بڑھتی ہوئی سیاسی محاذ آرائی، جمہوریت کیلئے خطرہ، عوام پریشان

ارشاد انصاری  بدھ 30 جون 2021
ہمارا المیہ یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن آپس میں بات تک کرنے کو تیار نہیں۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن آپس میں بات تک کرنے کو تیار نہیں۔

 اسلام آباد: حکومت کی جانب سے اعلان کردہ اگلے مالی سال کا بجٹ وفاقی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد رواں ہفتے ایکٹ کی صورت لاگو ہو جائے گا جس کے اصل اثرات تو یکم جولائی کے بعد ظاہر ہونا شروع ہونگے مگر اس سے پہلے بجٹ کے  پارلیمنٹ میں ہونے کے فوری بعد سے ہی آفٹر شاکس محسوس ہونا شروع ہو چکے ہیں اور بجٹ نافذ ہونے سے پہلے ہی پٹرول،آٹا، چینی، دال،گھی سمیت تمام اشیائے خورونوش عوامی دسترس سے دور ہوگئے ہیں۔

بجٹ سے ایک روز قبل تک مہنگائی کا گراف نیچے آرہا تھا مگر بجٹ کے پیش ہوتے ہی پھر سے اوپر جانا شروع ہوگیا، جس کا اظہار وفاقی ادارہ شماریات کے اعداد وشمار سے واضح ہے۔ بجٹ سے ایک رو قبل ختم ہونے والے ہفتے کے دوران مہگائی کی شرح میں کمی واقع ہوئی تھی لیکن بجٹ پیش ہونے کے بعد والے پچھلے دوہفتوں کے دوران مہنگائی کا گراف مسلسل اوپر جا رہا ہے ابھی بجٹ منظور نہیں ہوا مہنگائی کو بڑھوتری دینے کے اسباب پہلے سے پیدا کر دیئے گئے ہیں ۔

یکم جولائی سے پھر سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تو اضافے کے آثار نظر آہی رہے ہیں لیکن اب  توانائی کے سر اٹھاتے ہوئے بحران سے بچنے کیلئے پاور پلانٹس کو فرنس آئل درآمد کرانے کے لیے این او سی جاری کر کے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی صورت میں بجلی مہنگی کرنے کا سامان بھی مہیاکر دیا گیا ہے جس کیلئے ملک بھر میں گیس کا بحران بڑھنے سے پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی بند، وزارت توانائی نے بجلی کی پیداوار برقرار رکھنے کے لیے پاور پلانٹس کو فرنس آئل درآمد کرانے کے لیے این او سی جاری کردیا ہے۔

پاور پلانٹس کو فرنس آئل پر چلانے سے بجلی کے بحران پر قابو پانے میں تو مدد ملے گی مگر اس کی قیمت مہنگی بجلی کی صورت عوام چکائیں گے کیونکہ فرنس آئل پر پیدا ہونے والی مہنگی بجلی کی کا بوجھ بھی ماہانہ فیول پرائس کی مد میں صارفین برداشت کریں گے، یاد رہے کہ کے الیکٹرک کو اکتوبر 2020 میں بھی 50 ہزار میٹرک ٹن فرنس آئل امپورٹ کی اجازت دی گئی تھی، اب  یہ فرنس آئل مافیا کی طاقت کا کمال ہے  یا ناقص منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے کہ گیس سے سستی بجلی پیدا کرنے پر فرنس آئل سے مہنگی بجلی پیدا کرنے کے آپشن کو اختیار کیا جا رہا ہے۔

حکومت مخالفین کا خیال ہے کہ حکومت نے  چونکہ بروقت ایل این جی درآمد کرنے کے سودے نہیں کئے  اس لئے فرنس آئل کا مہنگا متبادل ذریعہ اختیار کیا جا رہا ہے جو آٹا،چینی، ادویات سکینڈل کی طرح مستقبل کا بڑا سکینڈل بننے جا رہا ہے۔

دوسری طرف اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ملک میں جاری گیس بحران کی وجہ سے بجلی بنانے والے پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی بند ہونے سے بجلی کی رسد میں کمی ہو سکتی ہے اور حکومت نے گیس بحران میں شدت کے باعث پنجاب اور خیبر پختونخوا میں مختلف سیکٹرز کی گیس بند کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، سی این جی سمیت دیگر سیکٹرز کو پانچ جولائی تک گیس کی فراہمی معطل رہے گی۔

سوئی ناردرن گیس کمپنی انتظامیہ کی جانب سے نان ایکسپورٹ انڈسٹری، سی این جی سیکٹر کو گیس کی سپلائی بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان سطور کی اشاعت تک اس فیصلے پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہوگا اور پانچ جولائی تک گیس کی فراہمی معطل رہے گی جس سے یقینی طور پر ملک کی صنعتی پیداوار متاثر ہوگی اور لگ یہ رہا ہے کہ وزیر خزانہ شوکت ترین نے  جادو کی چھڑی گھما کر عوام کو جن اقتصادی اعشاریوں کی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا تھا اب وہ جادو بھی اترنے کو ہے کیونکہ ابھی جو اشاریئے آرہے ہیں ان میں کرنٹ اکاونٹ کی صورتحال بھی خراب ہو رہی ہے، مالیاتی خسارہ بھی بڑھ رہا ہے اور قرضوں کا تو کوئی حال ہی نہیں ہے۔

اقتصادی امور ڈویژن کے اپنے اعدادوشمار بتا رہے ہیں کہ رواں مالی سال کے دوران پاکستان نے مجموعی طور پر 12 ارب 13 کروڑ ڈالر سے زائد کا بیرونی قرض لیا ہے اور جولائی سے مئی کے دوران کثیر الجہتی معاہدوں کے تحت 3 ارب 37 کروڑ ڈالر موصول ہوئے، سب سے زیادہ قرض اے ڈی بی کی جانب سے 1 ارب 28کروڑ ڈالر قرض جاری کیا گیا، دوطرفہ معاہدوں کے تحت مختلف ممالک سے 41 کروڑ 70 لاکھ ڈالر موصول ہوئے،پاکستان نے کمرشل بنکوں سے بھی 3 ارب 60 کروڑ ڈالر کا قرض لیا ہے۔

دوسری جانب متحدہ اپوزیشن بھی ان حکومتی اعدادوشمار کو غلط ثابت کرنے کیلئے پورا زور لگا رہی ہے، کسی ملک کی مجموعی ترقی اور خوشحالی دیکھنی ہو تو معاشی اشاریوں کے علاوہ انسانی وسائل،جمہوری حقوق،آزادی اظہار اور غربت کے پیمانوں کو دیکھا جاتا ہے، گو ابھی پاکستان میں معیشت بہتر ہو رہی ہے لیکن سیاست کے فرنٹ پر فی الحال بہتری کا امکان نظر نہیں آرہا ۔

اگر تو ملک کی مجموعی صورتحال میں بہتری لانی ہے تو پھر سیاست اور معیشت سمیت تمام محاذوں پر بہتری لانا پڑے گی جوکہ دور دور تک نظر نہیں آرہا  ہے اور یوں لگ رہا ہے کہ جیسے کپتان اور اسکی ٹیم نے ہاتھ کھڑے کر دئیے یا انہیں معلوم پڑ گیا ہے کہ شاید کارکردگی ان کے بس کا روگ نہیں ہے، لہذا زیادہ وقت گذر گیا ہے، تھوڑا باقی رہ گیا ہے۔ وزراء اور ترجمانوں کی فوج کو اپوزیشن پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ اب یہ دو سال شکوہ جواب شکوہ میں ہی گزارنا ہے بس اپوزیشن رہنماؤں کے بیانات کے جوابات دینا ہیں پریس کانفرنس کرنا ہے۔

وہی پی ائی ڈی جس پر ن لیگ کے دور میں تحریک انصاف کے رہنما چڑھ دوڑا کرتے تھے اور سرکاری ادارے پر صرف ن لیگ کے وزراء کو ہی پریس کانفرنس کرنے پر اعتراض ہوا کرتا تھا اور تحریک انصاف کے لوگ پی آئی ڈی پہنچ جایا کرتے تھے، زبردستی پریس کانفرنس کیلئے دھمکایا جاتا تھا آج اسی پی آئی ڈی کو ن لیگ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے کپتان کی ٹیم اسی طرح مخالفین کے جوابات دینے کیلئے پریس کانفرنس کیلئے استعمال کر رہی ہے لیکن مجال ہے کہ کسی کو ماضی یاد آیا ہو اور خود آگے بڑھ کر ماضی کی روایات کے بت توڑنے کا خیال آیا ہو اور اپوزیشن کیلئے پی آئی ڈی کے دروازے کھولنے کی پیشکش کر کے انہیں بتاتے کہ کل آپ کا رویہ کیا تھا اور ہمارا کیا ہے۔

یہ ہوتی ہے اصل تبدیلی ، مگر شائد یہ سب کتابی باتیں ہیں، ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، دنیا کے ہر ملک میں حکومت اور اپوزیشن ہوتی ہے ان کے آپس میں اختلافات بھی فطری ہیں لیکن مہذب جمہوری ممالک اور پسماندہ ممالک میں فرق یہ ہے کہ وہاں حکومت خارجہ پالیسی اور مالیاتی پالیسی سمیت ہر اہم ریاستی معاملے پر اپوزیشن سے ڈائیلاگ کرتی ہے۔

قانون سازی کے معاملے میں تو حکومت اور اپوزیشن میں مسلسل تعاون اور مشورہ جاری رہتا ہے، ہمارا المیہ یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن آپس میں بات تک کرنے کو تیار نہیں، حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ہم اپوزیشن سے بات کرتے ہیں تو وہ این آر او مانگتے ہیں یہ بھی ایک عجیب اور غور طلب مسئلہ ہے، حزب اختلاف کے بیش تر اراکین نیب زدہ ہیں، حکومت کا کہنا ہے نیب ایک غیر جانبدار ادارہ ہے اگر اس مفروضہ کو مان لیا جائے تو حکومت کے اس دعویٰ کا کیا کہ ’’ہم جب بھی مذاکرات کی بات کرتے ہیں حزب اختلاف این آر او مانگتی ہے اگر واقعی نیب حکومت کے زیر اثر نہیں تو پھر حزب اختلاف یہ بے وقوفانہ مطالبہ کیوں کرتی ہے؟ گوکہ نیب اپنے عمل اور کارکردگی سے حزب اختلاف کے ان بیانات کو سچ ثابت کرتی ہے، یہاں تک پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں بھی اس کا اظہار کر چکی ہیں الزام و شک کے شعبے میں حزب اختلاف کے اراکین گرفتار ہو کر پہلے جیل جاتے ہیں اور جبکہ حکومتی اراکین کی صرف تحقیق ہوتی ہے اور وہ سیر سپاٹے کرتے پھرتے ہیں۔

اپوزیشن یہ کہتی ہے کہ ایک طرف یہ ہمیں جیلوں میں ڈال رہے ہیں دوسری طرف ہم سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، یہ دو عملی کیوں؟ حکومت کچھ عرصے سے قانون سازی پر مذاکرات کرنا چاہتی ہے لیکن اپوزیشن کو ماضی میں ایسے تلخ تجربات ہو چکے ہیں کہ وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنے کو تیار نہیں ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔