تحقیق پر توجہ دینے سے جامعہ پنجاب کی عالمی رینکنگ بہتر ہوئی:پروفیسر ڈاکٹر نیاز اختر

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 28 جون 2021
 حکومت بجٹ میں اضافہ کرے تو اس میں مزید بہتری لائی جاسکتی ہے، سوشل انٹرپرینیورشپ کے فروغ کیلئے طلبہ کو سرمایہ فراہم کر رہے ہیں

 حکومت بجٹ میں اضافہ کرے تو اس میں مزید بہتری لائی جاسکتی ہے، سوشل انٹرپرینیورشپ کے فروغ کیلئے طلبہ کو سرمایہ فراہم کر رہے ہیں

پنجاب یونیورسٹی پاکستان کا ایک معتبر تعلیمی ادارہ ہے جس کا شمار دنیا کی بہترین جامعات میں ہوتا ہے۔

گزشتہ تین برسوں میں اس کی عالمی درجہ بندی میں 16 فیصد بہتری آئی ہے، یونیورسٹی کے تعلیمی نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا گیا ہے، ریسرچ پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف اور سوشل انٹرپرینیور شپ سمیت مختلف شعبہ جات میں بھی کام ہو رہا ہے۔

ان معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے گزشتہ دنوں ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد اختر کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا جہاں ان سے شعبہ تعلیم کے مختلف پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو ہوئی جس کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد اختر

(وائس چانسلرجامعہ پنجاب)

2002ء سے پہلے ملک میں ہائر ایجوکیشن کی ڈائریکشن درست نہیں تھی، کالج کی طرح ہی یونیوسٹیوں میں تعلیم دی جاتی تھی اور ریسرچ پر کوئی توجہ نہیں تھی مگر ہائر ایجوکیشن کمیشن کی تشکیل کے بعد سے اب تک بہت بہتری آئی ہے۔

ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے جامعات کو فنڈز دیے، ریسرچ پر کام ہوا، اساتذہ نے بھی اس پر توجہ دی جس کے بعد سے اب پاکستان میں ہائر ایجوکیشن سیکٹر بہترین کام کر رہا ہے۔ ملکی جامعات دنیا کی بہترین جامعات کے مقابلے میں کسی بھی لحاظ سے کم نہیں ہیں۔ ہمارا نصاب تعلیم، لیبارٹریاں، اساتذہ ودیگر معاملات عالمی معیار کے مطابق ہیں اور یہاں معیاری تعلیم کے پیرامیٹرز کو مکمل طور پر حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے البتہ بعض ایسے ایریاز ہیں جہاں بہتری کی گنجائش موجود ہے اور ان پر کام بھی ہورہا ہے۔

پاکستانی انجینئرز کی بات کریں تو ان کا شمار دنیا کے بہترین انجینئرز میں ہوتا ہے۔ امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا جیسے ممالک سمیت دنیا میں جہاں بھی انجینئرز کی ضرورت ہو وہاں پاکستانی انجینئرز کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور وہ خالی آسامیوں پر اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔ ایسی ہی صورتحال دیگر شعبوں کے حوالے سے بھی ہے۔ شعبوں کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے ہاں انجینئرنگ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، لائف سائنسز جیسے شعبے تو بہتر ہیں مگر لائف سائنسز اور آرٹس کے شعبے کافی پیچھے ہیں لہٰذا ان پر کام کرنا ہوگا، ان کے نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔

اس کے لیے اساتذہ کی تربیت اور اپ گریڈیشن بھی ضروری ہے۔ پنجاب یونیورسٹی نے گزشتہ برس اپنے سسٹم کا جائزہ لیا جس میں نصاب، نظام تدریس و دیگر معاملات شامل تھے۔ اس کے بعد ہم نے گزشتہ برس ہی اپنے نصاب کو جدید تقاضوں کے مطابق اَپ گریڈ کیا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر دنیا کے ساتھ مقابلہ کرنا اور اس ریس میں شامل ہونا ہے تو ہمیں اپنے نظام تعلیم کو بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔2018ء سے پہلے کسی نے پنجاب یونیورسٹی کی عالمی رینکنگ کیلئے اپلائی نہیں کیا۔  اساتذہ بھی ڈرتے تھے کہ رینکنگ خراب آئی تو کیا ہوگا۔

میں سمجھتا ہوں کہ جب  ہم ریس میں شامل نہیں ہوں گے، ہمیں اپنی اچھائیوں اور خامیوں کا معلوم نہیں ہوگا، ہمیں عالمی معیارات کا علم نہیں ہوگا تو کس طرح ہم اپنے ادارے کو بہتر کریں گے لہٰذا ہم نے 2018ء میں عالمی رینکنگ کیلئے اپلائی کیا اور دنیا کے78 فیصد بہترین اداروں میں شامل ہوگئے اور اب تک اس رینکنگ میں بتدریج بہتری آرہی ہے۔ 2019ء میں 73 فیصد، 2020ء میں 68 فیصد جبکہ رواں سال ہم 61.6 فیصد پر کھڑے ہیں۔

محض تین برسوں میں ہماری درجہ بندی میں 16 فیصد بہتری آئی ہے جو یقینا حوصلہ افزاء ہے۔ 3 سال قبل ایک بھی فیکلٹی رینکنگ میں نہیں تھی مگر اس وقت پنجاب یونیورسٹی پاکستان کا واحد ادارہ ہے جس کی 13 فیکلٹیزعالمی رینکنگ میں شامل ہیں جبکہ کیمیکل انجینئرنگ اور پٹرولیم اینڈ گیس میں پنجاب یونیورسٹی کا شمار دنیا کی 150 بہترین جامعات میں ہوتا ہے۔

اس وقت ہمارے پاس 1350 اساتذہ ہیں اور ہم ان کی ٹریننگ اور گرومنگ پرخصوصی کام کر رہے ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی اورپرفارمنس بہتر بنانے کیلئے انہیں کارکردگی کی بنیاد پر ایوارڈ، مقالہ جات چھپنے پر 25 ہزار روپے، ریسرچ کیلئے فنڈز، تعلیم اور تجربے کی بنیاد پر ترقی و دیگر سہولیات دے رہے ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ جتنے اچھے اور قابل اساتذہ ہوں گے، اتنا ہی اچھا نظام تعلیم ہوگا اور اتنے ہی بہتر سٹوڈنٹس ہوں گے۔ ہمارا فیس سٹرکچر بہت کم اور عام آدمی کی پہنچ میں ہے، اس پر کوئی بڑا بوجھ نہیں پڑتا۔ حکومت طلبہ کو مختلف سکالرشپ دے رہی ہے۔

اس کے علاوہ جہاں ضرورت ہو اور کوئی مستحق طالب علم ہو تو میں خود اس کی فیس معاف کر دیتا ہوں۔ یونیورسٹی اپنے 70 فیصد اخراجات خود پورے کر رہی ہے جبکہ 30 فیصد حکومت دیتی ہے اور ہر سال اس بجٹ میں تقریباََ 10 فیصد اضافہ بھی ہو جاتا ہے لیکن اگر یہ بجٹ مزید بڑھا دیا جائے  اور جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ریسرچ اور پر فوکس کیا جائے تو عالمی رینکنگ کو مزید بہتر کیا جاسکتا ہے۔کورونا کی وباء دنیا کیلئے بڑا چیلنج ہے۔ اس میں خصوصاََ آن لائن ایجوکیشن تعلیمی اداروں کیلئے ایک نیا تجربہ تھا۔یہ درست ہے کہ دنیا کی طرح ہم بھی اس کیلئے تیار نہیں تھے اور نہ ہی طلبہ اس طرح کی تعلیم کو سمجھ رہے تھے۔ اس میں ہمارے پاس دو راستے تھے، ایک یہ کہ چھٹیاں دے کر یونیورسٹی دوبارہ کھلنے کا انتظار کیا جائے جبکہ دوسرا یہ کہ دنیا بھر کی طرح آن لائن کلاسز دی جائیں۔

اس میں ہم نے یہ سوچا کہ اگر دنیا اس نظام پر منتقل ہورہی ہے تو ہم کیوں نہیں ہوسکتے؟ دنیا کو یہ پیغام نہیں جانا چاہیے کہ خدانخواستہ پاکستان کا نظام تعلیم فیل ہوگیا ہے لہٰذا ہم نے دن رات محنت کرکے محض 10 دنوں میں اپنی تمام کلاسز آن لائن کر دی تھی اور اس حوالے سے ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی کپیسٹی کو بہتر بنایا۔ اس وقت ہماری کلاسز، امتحانات اور داخلے آن لائن ہورہے ہیں۔ اب کسی کو داخلہ لینے کیلئے یونیورسٹی آنے کی ضرورت نہیں بلکہ سارا کام آن لائن ہوگیا ہے۔

ہم نے روایتی آن لائن ایجوکیشن کے ساتھ ساتھ لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں محصور لوگوں کو مختلف مفت کورسز اور ورکشاپس بھی کروائیں جن میں کچن گارڈننگ وغیرہ شامل ہیں۔ کورونا کی وباء کے دوران پنجاب یونیورسٹی نے بھی اس پر مختلف حوالے سے نہ صرف تحقیق کی بلکہ عملی طور پر کام بھی کیا۔

ہم نے ابتدائی دنوں میں ہی عالمی معیار کے مطابق اس کی کٹ تیار کر لی تھی جس کے بعد ہمارے ادارے نے 1 ہزار سے زائد کٹس تیار کی۔ اس کے علاوہ ہم نے پنجاب یونیورسٹی میں ہی BSL-3 معیار کی کورونا ٹیسٹنگ لیب بنائی ہے۔ یہ ہم نے اپنے وسائل سے ہی کیا ہے اور ابھی تک خود ہی اس پر خرچ کر رہے ہیں۔ ہم نے اپنی تمام فیکلٹی کا مفت ٹیسٹ کیا ہے جبکہ جو نمونے حکومت کی طرف سے بھیجے جاتے ہیں ان کا ٹیسٹ بھی مفت کرتے ہیں۔ اس ٹیسٹ کی لاگت 3300 روپے جبکہ نجی شعبہ اس کے 8000 روپے لے رہا ہے۔ میرے نزدیک پاکستانی جامعات میں بہت پوٹینشل ہے۔

ان پر خصوصی توجہ دینے سے ہم ہر میدان میں دنیا کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔ مقالہ جات کی بات کی جائے تو پنجاب یونیورسٹی کے اب تک ہزاروں تحقیقی مقالہ جات عالمی جرنلز میں چھپ چکے ہیں اور ا نہیں دنیا بھر میں پذیرائی ملی ہے۔ نیچرل سائنسز کے مقالہ جات میں ہماری عالمی رینکنگ نمبر وَن ہے۔ نظام تعلیم کی بہتری کیلئے میری تین تجاویز ہیں۔

پہلی تعلیم میں سرمایہ کاری، دوسری اساتذہ کی ٹریننگ و گرومنگ جبکہ تیسری تعلیمی نصاب کو عالمی معیار سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ تعلیم ایسا شعبہ ہے جس میں سرمایہ کاری کا 100 فیصد ریٹرن ملتا ہے، اس میں منافع بہت زیادہ ہے لہٰذا اس میں سرمایہ کاری کی جائے۔ دنیا آگے نکلتی جارہی ہے، ہر روز نئی ڈویلپمنٹ ہوتی ہے لہٰذا اس مر کو مدنظر رکھتے ہوئے اساتذہ کی ٹریننگ اور گرومنگ کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ انہیں دنیا میں ہونے والی نئی ڈویلپمنٹ، تحقیقات اور نئے طریقوں کا علم ہو۔ اسی طرح تعلیمی نصاب کو اپ گریڈ کرنا بھی انتہائی اہم ہے، اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا چاہیے۔

یہ تین بڑے کام ہیں جبکہ انفراسٹرکچر، سہولیات و دیگر کام اس کے بعد آتے ہیں۔ دنیا بھر کی جامعات بہتر سے بہتر نصاب بنانے کی کوشش کرتی ہیں اور ان میں آپس میں مقابلے کی فضا ہوتی ہے۔ ان کا نصاب اپنی زمین اور وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر سعودی عرب کا کیمیکل انجینئر تیل اور گیس پر زیادہ توجہ دے گا جبکہ پاکستانی کیمیکل انجینئر شوگر، سیمنٹ، ٹیکسٹائل وغیرہ پر زیادہ توجہ دے گا کیونکہ یہاں یہ انڈسٹری زیادہ تعداد میں موجود ہے۔

میرے نزدیک یونیورسٹی کی سطح پر یکساں نظام تعلیم ممکن نہیں البتہ مرحلہ وار کالجوں اور سکولوں میں سائنس کے مضامین کو او، اے لیول سے ہم آہنگ کیا جائے اور اسے بتدریج نچلی سطح تک لے جایا جائے۔ میرے نزدیک ٹاپ سے نیچے تک جانے کا عمل ٹھیک رہے گا تاہم حکومت پرائمری سے اوپر کی طرف آنا چاہتی ہے لہٰذا جب ہمارے سامنے حکومتی پلان آئے گا تو اس پر رائے دی جاسکتی ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ری سٹرکچر کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ سب کے سامنے ہے کہ ایچ ای سی کے قیام کے بعد سے ہمارے شعبہ تعلیم میں بہتری آئی۔ ایچ ای سی خودمختار ادارہ ہے اور میرے نزدیک اسے خودمختار ہی رہنا چاہیے، اس کے حوالے سے متضاد خبریں آرہی ہیں لہٰذا جب تک کوئی نوٹفکیشن سامنے نہیں آتا تب تک کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔عالمی ٹرینڈز کے مطابق ہم نے سینٹر فار ریسرچ آن سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز (SDGs) قائم کیا ہے کیونکہ اس وقت دنیا کی توجہ ان 17 اہداف پر ہے اور پاکستان نے بھی ہر حال میں 2030 تک ان کو حاصل کرنا ہے۔

ہم نے اپنے تمام ڈیپارٹمنٹس میں SDGs پر ہونے والے کام کو سینٹرلائز کر دیا ہے، ہم اپنی تحقیق حکومت کو پیش کریں گے تاکہ اقوام متحدہ میں ان اہداف پر ہونے والے کام کی رپورٹ پیش کی جاسکے۔ دنیا میں سوشل انٹر پرینیور شپ کا رجحان بڑھ رہا ہے، ہم بھی اس طرف توجہ دے رہے ہیں۔ ہم علاقائی مسائل کے حل اور کاروبار کے فروغ کیلئے طلبہ کو سرمایہ فراہم کر رہے ہیں۔ اس کے لیے یونیورسٹی میں سینٹر فار سوشل انٹرپرینیورشپ بنایا ہے جہاں طلبہ کے آئیڈیاز کو کاروبار کی شکل دے کر انہیں انوسٹمنٹ دی جاتی ہے جبکہ منافع 50/50 ہوتا ہے۔ اس طرح سے نہ صرف علاقائی مسائل حل ہو رہے ہیں بلکہ انہیں روزگار بھی مل رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔