’’وڈا آیا ڈریوڈ‘‘

سلیم خالق  اتوار 4 جولائی 2021
اتنا عظیم کرکٹر سمندر میں مچھلیاں پکڑنے یا بغاوت کے پرانے قصے سنانے کیلیے نہیں بنا۔ فوٹو: فائل

اتنا عظیم کرکٹر سمندر میں مچھلیاں پکڑنے یا بغاوت کے پرانے قصے سنانے کیلیے نہیں بنا۔ فوٹو: فائل

’’سر آپ کہاں ہیں، میں تو بتائی ہوئی جگہ پر پہنچ چکا‘‘

چند برس قبل ایک معروف بینک کے ہیڈ آفس کی پارکنگ میں آنے کے بعد میں نے اپنے ایک واقف کار کوفون کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’’میں نے تمہیں دیکھ لیا ہے، تھوڑا آگے چلو میں نظرآ جاؤں گا‘‘ میں نے نظر دوڑائی تو دیکھا کہ چند افراد اپنی ٹائیاں ڈھیلی کیے ہوئے گاڑیوں کو کپڑے سے صاف کر رہے ہیں، مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا، وہ صاحب مجھے دیکھ کر مسکرائے اور کہا ’’حیران نہ ہو میاں بڑے اداروں میں یہ معمول کی مشق ہوتی ہے، اس کا مقصد انا کو سر پر سوار نہ ہونے دینا ہے تاکہ بڑے افسران کے قدم بھی زمین پر رہیں‘‘

اب ایک اور واقعہ سنیں، میرے ایک دوست کرکٹر نوجوان کھلاڑیوں میں بڑے مقبول ہیں، سب ان کی بڑی عزت کرتے، پیٹھ پیچھے بھی ان کیلیے اچھے الفاظ استعمال ہوتے، ایک دن میں نے ان سے اس کا راز پوچھ لیا تو وہ مسکرا کر کہنے لگے کہ ’’میں اپنے کام سے کام رکھتا ہوں، کسی کو نصیحتیں نہیں جھاڑتا نہ ہی اپنے کارنامے بتا کر بور کرتا ہوں، اگر میں کسی کو ٹوکوں اور وہ بات نہ مانے تو میری کیا عزت رہ جائے گی،اپنے دائرہ اختیار سے آگے بڑھوں گا تومسائل کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘

مجھے یہ باتیں یونس خان کے حالیہ تنازعات نے یاد دلائیں، ایک ایسا کھلاڑی جس نے ملک کے لیے10 ہزار سے زائد رنز اور سب سے زیادہ سنچریاں بنائیں، واحد ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جتوایا،کیوں اس کا نام منفی خبروں میں زیادہ رہتا ہے، ان کو دیکھ کر افسوس ہی ہوتا ہے، اگر وہ اپنے خول میں بند رہنے والے انا پرست انسان نہ ہوتے تو شاید آج ایسے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا، جب یونس سے پی سی بی نے 2 سالہ معاہدے کا اعلان کیا تو مجھ سے کسی نے کہا کہ وہ اگر ایک سال بھی نکال دے تو میں اپنی مونچھیں منڈوا لوں گا (حالانکہ ان کی مونچھیں تھی ہی نہیں)۔

میرا کہنا تھا کہ یونس اب تبدیل ہو گئے ہیں، انھیں بھی پاکستان کو راہول ڈریوڈ کی طرح استعمال کرنا چاہیے، اس پر انھوں نے زور سے قہقہہ لگایا اور بولے ’’وڈا آیا ڈریوڈ‘‘  یاد رکھو انسان کی جو فطرت ہے وہ 50 سال بعد بھی تبدیل نہیں ہوتی، یونس ایسا ہی ہے اور ہمیشہ رہے گا، بس دعا کرو کسی کھلاڑی سے خطرناک جھگڑا نہ ہو جائے، بعد میں ایسا ہی ہوا جنوبی افریقہ میں اگر بولنگ کوچ وقار یونس اور بعض کھلاڑی چند منٹ کی تاخیر سے ہی مداخلت کرتے تو یونس اور حسن علی کے بیچ نجانے اور کیا کچھ ہو چکا ہوتا، سیاسی اینکرز کو بڑے ایڈواٹیج ہوتے ہیں، کرکٹ کا بڑا ایونٹ ہو تو وہ کرکٹ ایکسپرٹ بھی بن جاتے ہیں۔

اسپورٹس صحافیوں کو انٹرویوز کے وقت ہدایت دی جاتی ہے کہ فلاں سوال نہ پوچھنا لیکن سیاسی اینکرز کرکٹرز سے بڑی بڑی باتیں پوچھ لیتے ہیں اور وہ جواب دیتے ہوئے بھی نہیں ہچکچاتے، ایسے ہی ایک انٹرویو میں یونس نے گڑے مردے اکھاڑتے ہوئے2009میں اپنے خلاف ہونے والی بغاوت کا دوبارہ ذکر چھیڑ دیا، نجانے وہ اسے کب فراموش کر کے آگے بڑھیں گے،اگر2،4 کھلاڑی کپتان کے خلاف ہوں تو اس کی غلطی ہو سکتی ہے لیکن پوری ٹیم خلاف ہو جائے تو اسی میں یقیناً خامیاں ہوں گی۔

یونس سے غلطی یہ ہوئی کہ ورلڈکپ جیتنے کے بعد وہ خود کو عمران خان سمجھ بیٹھے حالانکہ عمران خان صرف ایک ہی ہیں، کوئی اور ان جیسا نہیں بن سکتا، یونس نے شاہد آفریدی کو بغاوت کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا جی وہی آفریدی جس نے 2009میں ان کی زیرقیادت پاکستان کو ورلڈکپ جتوایا تھا، سیمی فائنل اور فائنل دونوں کے مین آف دی میچ آفریدی ہی تھے، مجھے پتا ہے کہ کیریئر کے اوائل میں آفریدی یونس کو کس حد تک سپورٹ کرتے تھے، یونس ہر انٹرویو میں اسی بغاوت کا ذکر لے کر بیٹھ جاتے ہیں، جب تک وہ اپنا دل صاف نہیں کریں گے کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں۔

ہمارے سابق کرکٹرز کا مسئلہ یہی ہے کہ ان کی گرین شرٹ نہیں اترتی، وہ ہمیشہ اپنے آپ کو سپراسٹار سمجھتے رہتے ہیں، بھائی مان لو اب آپ کا وقت گذر چکا، نئے لڑکے آج کے اسٹارز ہیں، پھر قوائد و ضوابط پر عمل تو سب ہی کو کرنا ہے، اگر پاکستانی اسکواڈ کو20 جون تک بائیو ببل میں رپورٹ کرنا تھی تو یونس کو کیوں بعد میں آنے دیا جاتا، دانت کا علاج چند روز کیلیے موخر یا پہلے بھی کرایا جا سکتا تھا، بطور بیٹنگ کوچ وہ کامیاب نہیں رہے اور شاید یونس کو بہانے کی تلاش تھی جو ذاکر خان نے انھیں فراہم کر دیا۔

وہ خود کہتے ہیں کہ ’’جب بورڈ آفیشل نے مجھ سے کہا کہ یاد نہیں وقت پر نہ آنے پر ہم نے حفیظ کے خلاف کیا ایکشن لیا تھا تو میں نے جواب دیا کہ میں حفیظ نہیں بلکہ یونس خان ہوں‘‘ یہ میں ہی ان کی سب سے بڑی دشمن ہے، انسان کو لچکدار ہونا چاہیے، حفیظ کوئی کلب کرکٹر نہیں 18 سال سے انٹرنیشنل کرکٹ کھیل رہے ہیں اور مجموعی طور پر13 ہزارسے زائد رنز بنا چکے،اگر وہ اس وقت غصہ دکھاتے تو اب سابق کرکٹر بن چکے ہوتے لیکن انھوں نے اپنے کیریئر کو انا پر فوقیت دی، صرف یونس کیلیے قوائد کیسے نظرانداز کیے جا سکتے تھے۔

انگلش بورڈ کو پتا چلتا تو نیا مسئلہ کھڑا ہو جاتا، ذاکرخان بھی یونس خان جیسے مزاج کے حامل ہیں لیکن وزیر اعظم عمران خان سے دوستی کی وجہ سے سب ان سے ڈرتے ہیں، آپ ان کے رعب کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ یونس جو سب پر تنقید کرتے رہتے ہیں وہ بھی ذاکر کا نام نہ لے سکے اور انٹرویو میں اصرار پر بھی بس ’’ایک آفیشل‘‘ کہتے رہے۔ یونس کی باتوں سے یہ بھی لگتا ہے کہ وہ پی سی بی کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔

دوسری طرف وہ استعفیٰ جیب میں رکھ کر گھومنے والے فلمی ڈائیلاگ بھی ادا کرتے رہتے ہیں، پہلے انھیں اپنی سمت کا تعین کر لینا چاہیے، انھوں نے اتنے کارنامے انجام دیے ہیں ایسے تنازعات میں پڑتا دیکھ کر افسوس ہی ہوتا ہے،2بار بیٹنگ کوچ کے عہدے سے استعفیٰ، 3 بار کپتانی چھوڑنا،ون ڈے ٹیم میں واپس آکر سیریز کے درمیان میں ایک میچ کھیل کر ریٹائرمنٹ،یہ سب کون کرتا ہے؟

آپ کو کیوں ایسا لگتا ہے کہ صرف آپ محب الوطن اور ایماندار اور باقی سب فارغ ہیں، انسان اپنے دوستوں سے ہی پہچانا جاتا ہے، ’’نادان دوست سے دانا دشمن‘‘ بھلا، اپنے اردگرد کا جائزہ لیں اور اچھے لوگوں میں اٹھیں بیٹھیں، منفی سوچ والے منفی مشورے ہی دیں گے، اتنا عظیم کرکٹر سمندر میں مچھلیاں پکڑنے یا بغاوت کے پرانے قصے سنانے کیلیے نہیں بنا،آگے آ کر اپنے تجربات سے پاکستان کو نئے یونس خان (صرف بیٹنگ میں) تیار کر کے دیں تاکہ آپ کا نام بھی کرکٹ میں کارناموں سے یاد رکھا جائے تنازعات کی وجہ سے نہیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔