ایف اے ٹی ایف ٹیکنیکل فورم یا بلیک میلنگ کا ہتھیار !!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 5 جولائی 2021
فیٹف کے صدر نے خود اپنے ادارے کی ساکھ کو متاثر کیا: شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم ‘‘میں اظہار خیال

فیٹف کے صدر نے خود اپنے ادارے کی ساکھ کو متاثر کیا: شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم ‘‘میں اظہار خیال

خطے کے حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔ امریکا افغانستان سے نکل رہا ہے اور وہاںطالبان کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے۔

امریکا پاکستان میں ہوائی اڈے چاہتا ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان نے اس حوالے سے دوٹوک موقف سے واضح کر دیا کہ پاکستان ایسا نہیں کرے گا ۔ حال ہی میں فیٹف نے پاکستان کو 27 میں سے 26 نکات پر عمل کرنے کے باوجود گرے لسٹ میں برقرار رکھا جس پر سخت تنقید ہورہی ہے اور فیٹف کے کردار پر سوال اٹھ رہے ہیں۔

ان تمام معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے گزشتہ دنوں ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

 ڈاکٹر اعجاز بٹ
(ماہر امور خارجہ)

دنیا ایک نئی سرد جنگ کی طرف جا رہی ہے جس میں امریکا، چین کے کردار کو محدود کرنے کیلئے ہر ممکن کام کرے گااور اب یہی امریکا کی پالیسی ہے۔بدقسمتی سے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک سمیت دیگر عالمی ادارے وہ ہتھیار ہیں جنہیں امریکا، پاکستان کے خلاف استعمال کرے گا، سوال یہ ہے کہ کیا ہماری معیشت ان مشکل حالات کا مقابلہ کر سکے گی؟ سب سے اہم کام معیشت کو مستحکم کرنا ہے جس پر ہمیں تندہی سے کام کرنا ہوگا۔

ہر طرف پاکستان کے گرے لسٹ میں رہنے پر باتیں ہورہی ہیں مگر اس میں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ہم بلیک لسٹ نہیں ہوئے۔ ہمیں یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ بھارت نے ہمیں بلیک لسٹ کرانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس نے ایک کالعدم تنظیم کے نام پر شور مچایا، صرف احمد آباد سے 3 لاکھ ٹویٹ ہوئے ۔

یہ رویہ پاکستان کے تمام کیے گئے اقدامات پر پانی پھیرنے کے مترادف تھا۔ بھارت نے ہمارے خلاف لابنگ کی مگر چین، سعودی عرب جیسے دوست ممالک کی وجہ سے اسے ناکامی ہوئی لہٰذا ہمیں مستقبل میں ایسا کوئی موقع نہیں دینا چاہیے جس کا فائدہ بھارت اٹھائے۔ ہم گزشتہ تین برسوں سے گرے لسٹ میں ہیں جس کی وجہ سے کوئی یہاں سرمایہ کاری کیلئے تیار نہیں ہے۔

ان تین برسوں میں ہمیں 38 بلین ڈالر کا نقصان ہوا اور ہرگزرتے دن کے ساتھ اس میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا۔ اسی طرح جی ایس پی پلس سٹیٹس کیلئے ہم یورپی یونین کے محتاج ہیں، اس پر ہماری معیشت کا انحصار ہے، امریکا کے ساتھ بھی ہماری معیشت جڑی ہے لہٰذا اگر معاملات خراب رہے تو معیشت کو بہت نقصان ہوگا۔ میرے نزدیک جہاں ضرورت ہے وہاں معاملات بہتر کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے تاکہ معیشت کو سنبھالا مل سکے۔ معیشت مضبوط ہوگی تو ہم ہر مشکل کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لیں گے۔

ہمیں اپنے جوڈیشل سسٹم میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ موجودہ مسائل میں ہمیں تمام سٹیک ہولڈرز بشمول عدلیہ کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔ افغانستان میں حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ طالبان تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں ، وہ جلد افغانستان پر کنٹرول کر لیں گے، اس سے پاکستان میں انتہا پسندی بڑھ سکتی ہے۔ اپنی سلامتی کو دیکھتے ہوئے بروقت اہم فیصلے کرنا ہوں گے۔

امریکا کو اڈے نہ دینے کے حوالے سے وزیراعظم کا موقف درست ہے، اسے ہوائی اڈے افغانستان نہیں بلکہ چین سے ٹکر لینے کیلئے چاہئیں، ہمیں دانشمندی کے ساتھ فیصلے لینا ہونگے اور امریکا کے عزائم کو بھانپنا ہوگا۔ ہمیں چین کے ساتھ تعلقات کو مضبوط اور سی پیک منصوبے کو تیزی سے آگے بڑھانا چاہیے۔ہمیں چین کے ساتھ تعلقات میں اعتماد کو مزید فروغ دینا ہوگا۔ ابھی تک ہم نے اچھے کارڈ کھیلے ہیں، آگے بھی وقتی مفاد نہیں بلکہ دیرپا معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کرنا ہوگا، اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ میرے نزدیک اس وقت گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے تاکہ ہم ایک موقف اپنا کر آگے بڑھیں۔

بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی
(دفاعی تجزیہ نگار )

فیٹف کے نکات پر صحیح معنوں میں جائزہ لیا جائے تو امریکا، اسرائیل اور بھارت اس کی گرفت میں آتے ہیں۔

داعش، طالبان ، خراسان اور ابوبکر بغدادی کی فناسنگ امریکا نے کی اور اب تک وہ مختلف گروہوں کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتا آیا ہے اور کر رہا ہے مگر اس پر فیٹف مکمل خاموش ہے بلکہ بھارت کے حوالے سے بھی جانبداری کا مظاہرہ کیا گیا ہے حالانکہ وہاں یورینیم فروخت ہورہا ہے۔

فیٹف سیاسی ٹول ہے جو ممالک کو بلیک میل کرنے اور چھوٹے ممالک کو تباہ کرنے کیلئے ہے۔ فیٹف کی گرے لسٹ میں موجود ممالک میں سے پاکستان کے علاوہ کوئی بھی ملک دنیا میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ پاکستان سے امریکا کے مفادات وابستہ ہیں اور وہ پاکستان کو دبانا چاہتا ہے، اسی طرح سوڈان، یوگینڈا و گرے لسٹ میں موجود دیگر چھوٹے ممالک سے یورپ ہیرے، جواہرات نکالتا ہے اور اپنے مفادات کیلئے وہاں گینگ وار کو سپورٹ کرتا ہے۔ اس گینگ وار کے نتیجے میں وہ الزامات لگا کر فیٹف کے ذریعے پابندیاں لگواتا ہے اور مفاد حاصل کرتا ہے۔

پاکستان نے سوات آپریشن کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑی، وہاں سے جو اسلحہ برآمد ہوا اس پر ’میڈ اِن بنارس، انڈیا‘ لکھا ہوتا تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کے اندر سے ٹیرر فناسنگ نہیں ہوئی بلکہ باہر سے پاکستان میں ہوتی ہے۔ دنیا سب جانتی ہے مگر چونکہ پاکستان اسلامی ملک اور ایٹمی طاقت ہے اور پھر موجودہ معروضی حالات میں اس کی اہمیت بھی بڑھ گئی ہے لہٰذا گرے لسٹ سے نکلنے کے جلد امکانات نظر نہیں آرہے۔ فرانس میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف پاکستان نے سخت موقف اپنایا ، اسی لیے فرانس اور اس کے اتحادی ممالک بھی پاکستان کی مخالفت کر رہے ہیں اور فیٹف میں ہمارے خلاف کھڑے ہیں۔ پاکستان نے امریکا کی جنگ میں بہت نقصان اٹھایا، ہم نے اپنے وسائل سے جنگ لڑی اور امریکا اپنے وعدے سے مکر گیا، ابھی تک امریکا نے ہماری 3 اقساط واپس نہیں کی۔

ماضی کو دیکھتے ہوئے اب پاکستان امریکا کی لائن پر نہیں چل رہا جس کی وجہ سے امریکا کو تکلیف ہورہی ہے اور وہ مختلف رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے ، اس کیلئے فیٹف کا فورم بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ پاکستان افغان امن عمل کا فریق ہے، اور اس معاہدے میں یہ شامل ہے کہ اپنی سرزمین کو ایک دوسرے کے مخالف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا لہٰذ اگر پاکستان‘ امریکا کو ہوائی اڈے دیتا ہے تو وہ افغان امن عمل کی خلاف ورزی ہوگی اور اس کا یقینا ہمیں نقصان ہوگا۔

افغان حکومت نہیں چاہتی کہ افغانستان میں امن ہو کیونگہ اگر ایسا ہوگیا تو ان کی ٹھاٹھ باٹھ اور عیش ختم ہوجائے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے امریکا کو ہوائی اڈے نہ دینے کے حوالے سے مضبوط موقف اپنایا ہے، اپوزیشن کو بھی اس موقف پر آنا ہوگا۔یہ وقت ہے کہ ہم ڈٹ کر کھڑے ہوجائیں ۔ سی پیک سے دنیا کو تکلیف ہے۔

پاکستان اس گیم چینجر منصوبے سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس پر بہترین کام ہورہا ہے۔ سی پیک منصوبے کے تحت 90 فیصد روڈ انفراسٹرکچر مکمل ہوچکا ہے اور اب ہم اس کے فیز ٹو میں داخل ہوچکے ہیں جو خوش آئند ہے۔ ہمیں اس وقت فیٹف یا دیگر حوالے سے زیادہ مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہمیں اپنے اندرونی مسائل سے زیادہ نقصان ہوسکتا ہے جس میں توانائی کا بحران و دیگر معاملات ہیں۔ میرے نزدیک ہمیں خود کو اندرونی طور پر مضبوط کرنا ہوگا۔

ڈاکٹر امجد مگسی
(سیاسی تجزیہ نگار )

فیٹف اور امریکا، افغان معاملات کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ فیٹف کے حوالے سے پاکستان نے کافی کام کیا، جسے امریکا سمیت خود فیٹف کے اراکین نے سراہا ۔ پاکستان نے فیٹف کے 27 میں سے 26 نکات پر عمل کیا مگر پھر بھی گرے لسٹ میں برقرار رکھا گیا جو افسوسناک ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاملات صرف 27 نکات کے نہیں بلکہ کچھ اور ہیں۔ اقوام متحدہ و دیگر عالمی ادارے جانبداری کی وجہ سے پہلے ہی اپنی ساکھ کھو چکے ہیں، اب فیٹف کے صدر نے بھی اپنے ادارے کی ساکھ کو مجروح کی اور اسے سیاست کے لیے استعمال ہونے دیا۔

امریکا نے اپنے مفادات کے لیے ہمیں جنگ میں جھونکا جس میں ہمارا مالی اورجانی نقصان ہوا۔اب امریکا ہوائی اڈے مانگ رہا ہے اور ہمیں دوبارہ سے مصیبت میں ڈالنا چاہتا ہے۔ افغانستان میں حالات خراب ہیں لہٰذا امریکا کو ہوائی اڈے نہ دینے کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان نے دو ٹوک موقف اپنا کر قوم کی امنگوں کی درست ترجمانی کی ہے، ان کا یہ موقف قابل تحسین ہے۔ فیٹف کا جھکاؤ واضح ہے، وزیراعظم عمران خان امریکا کو اڈے نہ دینے کا اعلان کرتے ہیں اور اگلے ہی روز پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کے حوالے سے فیٹف کا یہ فیصلہ آجاتا ہے جس سے اس کی جانبداری اور جھکاؤ واضح ہے۔

فیٹف کے تناظر میں ہی دشمن نے لاہور میں بدامنی کی چال چلی مگر الحمداللہ دشمن اپنی چال میں ناکام رہا۔ بدلتے حالات میں افغانستان ہمارے لیے آزمائش بنتا جا رہا ہے، وہاں بھارت بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور ہمارے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ امریکا اور بھارت مل کر ہمیں چین سے دور کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ حالات کو اپنے مفاد میں کر سکیںلہٰذا ہمیں دانشمندی سے کام کرنا ہوگا اور ہماری قیادت کو دوررس فیصلے کرنا ہونگے۔ یہ خوش آئند ہے کہ چین کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

حالیہ بجٹ میں سی پیک منصوبے کی تکمیل کیلئے خصوصی بجٹ مختص کیا گیا۔ماضی میں امریکا کی جنگ میں ہم نے بہت نقصان اٹھایا ہے، ہمیں کسی دوسرے کے گھر کی آگ کو اپنے گھر میں نہیں لگانا چاہیے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ دشمن ہماری طاق میں ہے اور ہمارے پاس غلطی کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ امریکا کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کو مل کر موقف کو مزید مضبوط کرنا چاہیے اور اس حوالے سے پالیسی بھی بنانی چاہیے تاکہ مشکلات سے بچا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔