گاندھی پر عتاب کیوں؟

عثمان دموہی  اتوار 27 جون 2021
usmandamohi@yahoo.com

[email protected]

آج بھارت میں گاندھی کی بے حرمتی عام ہے۔ گاندھی کو ولن اور گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو ہیرو قرار دیا جا رہا ہے۔

گاندھی کو سرعام تنقید کا نشانہ بنانے تک ہی بات محدود نہیں رہی ہے۔ گاندھی کی مورتیوں کو بھارت میں جگہ جگہ توڑ پھوڑ دیا گیا ہے اور یہ توڑ پھوڑ بھارت تک ہی محدود نہیں ہے بیرونی ممالک میں نصب گاندھی کی مورتیوں کو بھی توڑ پھوڑ دیا گیا ہے۔ گاندھی پر آج جو افتاد آن پڑی ہے ایسا تو کبھی کسی نے سوچا تک نہیں تھا۔ کہاں اسے بھارت میں مہان نیتا ہی نہیں بھگوان کا اوتار سمجھا جاتا تھا اور آج اس کی یہ ناقدری اسے بھارتی قوم کی احسان فراموشی ہی کہا جاسکتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی لیڈر ہی نہیں بابائے قوم کی خود اس کے اپنے ہی لوگ ناقدری کریں اور اس کی عزت کو تار تار کریں تو ضرور اس شخصیت میں کچھ کھوٹ رہا ہوگا۔ گاندھی نے آزادی کی تحریک ضرور چلائی تھی مگر وہ اس سے پہلے سے ہی چل رہی تھی پھر آزادی تو برصغیر کو ملنا ہی تھی اس لیے کہ دوسری جنگ عظیم میں پھنس کر انگریز اتنے تنگ دست ہوگئے تھے کہ برصغیر ہی کیا دوسرے مقبوضہ علاقوں کے خرچ کو چلانا ان کے بس میں نہیں رہا تھا یہ اور بات ہے کہ وہ ان مقبوضہ ممالک کی دولت کو لوٹ کر پہلے ہی اپنے ملک منتقل کرچکے تھے چنانچہ گاندھی یا نہرو کی آزادی کے لیے بھاگ دوڑ بس نام کی ہی تھی۔

ان کی سیاست کا اصل مقصد پورے برصغیر کو ہندوؤں کی ملکیت بنانا تھا۔ وہ برصغیر کو ٹکڑوں میں بٹنے سے روکنا چاہتے تھے۔ اس طرح وہ اپنے پرکھوں کے بھارت کو متحد اور محفوظ بنانا چاہتے تھے ساتھ ہی مسلمانوں کے ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ انھیں اپنا غلام بنا کر لینا چاہتے تھے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہندوستان کی تمام قوموں کو یکجا رکھنا چاہتے تھے اور اپنا ہمنوا بنانا چاہتے تھے جس کے لیے گاندھی نے مسلمانوں کو اپنی جھوٹی محبت کے جال میں پھانسنا شروع کردیا تھا۔

کئی مسلمان رہنما اور حتیٰ کہ عالم دین تک گاندھی کی چال میں پھنس کر متحدہ ہندوستان کی آزادی کے نظریے کے حامی بن گئے تھے۔ مگر مسلمانوں کی اکثریت جناح کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کی جدوجہد میں شریک تھی۔

مسلمانوں کے علیحدہ وطن کا مطالبہ تو ایک طرف تھا ادھر برصغیر کے دلت یعنی نیچ ذات کے ہندو جو اعلیٰ ذات کے ہندوؤں سے اکثریت میں تھے مگر صدیوں سے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے ظلم و ستم سے تنگ تھے اب اپنے لیڈر ڈاکٹر امبیڈکر کی رہنمائی میں اپنے لیے بھی ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کر رہے تھے جس کی وجہ سے ہندوستان کا کچھ ہی حصہ اونچی ذات کے ہندوؤں کے ہاتھ لگتا کیونکہ دلتوں اور مسلمانوں کو ان کے حصوں کو دینے کے بعد برصغیر کا بڑا حصہ ان کے کنٹرول میں چلا جاتا جب کہ گاندھی پورے برصغیر پر اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کا کنٹرول چاہتے تھے۔

چنانچہ گاندھی نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایک طرف مسلمانوں کو رام کرنا شروع کیا تو دوسری طرف دلتوں کو علیحدگی سے روکنے کے لیے اپنا بہروپ بدلا اور لنگوٹی و لاٹھی کا سہارا لے کر دلتوں کے گاؤں، گاؤں اور محلوں محلوں کا دورہ شروع کردیا۔ ان سے پیار محبت کا برتاؤ کرکے انھیں یہ یقین دلایا گیا کہ آزادی کے بعد وہ اچھوت نہیں کہلائیں گے انھیں بڑی ذات کے ہندوؤں کی طرح عزت دی جائے گی جب کہ یہ سب فریب تھا جسے ڈاکٹر امبیڈکر خوب سمجھ چکے تھے چنانچہ ڈاکٹر امبیڈکر نے گاندھی کے خلاف مہم چلائی مگر دلت گاندھی کے بہروپ سے دھوکا کھا گئے اور علیحدہ وطن کے مطالبے سے باز آگئے۔

جہاں تک گاندھی کا مسلمانوں سے قربت رکھنے کا معاملہ تھا تو وہ مسلمانوں کے علیحدہ وطن کے مطالبے کو مسلمان علما کی مدد سے ہی روک سکتے تھے چنانچہ مولانا آزاد جیسے سرکردہ مسلمان عالم دین کو اپنے ساتھ ملا کر کانگریس کا اعلیٰ عہدیدار بنا دیا گیا۔ گاندھی اپنے منصوبے کے تحت مسلمانوں سے محبت اور بھائی چارے کا برتاؤ کر رہے تھے مگر ادھر ان کی مسلمانوں میں دلچسپی لینے کی وجہ سے ہندوؤں کا ایک مسلمان دشمن طبقہ گاندھی کو اپنا دشمن سمجھنے لگا۔ یہ طبقہ آر ایس ایس سے تعلق رکھتا تھا جو مسلمانوں کو برصغیر سے باہر دھکیلنے یا پھر انھیں ختم کرنے کا عزم رکھتا تھا۔

قیام پاکستان کو روکنے میں ناکام رہنے کی پاداش میں آر ایس ایس کے ایک شیدائی ناتھو رام گوڈسے نے گاندھی کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ گاندھی کی ہلاکت پر قائد اعظم نے پاکستان میں ایک دن کے سوگ کا اعلان کیا تھا پاکستانی پرچم سر نگوں کردیا گیا تھا مگر جب قائد اعظم کی وفات ہوئی تو گاندھی کے چیلے کانگریسیوں نے اس کا جواب ریاست حیدرآباد پر اچانک قبضہ کرکے دیا تھا۔ اس ریاست میں کئی روز تک قتل عام جاری رہا اور بالآخر حیدرآباد کو جبراً بھارتی یونین میں شامل کرلیا گیا تھا۔

قائد اعظم نے گاندھی کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا تھا کیونکہ وہ ایک انسان شناس شخص تھے وہ دراصل گاندھی کو اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ وہ کیا چیز ہیں۔ قائد اعظم کی گاندھی کے بارے میں سوچ کی تصدیق ڈاکٹر امبیڈکر کی گاندھی کے بارے میں اس بیان سے بھی ہو جاتی ہے ’’گاندھی اوپر سے کچھ اور اندر سے کچھ ہیں۔ ان کی سماج سدھارنے کی مہم صرف ایک دکھاوا ہے۔

ان کے دلتوں سے پیار و محبت کے اظہار کا مقصد ان کی بڑی تعداد کے ذریعے بٹوارے میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے لیے برصغیر کا بڑا حصہ حاصل کرنا تھا، یہ حقیقت ہے جسے سب ہی مانتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو قائد اعظم جیسا وکیل نہ ملتا تو شاید کبھی بھی پاکستان کا قیام عمل میں نہ آتا۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ کھل کر پاکستان کی مخالفت کر رہا تھا جس کے سرخیل مولانا آزاد تھے مگر ان کے مقابلے میں ایک مغربی تعلیم یافتہ شخص کے نظریے کو انھوں نے دل و جان سے قبول کیا اور قیام پاکستان کی جدوجہد میں شامل ہوکر ایک علیحدہ وطن حاصل کرلیا۔

اب جب کہ بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے اور انھیں ملک سے باہر نکالنے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں تو فاروق عبداللہ جیسے لوگ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ان کے والد نے جناح کا کہنا نہ مان کر اور ان کے نظریے کی مخالفت کرکے سخت غلطی کی تھی۔ قائد اعظم کی سیاسی بصیرت کے خود ان کے دشمن معترف تھے پنڈت نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت نے کہا تھا ’’اگر مسلم لیگ کے پاس ایک سو گاندھی اور دو سو ابوالکلام آزاد ہوتے اور کانگریس کے پاس صرف ایک جناح ہوتا تو ہندوستان کبھی بھی تقسیم نہ ہوتا۔‘‘

اس سے صاف ظاہر ہے کہ گاندھی کے ساتھ آج جو ہو رہا ہے وہ ان کے بہروپ کی سزا ہے مگر قائد کی عظمت کو کبھی گزند نہیں پہنچ سکتی کیونکہ وہ ایک سچے اور کھرے انسان اور صاحب بصیرت سیاستدان تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔