میٹھے بول میں جادو نہیں جھوٹ ہوتا ہے

سعد اللہ جان برق  جمعرات 1 جولائی 2021
barq@email.com

[email protected]

ہمارے گاؤں کا ایک نامی گرامی،چیمپئین اور ریکارڈ ہولڈرجھوٹا مرگیا تو لوگوں کویقین نہیں آیا اور اسے بھی اس کاکوئی جھوٹ سمجھے لیکن پھر جب وہ نہیں اٹھا تو یقین آگیا کہ آخر کار اس کا پالا اس عظیم الشان ’’پہلوان‘‘سے پڑہی گیا جس سے آج تک کوئی نہیں جیتاہے، چاہے وہ جھوٹا ہو یا سچا بلکہ لیڈر ہی کیوں نہ ہو۔

ایک دن سب کو چکانا ہے عناصر کاحساب

زندگی چھوڑ بھی دے موت کہاں چھوڑتی ہے

اس کی وفات مسرت آیات اورانتقال بے ملال پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک شخص نے کہا ،آج ’’جھوٹ‘‘ کے ہاں جشن کا سماں ہوگا،اس یوم نجات پر عید جیسی خوشیاں منائی جا رہی ہوںگی کہ کس’’بلا‘‘سے چھٹکارا مل گیا کہ وہ ایسے ایسے جھوٹ بھی بولتاتھا جو جھوٹ کے ماں یاباپ کو بھی بولنانہیں آتا تھا۔ جھوٹ نے کہاں کہاں اس سے چھپنے کی کوشش نہیں کی ہوگی لیکن اس کی ناک کسی کتے سے بھی زیادہ تیزتھی سونگھ سونگھ کر ڈھونڈ نکالتا اور پھر اسے بول بول کو شرمسار کرتا،اتنا زیادہ کہ جھوٹ کے ماتھے پر پسینے آجاتے لیکن اس کے ماتھے پر بل تک نہیں پڑتا تھا۔

مرحوم یا مردود جھوٹے کے حق میں دعائے بے خیری کرنے کے بعد اس شخص نے ہم سے کہا تم نے بھی توجھوٹ میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے، میرا مطلب ہے کہ جھوٹ کے بارے میں بہت جھوٹ بولاہے لیکن میں تمہیں بتا دوں کہ دنیا میں نہ تو کہیں جھوٹ ہے نہ سچ ،جو کچھ ہے وہ یہی ’’گل سر‘‘ ہے جو اپنے آپ کو نہ جانے کیاکیاخطاب دیتارہتا ہے حالاں کہ اس کااگر کوئی موزوں نام ہوسکتا ہے تو وہ ’’جھوٹا‘‘ ہو سکتاہے، کیوں کہ دنیا میں آج تک نہ تو کسی ’’جماد‘‘ نے جھوٹ بولاہے نہ نباتات نے اورنہ کسی حیوان نے ،جھوٹ کاموجد بھی یہی ہے، معلم بھی،طالب علم بھی علامہ بھی اورباپ بھی۔

کسی نے ’’سچ‘‘ سے ایک دن پوچھا بھی تھا کہ اگر جھوٹ کو ماردیاجائے تو کیسا لگے گا ،سچ نے کہاکچھ بھی فرق نہیں پڑے گا ہاں اگر اس کے ’’ماں باپ‘‘ کو ماردو تو مجھے کچھ اطمینان ہوسکتاہے لیکن مجھے پتہ ہے تم خود کشی نہیں کروگے۔

ایک دن ہم نے اپنے جاننے والے ایک لیڈر سے پوچھا تم لوگوں کااتنا جھوٹ سن کیسے لیتے ہو۔ بولا، وہ بھی تو میرا جھوٹ سن لیتے ہیں نا۔پھر پوچھاتم اتنا جھوٹ بول کر شرماتے نہیں ہو۔ہنس کر بولا،میں اپنی آنکھیں اورکان بند کرکے بولتا ہوں۔ اچھایہ بتاؤ کبھی سچ بھی بولو گے۔ بولا ہاں میراارادہ ہے کہ مرتے وقت سچ بولوں گا ۔پوچھا کیا بولو گے۔ کہنے لگا، یہی کہ میں مرگیا ہوں۔ مگر یہ بھی تو جھوٹ ہوگیا کیوں کہ مرنے سے پہلے بولوگے کہ مرنے کے بعد کوئی بول ہی نہیں سکتا۔

ہم نے ایک ایسا گونگا بھی دیکھاہے جو گونگا نہیں تھا لیکن انسانوں سے نہیں بولتا تھا البتہ کھیت میں بیلوں سے باتیں کرتا تھا،اپنے گاؤں کے ایک گڈرئیے کے بارے میں ہمیں پکایقین تھا کہ وہ گونگا ہے لیکن پھر کسی نے بتایا کہ وہ گونگا نہیں ہے صرف انسانوں سے نہیں بولتا ورنہ اپنی بھیڑوں سے دنیا جہاں کی باتیں کرتاہے۔ ایک دن ہم نے اسے پکڑ لیا،پوچھا ،تم صرف بھیڑوں سے بولتے ہو،انسانوں سے کیوں نہیں بولتے۔ بولا۔اس لیے کہ صرف بھیڑیں سچ کہتی ہیں انسان توسن کر پتھر اٹھالیتے ہیں۔

لیکن بعض لوگ بڑے اچھے ہوتے ہیں منہ میں باقاعدہ ترازوفٹ کیے ہوئے ہوتے ہیں اورجب بھی بولتے ہیں تول تول کربولتے ہیں ایسے لوگوں کو آج کل معاون خصوصی برائے کہتے ہیں جن کا تقرر ہی تب ہوتاہے جب اپنے منہ میں فٹ کیے ہوئے ’’ترازو‘‘کو لائسنس کی طرح دکھا دیتے ہیں۔سب سے اچھے اوراعلیٰ کیٹگری کے معاون خصوصی وہ ہوتے ہیں جو منہ میں ترازواوردماغ میں ڈیل کارنیگی فٹ کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ ایک امریکی تھاجس نے ثابت کردیاتھاکہ جھوٹ کاذائقہ میٹھا ہوتاہے اور اس میں جادوبھی ہوتا ہے۔ مرشد نے بھی کہاتھا کہ …

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کے رقیب

گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔