی اسکول میں زیر تعلیم رہنے والے ریڈ انڈین،جارج مینویل نے ان اسکولوں کے ماضی کی چھان بین کرنے والے سرکاری کمیشن کو بتایا:’’اپنے اقامتی اسکول سے میری صرف تین یادیں وابستہ ہیں… بھوک، زبردستی انگریزی بلوانا اور  اساتذہ کا مجھے کافر کہنا۔‘‘

خلا میں معلق

سوا سال  کام کرنے والے ان اقامتی اسکولوں میں ڈیرھ لاکھ ریڈ انڈین بچے زیر تعلیم رہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد رفتہ رفتہ انھیں بند کیا گیا۔آخری ایسا اقامتی اسکول 1996ء میں بند ہوا۔ان اقامتی اسکولوں کی وجہ سے ہزارہا ریڈ انڈین بچے اپنے والدین اور رشتے داروں سے بچھڑ گئے اور انھیں ماں باپ کی شفقت و محبت نصیب نہ ہوئی۔اس ظلم نے کئی ریڈ انڈین خاندان تباہ کر ڈالے۔بیشتر بچوں کی زندگیاں بھی تباہ حال حالت میں گذریں۔وہ اپنی زبان اور تہذیب وثقافت اور رسوم ورواج سے کٹ کر جیسے خلا میں معلق ہو گئے۔

اقامتی اسکولوں میں کئی ریڈ انڈین بچوں کو ظلم وتشدد بلکہ جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیا۔جب یہ بچے بڑے ہوئے تو مقامی انتظامیہ نے انھیں زبردستی ریڈ انڈین کے درجے سے نکال کر انگریز (یا فرانسیسی)بنا ڈلا۔یہ بچے مادری زبان اور اپنی تہذیب وثقافت سے ناآشنا تھے،اسی لیے ریڈ انڈینز کے معاشرے میں جذب نہ ہو سکے۔دوسری طرف یورپی انھیں تعصب اور نفرت سے دیکھتے ۔گویا ان مظلوم اور بیچارے ریڈانڈینز کو اپنی دنیا بسانی پڑی جو شراب نوشی،ڈپریشن ،جرائم حتی کہ خودکشیوں سے عبارت تھی۔

کئی عشروں بعد کینیڈین حکمران طبقے کو احساس جرم اور شرمندگی ہوا تو اس نے جون 2008ء میں ایک کمیشن(Truth and Reconciliation Commission)بنا دیا۔مُدعا یہ تھا کہ کمیشن اقامتی اسکولوں کے بارے میں سچائی کھوج سکے۔ارکان کمیشن  نے اقامتی اسکولوں میں مقیم رہنے والے سات ہزار ریڈانڈینز اور دیگر عملے سے انٹرویو کیے۔تفتیش کے بعد یہی حقیقت افشا ہوئی کہ ا ن اسکولوں میں کینیڈا کے ریڈ انڈین قبائل ’’ثقافتی نسل کشی‘‘کا نشانہ بنے۔ کینیڈین مغربی النسل لوگوں کی تاریخ میں یہ باب  ان کے دامن پہ لگا مکروہ سیاہ دھبہ ہے جو ان کا ظلم وشقاوت بھی عیاں کرتا ہے۔

 نفرت پہ مبنی پیغامات

ماضی میں ریڈ انڈین یورپی نسل پرستی اور تعصب کا شکار ہوئے تو زمانہ حال میں مسلمان اسلاموفوبیا کے زیراثر یورپی انتہاپسندوں کے حملوں کی زد میں آ چکے۔جب پچھلے سال ڈاکٹر جاوید سکھیرا لند ن پولیس سروس بورڈ کے سربراہ مقرر ہوئے تو وہ بھی اسلاموفوبیا اور نسلی تعصب کا نشانہ بن گئے۔

انھوں نے حال ہی میں کینیڈا کے ممتاز اخبار،ٹورنٹو اسٹار کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے بتایا:’’میں جب سے بورڈ کا سربراہ بنا ہوں،مجھے نفرت پہ مبنی کئی پیغامات مل چکے۔مجھے اور بورڈ کے ایک مسلم رکن کو غلیظ گالیاں اور دہمکیاں دی گئیں۔مجھے ذاتی تجربات دوسروں کے سامنے رکھنا پسند نہیں۔مگر کینیڈین عوام کو یہ ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ اس مملکت میں اگر کوئی شہری مسلمان  یا کسی اقلیت سے تعلق رکھتا ہے تو اسے نفرت اور تعصب کا شکار ہونا پڑتا ہے۔‘‘

پاکستانی خاندان کا قاتل،بیس سالہ سفید فام نوجوان،نیتھنل ولٹمین صوبے اونٹاریو کے جنوب مغربی علاقے میں واقع بستی،سٹراتھروے میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا۔مقامی دانشور بتاتے ہیں کہ یہ علاقہ تاریخی طور پر نسل پرست اور سفید فام برتری کے قائل سفید فاموں کی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔اس علاقے میں ان کی تنظمیں وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہیں۔بابرا پیری اونٹاریو ٹیک یونیورسٹی کے مرکز برائے نفر ت وانتہا پسندی(Centre on Hate, Bias and Extremism)کی سربراہ ہیں۔کہتی ہیں:’’آج سے تیس چالیس سال پہلے جنوب مغربی اونٹاریو میں کئی انتہا پسند سفید فام گروہ سرگرم تھے۔ہملٹن،لندن اور ونڈسر کے شہروں میں خصوصاً وہ بہت متحرک رہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان کی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں مگر ختم نہیں ہوئیں۔‘‘

تین سو سے زائد تنظیمیں

کینیڈا میں نسلی تعصب ونفرت سے نبردآزما ایک این جی او،کینیڈین اینٹی ہیٹ نیٹ ورک (Anti-Hate Network)کے سربراہ،برنی فاربر بھی باربرا پیری سے اتفاق کرتے ہیں۔کہتے ہیں:’’ٹورنٹو سے ونڈسر تک کے علاقے میں انتہا پسند سفید فام ملتے ہیں۔یہ لوگ مسلمانوں،سیاہ فاموں ،ریڈ انڈینوں اور یہود کے مخالف اور دشمن ہیں۔مئیر لندن کا کہنا ہے کہ یہ شہر پُرامن مقام ہے۔مگر اسی شہر میں دوسری جنگ عظیم سے ایسے محلے موجود ہیں جہاں سفید فام برتری کے پیرکار بڑی تعداد میں بستے ہیں۔‘‘

کو کلکس کلان(Ku Klux Klan)امریکی سفید فام انتہا پسندوں کی قائم کردہ مشہور تنظیم ہے۔اس کے ارکان سیاہ فاموں پر حملوں میں ملوث رہے ہیں۔1924ء میں کینیڈا میں اس متشدد تنظیم کی پہلی شاخ ٹورنٹو میں کھولی گئی۔جب کہ دوسری شاخ لندن میں قائم ہوئی۔

اس حقیقت سے آشکارا ہے کہ لندن کئی عشروں سے صوبہ اونٹاریو میں انتہا پسند سفید فاموں کی سرگرمیوں کا اہم مرکز رہا ہے۔پچھلے ایک سو برس کے دوران کینیڈا میں نسلی تعصب اور سفید فام برتری کی پرچارک کئی تنظیمیں وجود میں آ کر قصّہ پارنیہ بن چکیں۔قابل ذکر بات یہ کہ نفرت کی مبلغ ایسی تنظیمیںآج بھی جنم لیتی ہیں اور ان کے نظریات کینیڈین نئی سفید فام نسل میں پھیل چکے۔سوشل میڈیا نے یہ شر انگیز نظریات پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔

باربرا پیری انکشاف کرتی ہیں کہ فی الوقت کینیڈا میں نسل پرستی ،سفید فام برتری اور اسلاموفوبیا کی نمائندہ ’’تین سو سے زائد‘‘تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ان میں سے بعض کا دائرہ اثر محدود ہے۔دیگر نے پورے ملک میں شاخیں کھول رکھی ہیں اور لاکھوں سفید فاموں تک رسائی رکھتی ہیں۔یہ تنظیمیں کبھی  سرگرم ہو جاتی ہیں اور کبھی فعال نہیں رہتیں۔لیکن سرزمین کینیڈا پر ان کا وجود باقی رہتا ہے۔کینیڈین پارلیمنٹ کا سیاہ فام رکن،میتھیو گرین ہملٹن شہر میں پیدا ہوا۔وہ بتاتا ہے:’’مجھے بچپن ہی میں علم ہو گیا کہ ہمارے دیس میں سفید فام برتری کے قائل افراد ملتے ہیں۔جب بڑا ہوا تو انتہا پسند گورے سڑکوں پر ہمارا پیچھا کرتے۔ہم سیاہ فاموں کو گالیاں دیتے اور ہمیں نقصان پہنچانے کی ہر ممکن سعی کرتے۔ہم کبھی ان سے مقابلہ کر لیتے تو کبھی کنی کترا جاتے۔سچ یہ ہے کہ نسل پرستی اونٹاریو ہی نہیں پورے کینیڈا میں ملتی ہے۔اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔‘‘

 ’’غصیلا‘‘، ’’ناراض‘‘ اور ’’متشدد‘‘

اس دوران سلمان افضال کے خاندان کی تین نسلیں شہید کرنے والے بیس سالہ نوجوان،نیتھنل ولٹمین کے متعلق کچھ معلومات منظرعام پہ آ چکیں۔اس کا تعلق ایک ٹوٹے پھوٹے خاندان سے ہے۔ماں باپ میں نبھ نہ سکی اور چند سال پہلے ان کی طلاق ہو گئی حالانکہ وہ چھ بچوں کے والدین  تھے۔اس طلاق نے نیتھنل کو ’’غصیلا‘‘، ’’ناراض‘‘ اور ’’متشدد‘‘بنا دیا۔اکثر وہ ماں سے لڑ پڑتا۔ماں کو مارنے دوڑتا تو وہ خوفزدہ ہو کے خودکو کمرے میں بند کر لیتی۔وہ پھر والدین سے الگ ہو کر اپنے بل بوتے پہ زندگی گذارنے لگا۔کالج میں تعلیم جاری رکھی اور انڈوں کے ایک فارم میں جزوقتی ملازمت کرنے لگا تاکہ اپنے اخراجات کی خاطر رقم کما سکے۔

خاص بات یہ کہ وہ سلمان افضال کے گھر کے قریب ایک اپارٹمنٹ میں مقیم تھا۔گویا نیتھنل آتے جاتے اس پاکستانی فیملی کو دیکھتا ہو گا۔یہ مسلم خاندان اکثر رات کو چہل قدمی کرنے باہر نکلتا تھا۔تب سبھی خوشی و مسّرت سے باتیں کرنے میں محو ہوتے۔انھیں خوش وخرم دیکھ دیکھ کر نیتھنل میں یقیناً حسد وجلن کے جذبات امڈ آئے۔وہ سوچتا ہو گا کہ اپنا گھرانا ٹوٹ جانے پر وہ دربدر ہو چکا جبکہ یہ مسلم خاندان مزے سے آسائشوں بھری زندگی گذار رہا ہے۔اس باہمی تقابل نے اسے شدید حاسد بنا دیا۔ظاہر ہے ،وہ اس خاندان سے نفرت بھی کرنے لگا تبھی انھیں قتل کرنے کا انتہائی قدم اٹھا لیا۔

نیتھنل لندن شہر میں پھیلے نسل پرستی ،سفید فام برتری اور اسلاموفوبیا کے نظریات سے بھی شناسا ہو گا۔اس امر کی گواہی مقامی سیاسی رہنما،جیف بینٹ دیتے ہیں۔وہ صوبہ اونٹاریو کی سیساسی جماعت، پروگریسو کنزرویٹوزکے رہنما ہیں۔الیکشن 2014ء میں لندن کے ایک حلقے سے امیدوار تھے۔اسی حلقے سے پارٹی ٹکٹ پر لندن کے ممتاز مسلم رہنما،علی چاہ بہار نے حصہ لیا تھا۔جیف بینٹ نے کینیڈین میڈیا کو بتایا:

’’میں انتخابی مہم کا آغاز کر کے گھر گھر جانے لگا۔تب بہت سے لوگوں نے مجھے بتایا، آپ سفید فام ہیں،اسی لیے آپ کو ووٹ دیں گے۔تب مجھے احساس ہوا کہ علی چاہ بہار کو اپنی الیکشن مہم چلاتے ہوئے کتنی مختلف مشکلات کا سامنا ہو گا۔میں لوگوں کا شکریہ ادا کر کے آگے چل پڑتا۔لیکن یہ سوچ کر افسردہ ہو جاتا کہ ان لوگوں نے مجھے صرف اس لیے ترجیع دی کہ میرا نام انگریزی ہے اور جلد سفید!میں جانتا ہوں کہ قاتل(نیتھنل)پک اپ میں تنہا تھا مگر لندن میں وہ اکیلا نہ تھا۔اس شہر میں نسل پرستی اور اسلاموفوبیا کے زہر ملتے ہیں ،اگرچہ شہری یوں ظاہر کرتے ہیں جیسے وہ نہیں پائے جاتے۔‘‘

قاتل کا فوجی گیٹ اپ

غرض حسد و جلن کی آگ میں جلتے نیتھنل ولٹمین میں سفید فام برتری اور مسلم دشمن نظریات نے نفرت کا الاؤ مذید بھڑکا دیا۔اس بات کی تصدیق حقائق سے ہوتی ہے۔جب چھ جون کی رات  پولیس نے گرفتار کیا تو وہ جنگی ہیلمٹ پہنے ہوئے تھا۔بدن پر بھی جنگی جیکٹ چڑھی تھی۔حتی کہ اس نے اپنی پک اپ کو بھی جنگی انداز میں ڈھال لیا تھا۔قمیص پر سفید فام برتری کی مشہور علامت’’سواستیکا‘‘کے نشان ثبت تھے۔نیز وہ نسل پرستانہ نعرے لگا رہا تھا۔یہ حقیقت ہے کہ نیتھنل نے باقاعدہ منصوبہ بندی سے سلمان افضال اور ان کے اہل خانہ کو شہید کیا۔

15مئی کو اس نے سیکنڈ ہینڈ پک اپ خریدی۔اسی دوران اپنا فیس بک پیج ڈیلیٹ پر لگا دیا۔پوری تیاری کر کے چھ جون کی رات وہ حملہ آور ہو ا۔گھناؤنا جرم کرنے کے بعد ایک شاپنگ مال کے پارکنگ اسٹینڈ پہنچا۔اتفاق سے وہاں ایک مسلمان ٹیکسی ڈرائیور موجود تھا۔قاتل اس سے کہنے لگا :’’میں نے قتل کر دیا ہے۔پولیس کو بلاؤ۔‘‘ٹیکسی ڈرائیور نے دیکھا کہ پک اپ کے ہڈ پہ خون لگا ہے۔اسی دوران ایک پولیس کار وہاں سے گزری۔اس نے اشارہ دے کر اسے بلا لیا۔وہ بتاتا ہے کہ قاتل گرفتاری دیتے ہوئے مسلسل ہنس رہا تھا جیسے اس نے کوئی عظیم کارنامہ انجام دیا ہو۔

نیتھنل ولٹمین کی گفتگو اور حرکات کے باعث ہی کینیڈین پولیس جلد جان گئی کہ وہ سفید فام برتری کا پرچارک اور اسلاموفوبیا کا شکار ہے۔اس نے سلمان افضال کی فیملی کو صرف اِس لیے نشانہ بنایا کہ وہ مسلم تھی۔یہی وجہ ہے،قاتل پہ دہشت گردی کی دفعہ بھی لگ چکی جو کینیڈا میں اہم تبدیلی ہے۔پہلے مغربی ممالک میں پولیس مسلمانوں کے قاتلوں کو ’’ذہنی مریض ‘‘یا ’’ڈپریشن زدہ ‘‘قرار دے کر ان کا کیس کمزور بناتی تھی۔لہذا انھیں بہت کم سزا ملتی۔اب لندن پولیس نے نیتھنل کو دہشت گرد قرار دے کر کیس مضبوط بنایا ہے۔یقین ہے کہ اسے سخت سزا ملے گی۔

یہ امر خوش آئند  ہے کہ کینیڈا میں وزیراعظم سے لے کر ہر طبقے کے فرد نے قاتل کی مذمت کی ۔نیز اسلاموفوبیا اور سفید فام برتری کے نظریات کو تنقید کا نشانہ بنایا۔لندن شہر میں ہزارہا سفید فاموں نے جلوس نکال کر مسلمانوں سے اظہار یک جہتی کیا۔اس مثبت طرزعمل سے کینیڈا میں اقلیتوں کے خلاف پھیلے منفی جذبات کم ہوں گے اور معاشرے میں رواداری،برداشت اور محبت رواج پائے گی۔

ایک مسلم لڑکی کی گواہی
پاکستانی نژاد عبیر خان کینیڈا میں پیدا ہوئیں۔ آج کل ٹورنٹو یونیورسٹی میں صحافت کی تعلیم پا رہی ہیں۔لندن واقعہ کے بعد ان کی درج ذیل تحریر کینیڈین اخبار’’ٹوررنٹو سٹار‘‘میں شائع ہوئی۔
٭٭
ضرب کا سوال سمجھنے سے قبل میں واقعہ نائن الیون سے واقف ہوئی۔پھر ہر سال ستمبر کے اس دن مجھے خوف آنے لگتا کیونکہ میں کلاس میں واحد مسلم لڑکی تھی۔سبھی ہم جماعت مجھے شک وشبے کی نظر سے دیکھتے۔تعلیم پاتے ہوئے مجھے گھٹیا و رکیک لطیفوں کا نشانہ بننا پڑا۔مجھ پہ آوازیں کسی جاتیں اور تضحیک کرنے کی کوشش ہوتی۔مڈل اسکول،ہائی اسکول حتی کہ اب یونیورسٹی میں بھی پیچھے بیٹھتی ہوں تاکہ اس ڈر سے نجات پا سکوں ، کوئی انتہا پسند میرا حجاب اتار دے گا۔میں ایک ایسے معاشرے میں پلی بڑھی جہاں (اکثر)غیر مسلم اپنے بچوں کو مسلمانوں سے نفرت کرنا سکھاتے ہیں۔اس باعث مسلم بچے بچیاں معصومیت ولاعلمی کے دور میں ہوتے ہیں کہ انھیں اسلاموفوبیا سے واسطہ پڑ جاتا ہے اور وہ کچھ سمجھ نہیں پاتے۔اس ہفتے ایک سفید فام نے چار مسلمانوں کو شہید کر دیا۔وہ صرف بیس سال کا ہے پھر بھی اس میں ان مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت بھری تھی جنھیں وہ جانتا بھی نہ تھا۔

کینیڈین غیرمسلم یہی کہتے ہیں:’’کینیڈا ایسا نہیں۔‘‘اور ’’ہم کٹّر نہیں۔‘‘حقیقتاً کینیڈین معاشرے میں مسلمانوں سے ناپسندیدگی کے واقعات عموماً رونما ہوتے ہیں۔میرا ان سے پالا پڑا اور میرے بچوں کو بھی پڑے گا۔یہ سمجھنا بے وقوفی ہے کہ بیس سالہ نوجوان تنہا تھا، وہ ’’حقیقی کینیڈا‘‘کا نمائندہ نہیں اور یہ کہ خیالات و دعائیں صورت حال بدل دیں گی۔سچ یہ ہے کہ ماضی میں مسلمانوں پہ ایسے کئی حملے ہو چکے اور مستقبل میں بھی ہوں گے۔وجہ یہ کہ کینیڈا میں سیاست داں اور میڈیا اسلاموفوبیاپھیلاتے ہیں۔ان کے زہریلے پروپیگنڈے کی وجہ سے غیرمسلم منصوبہ بندی کر کے مسلمانوں پہ حملے کرتے ہیں۔

چند دن قبل انکشاف ہوا کہ ہملٹن شہر میں ایک غیرمسلم ڈاکٹر مسلم نوجوان، یوسف حسنوی کو بروقت جان بچانے والی ادویہ نہ دے سکا۔یوسف چل بسا۔وہ صرف انیس سال کا تھا۔اسی طرح اکثر سننے کو ملتا ہے کہ فلاں غیرمسلم نے مسلم خاتون کا حجاب کھینچ کر اتار دیا۔جب غیر مسلم مرد زیادہ ہوں تو وہ کسے نہتے مسلمان پہ حملہ کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔صوبہ کیوبک میں اب کوئی سرکاری مسلم خاتون حجاب نہیں لے سکتی۔یہ تمام واقعات اسی لیے پیش آئے کہ کینیڈا میں کئی عشروں سے اسلاموفوبیا پھیل رہا ہے۔میں بچپن سے یہ مظہر دیکھ رہی ہوں۔جب چھٹی جماعت میں تھی تو میری کلاس میں دو مسلم بچے آئے۔ان کے خاندان نیویارک رہتے تھے۔واقعہ نائن الیون کے بعد انھیں شدید تعصب ونفرت کا سامنا کرنا پڑا۔چناں چہ وہ امریکا کو خیرباد کہہ کر کینیڈا چلے آئے۔مجھے تب خوشی ہوئی کہ وہ کینیڈا میں محفوظ ومامون ہیں۔مگر میں بھی کتنی معصوم وانجان تھی!اب گیارہ سال بعد مجھے احساس ہوتا کہ تحفظ کا احساس جھوٹا اور خام تھا۔

ہم مسلمان امن پسند ہیں۔ہمیں اجنبیوں اور غیر مسلموں کے ساتھ رواداری و برداشت کے ساتھ رہنا سکھایا جاتا ہے۔ہماری زندگیاں بھی ہر انسان کی طرح قیمتی ہیں۔ہم بھی کینیڈا میں عزت واحترام سے اور با تحفظ رہنا چاہتے ہیں۔مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جب غیر مسلم اقلیتوں سے محبت آمیز سلوک کریں،ان کے دکھ درد جانیں ،سب سے بڑھ کر اپنے بچوں کو مسلمانوں اور اقلیتوں سے نفرت نہیں پیارمحبت کرنا سکھائیں۔پھر ہی کینیڈا میں بہتر،ہمدرد اور محبت پہ ایمان رکھنے والی نوجوان نسل جنم لے سکے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔