کچلی ہوئی نفسیات

فاروق عادل  پير 28 جون 2021
farooq.adilbhuta@gmail.com

[email protected]

کبھی آپ نے سوچا کہ رات کے دن میں بدلتے ہی دنیا بدل جائے؟ ایوان صدر میں بچوں کا ہجوم جمع ہو، صدر مملکت غور سے انھیں دیکھیں پھر ایک بچے کا ہاتھ پکڑ وقار سے چلتے ہوئے اپنی کرسی تک پہنچیں اور پیچھے ہٹتے ہوئے کہیں:’لو بیٹا! آج تم اس پر بیٹھو گے‘۔پھر وہ بچہ سربراہ مملکت کی نشست سنبھال کر سوچے کہ آج نہیں تو کل یہ ملک، یہ دنیا اس کے ہاتھوں میں ہوگی اور وہ بڑے بڑے فیصلے کیا کرے گا یا پھر پارلیمنٹ میں انقلاب آچکا ہو، اسپیکر، وزیر اعظم، وزرا اور قائد حزب اختلاف ہی نہیں، سارے کے سارے ارکان کی نشستوں پر بچے قابض ہوں اور نشستوں پر بیٹھنے والے اوپر مہمانوں کی گیلری میں بیٹھے دلچسپی سے اپنے بچوں کو دیکھتے ہوں کہ دیکھیے، آج وہ کس خوبی سے نظام مملکت چلاتے ہیں۔

اس طرح سوچنے اور غور کرنے کے کچھ مناظر میں آپ کے سامنے اور بھی پیش کرسکتا ہوں لیکن مجھے ڈر ہے کہ آپ خفا ہو جائیں گے، ہو سکتا ہے کہ میری ذہنی صحت کے بارے میں بھی کچھ سوالات اٹھا دیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا سب کچھ ہوتا ہے اور کسی اجنبی اور خیالی دنیا میں نہیں ہوتا، ہمارے اپنے جانے پہچانے خلیل طوقار کے دیس یعنی ترکی میں ہوتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ترکی میں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ابھی حال میں جب کچھ بزرگوں کی عجیب و غریب تصویریں اور وڈیوز دیکھ کر ہمارے سر شرم سے جھک گئے تو اس واقعے کی یاد آئی نیز ایک کہانی کی۔

یہ واقعہ ترکی کا ہے اور کہانی ہمارے اپنے جانے پہچانے ملانصرالدین(براہ کرم اسے نصیر الدین نہ کیا جائے، ان کا اصل نام نصرالدین ہے)کی۔ وہ بڑے تکلیف کے دن تھے، وہ کوئی عمران نامی درندہ تھا جس نے قصور کی ایک معصوم کلی کے ساتھ زیادتی کی پھر اسے مسل کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ اس خبر اور اس سے متصل خبروں کے ہجوم نے جو صدمہ پہنچایا، وہ اپنی جگہ لیکن اس کے ساتھ ہی ایسی خبروں کا طوفان آگیا جن سے تاثر یہ بنا کہ اس معاشرے میں دو، چار، دس یا ہزار پندرہ سو لوگ ہی بیمار نہیں پورا معاشرہ ہی ذہنی مریضوں پر مشتمل اور ذہنی بلوغت سے دور ہے۔ دکھ کی اس کیفیت میں خلیل طوقار برؤئے کار آئے اور بتایا کہ یہ جس عذاب سے آپ گزر رہے ہیں، اس سے نمٹنے کی ایک تدبیر صدی بھر پہلے غازی مصطفی کمال اتا ترک نے سوچی تھی اور کہا تھا کہ بچوں کو اعتماد سے بھر دو، معاشرے سے جرم کی جڑیں کمزور ہوجائیں گی۔

غازی مصطفی کمال اتا ترک نے یہ سوچا ، بچوں کا دن منانے کا فیصلہ کیا اور بچوں کو اس دنیا کا مستقبل قرار دیا پھر سوچا کہ بچے اگر واقعی دنیا کا مستقبل ہیں اور ان کا دن بھی منانا ہے تو پھر کیوں نہ یہ پورے کا پورا دن اور اس دن کا اختیار بھی ان کے سپرد کردیا جائے، انھوں نے یہ سوچا اور اس پر عمل کر دکھایا۔ترکی میں گزشتہ پوری ایک صدی سے یہ دن منایا جاتا ہے اور معاشرے میں اسے عید کے برابر اہمیت دی جاتی ہے، یہاں تک کہ بچوں کو عیدی کی طرح نقدی اور تحائف بھی پیش کیے جاتے ہیں۔

بھائی خلیل طوقار نے یہ ماجرا سناتو دیا لیکن سوال یہ پیدا ہوا کہ اس دن کا تعلق جگر چھلنی کر دینے والے ان واقعات سے کیا ہے جن کا ذکر پڑھ اور سن کر طبیعت میں کلفت پیدا ہوتی ہے اور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر ایسی بھی کیا حیوانیت کہ کوئی انسان اپنی تمام تر بزرگی، مذہبیت اور دین داری کے باوجود ایک وقت میں انسانیت کا چولا اتار کر جانور بن جائے؟ بھائی خلیل نے یہ سوال توجہ سے سنا، کچھ دیر خاموش رہے پھر کہا کہ اس جرم کا تعلق کچلی ہوئی انسانی نفسیات کے ساتھ انتہائی گہرا ہے۔ جن بچوں کا بچپن مسل کر اسے داغ دار بنا دیا جاتا ہے، ان کی نفسیات میں پڑی ہوئی گرہیں انھیں زندگی بھر کے لیے نفسیاتی طور پر بیمار بلکہ اپاہج بنا دیتی ہیں۔ہمارے بزرگوں نے یہ سوچا کہ کیوں نہ بچوں میں اعتماد پیدا کر کے ان کی خودی کو مضبوط بنا دیا جائے۔

بچوں کی یہ عید بھی بچوں میں اعتماد پیدا کرنے کی حکمت عملی سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کے اندر اعتماد پیدا ہوتا ہے ، جرم سے نفرت اور مجرم کا ہاتھ جھٹک دینے کی ہمت پیدا ہوتی ہے، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ بیمار ذہنیت محدود تر ہو جاتی ہے جس کے مختلف شرم ناک مناظر دیکھ کر ہم ان دنوں شرمسار پھرتے ہیں تو پتہ یہ چلا کہ یہ غربت اور اعتماد کی کمی ہے جو بچوں کا بچپن تار تار کرتی ہے پھر اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلتا ہے اور پورا معاشرہ قعر مذلت میں جا گرتا ہے۔

ڈاکٹر خلیل طوقار یہ کہہ کر خاموش ہو گئے مجھے اپنی ایک کتاب پیش کی۔ اصل میں یہ کتاب ان کی بھی نہیں بلکہ ترک لوک ورثے سے تعلق رکھنے والی حکایتیں ہیں جنھیں عرف عام میں ملا نصرالدین کی حکایتوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان کتابوں کا بڑا دل نشیں ترجمہ کیا ہے۔ کتاب کی ورک گردانی کرتے کرتے ایک کہانی پر نظر پڑی تو میرا ماتھا ٹھنکا۔ یہ ایک بادشاہ کی کہانی تھی جو کسی غلطی پر اپنے کسی ملازم سے ناراض ہوا تو اسے غلطیوں سے بھرا ہوا کاغذوں کا پلندہ کھانے پر مجبور کیا پھر اسے ملازمت سے برخواست کر کے ملا کا تقرر اس کی جگہ پر کر دیا۔

بادشاہ سلامت ایک روز ملا نصرالدین کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے ان کے دفتر پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ملا جو دستاویز بھی تیار کرتے اور جو کچھ بھی لکھتے، روٹی پر لکھتے۔ بادشاہ یہ دیکھ کر حیران ہوئے اور سوال کیا کہ ملا یہ کیا؟ ملا نے اپنی پیشانی سہلائی اور کہا کہ اگر مجھ سے بھی کوئی غلطی ہو گئی تو سزا بھگتنے میں تھوڑی آسانی رہے گی۔

خلیل طوقار کہتے ہیں کہ بچوں میں اعتماد پیدا کرنے کا یہ فلسفہ دراصل ترک لوک دانش سے اخذ کیا گیا ہے۔ بات یہ ہے کہ لوک دانش کے معاملے میں ہمارا معاشرہ بھی کچھ کم نہیں لیکن گزشتہ سات آٹھ دہائیوں میں ہمارے ساتھ بہت کچھ گڑبڑ ہو گیا،علمی، تعلیمی حتیٰ کہ دینی روایت تک کو زمین سے کاٹ کر ہم کہیں خلا میں جا بسے ہیں جس کے نتیجے میں نہ دین کی تعلیمات ہمارے جسم و جاں کا حصہ بن سکی ہیں اور نہ دنیا کی تعلیم ہمارا کچھ بگاڑ پائی ہے۔ تو اصل بات ہے کہ جب تک ہم لوگ زمین سے رشتہ جوڑنے میں کامیاب نہیں ہوتے اور جو کچھ ہم سیکھتے ہیں، اسے حلق سے نیچے اتار کر زندگی کا جزو نہیں بناتے، معاشرے میں نام نہاد مفتی پیدا ہوتے رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔