جمعیت ایسی تو نہ تھی!

 بدھ 30 جون 2021
یہ جاننا ضروری ہے کہ سید عبدالرشید کا تعلق پی ٹی آئی سے نہیں، وہ جماعت اسلامی کے واحد رکن سندھ اسمبلی ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یہ جاننا ضروری ہے کہ سید عبدالرشید کا تعلق پی ٹی آئی سے نہیں، وہ جماعت اسلامی کے واحد رکن سندھ اسمبلی ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پیر کے روز سندھ اسمبلی میں ایک تماشا لگا، اس تماشے کی دوسری قسط منگل کے روز بھی میڈیا اور سوشل میڈیا کی زینت بنی۔

دنیا نے دیکھا کہ پی ٹی آئی ارکان پہلے دن آہ و بکا کرتے ہوئے ’’جمہوریت‘‘ کا جنازہ لے آئے۔ دوسرے دن اسی جنازے کے قُل پڑھنے کے بجائے ڈھول کی تھاپ پر جشن مناتے دکھائی دیئے۔ اسمبلی اسٹاف نے پی ٹی آئی کے نکالے گئے ارکان اسمبلی کی نیت کو بھانپ لیا اور گیٹ بند کردیئے۔

سندھ حکومت اور پی ٹی آئی کی دھینگا مشتی کے دوران اپوزیشن رکن سید عبد الرشید کی تصاویر اور ویڈیوز بھی سامنے آئیں۔ ان میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ اسمبلی کی دیوار پھلانگ کر احاطے میں داخل ہورہے ہیں۔ وہ اس کوشش میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے مہم کو اپنی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ سندھ اسمبلی میں ایک بار پھر اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق بل کے نام پر اسلام قبول کرنے پر پابندی کا بل پیش کرنے کےلیے قرارداد لائی گئی۔ اسمبلی میں داخلے پر پابندی کے باوجود گیٹ پھلانگ کر پہنچ گیا۔ اسپیکر سندھ اسمبلی نے تمام داخلی راستے بند کر کے ارکان پر اندر آنے پر پابندی عائد کردی تھی۔ میں نے پہنچ کر قرارداد پیش نہیں کرنے دی۔

یہ جاننا ضروری ہے کہ سید عبدالرشید کا تعلق پی ٹی آئی سے نہیں، وہ جماعت اسلامی کے واحد رکن سندھ اسمبلی ہیں۔ ہمارے زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلی ہوا کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ سے جارحانہ رہے۔ ایم کیو ایم ان سے خوف کھاتی ہے، موجودہ وزیراعظم کے ساتھ جب پنجاب یونیورسٹی میں تشدد کا واقعہ پیش آیا تو وہ جمعیت کے سیکریٹری جنرل تھے۔

یہ سابق جمعیت کا ایک روپ تھا جسے ہم مثبت کہہ سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر موجودہ جمعیت کا بھی ایک روپ دیکھا گیا۔ میرے پاس ایک ویڈیو پہنچی جس میں کچھ نوجوانوں نے ایک اسٹوڈنٹ کو اپنے گھٹنوں کے نیچے دبا رکھا ہے، اس پر تشدد کیا جارہا ہے۔ اس تشدد کے دوران ’’زندہ ہے جمعیت زندہ ہے‘‘ کے نعروں کی گونج سنی جاسکتی ہے۔

بعد میں ٹی وی پر چلنے والی خبروں سے پتا چلا کہ لاہور کے ایک کالج میں جمیعت کے کارکنوں نے طلبا پر تشدد کیا، تشدد کے بعد انہیں ہاسٹل کی چھت سے پھینک دیا۔ ان میں سے ایک کا مثانہ پھٹ گیا۔ بقیہ تین شدید زخمی بھی ہوئے۔ اس سے ایک روز قبل پنجاب یونیورسٹی کے گیٹ سے شراب کی بوتلیں پکڑی گئیں۔ پولیس کے مطابق یہ شراب جمعیت کے کسی ناظم نے منگوائی تھیں۔

کیا جمعیت پہلے بھی ایسی ہی تھی؟ اس کا پتا لگانے کےلیے ہمیں تاریخ کھنگالنا پڑے گی۔

میرے خیال میں جمعیت ایسی نہیں تھی۔ جولائی کا مہینہ تھا، ملتان کی گرمی کا تو آپ کو اندازہ ہوگا کیسی ہوتی ہے۔ اس گرمی میں ایمرسن کالج ملتان میں میٹرک کے نتائج کے بعد نئے آنے والے طلبا کی رہنمائی کےلیے کیمپ لگایا تھا۔ یہ تین روزہ کیمپ تھا جسے جمعیت نے لگایا تھا، جمعیت شاید ایسا تمام تعلیمی اداروں میں کرتی ہے، اس کا ایک مقصد طلبا کی رہنمائی ہوتا ہے، دوسرا جمعیت کا تعارف۔

اس کیمپ کے پہلے روز سیکڑوں طلبا کی رہنمائی کی گئی۔ انہیں مفت اسٹیشنری اور مفت داخلہ فارمز کی سہولت بھی ملی۔ دوسرے دن بھی جمعیت والے اسی کام میں مصروف تھے کہ اچانک 15 سے20 نوجوان، جن کے ہاتھوں میں ڈنڈے اور کچھ کے ہاتھوں میں پستول بھی تھے، حملہ آور ہوگئے۔

فائرنگ کے دوران دو کارکن ڈٹے رہے تو انہوں نے ان کی خوب دھلائی کی۔ سر میں کرسیاں لگنے سے ایک زخمی ہوگیا۔ پتا چلا کہ یہ حملہ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی طرف سے کیا گیا تھا جس کی سربراہی سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کے ہاتھ میں تھی اور تحریک انصاف کے موجودہ ایم این اے عامر ڈوگر ان کو اسلحہ فراہم کرتے تھے۔

جمعیت والے فطرت میں ڈھیٹ تو ہیں ہی، مار کھانے کے بعد بھی نہیں سیکھتے۔ مار کے بعد تو پکے جماعتیے بن جاتے ہیں۔ ایسا کچھ ان کے ساتھ بھی ہوا۔ مار کھانے کے بعد بھی کالج نہیں چھوڑا۔

سردیوں کے دن تھے اور فارغ وقت کے دوران گراؤنڈ میں کرکٹ کھیل رہے تھے کہ جیالے بھائیوں نے موٹر بائیکس پر ایسے دبنگ انٹری ماری جیسے بالی ووڈ فلموں میں ولن مارتا ہے۔ انہوں نے آؤ دیکھا نا تاؤ، ہم پر مکوں گھونسوں کی بارش کردی۔ ڈنڈے اور ٹھڈے خوب لگے۔ اس واقعے میں بھی جمعیت والے مظلوم تھے، ان دونوں واقعات کا میں عینی شاہد ہوں۔

ان واقعات سے یہ بتانا مقصود تھا کہ جمعیت نے اچھے کام کیے۔ طلبا کو مثبت سرگرمیاں دیں جو مخالفین کو برداشت نہیں تھیں۔ وہ اپنا قبضہ کالج پر چاہتے تھے، پی ایس ایف کے گروہ میں سب غیر طلبا عناصر تھے جنہیں کالج کے اندر سے ہی سہولت کار پروفیسرز ملے ہوئے تھے۔

اس گروہ کا کام صبح گیٹ پر کھڑے ہوکر بے چارے طلبا کی جیبوں کو صاف کرنا، کینٹین اور سائیکل اسٹینڈ سے بھتہ وصولی ہوتا تھا۔ ہماری وجہ سے ان کے کاروبار کو نقصان ہوتا تھا، کوئی اپنے کاروبار میں نقصان تھوڑا چاہے گا۔ جمعیت کی سب سے بڑی برائی بھی یہی تھی۔

جمعیت نے پاکستان کو بڑے بڑے لیڈرز دیئے ہیں۔ موجودہ اسمبلیوں میں اگر کوئی توانا آواز ہے تو وہ جمعیت کے سابقین کی ہے۔ شیخ رشید کا دعویٰ ہے کہ آرمی چیف بھی جمعیت کے ناظم رہے ہیں۔

تشدد کسی بھی صورت میں ہو، غلط ہے۔ چاہے وہ کالجز، یونیورسٹیوں میں ہونے والا جسمانی تشدد ہو یا مدارس میں ہونے والا جنسی تشدد، یہ ایک قابل نفرت عمل ہے جس کا تدارک ہر صورت میں ہونا چاہیے۔

اسلامی جمعیت طلبا کے کارکنوں کے موجودہ عمل کا دفاع نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بھی دہشت گردی کی ایک صورت ہے۔ یہ معصوم ذہنوں کو دبا کر پوری زندگی کےلیے نفسیاتی مریض بنادینے کے مترادف ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔