اعتدال کی راہ اپنائیے۔۔۔۔۔!

علامہ محمد تبسّم بشیر اویسی  جمعـء 9 جولائی 2021
’’اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کشادہ کرلے کہ انجام یہ ہو جائے کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ جاؤ۔‘‘فوٹو : فائل

’’اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کشادہ کرلے کہ انجام یہ ہو جائے کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ جاؤ۔‘‘فوٹو : فائل

ہر کام میں توازن اور تناسب سے چلنے کو میانہ روی کہتے ہیں اور میانہ روی کے لیے اعتدال کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔

کسی بھی عمل میں پستی اور بلندی ہمیشہ قائم نہیں رہتی اِن دونوں کا درمیانی راستہ اعتدال ہے۔ اعتدال ہمیشہ قائم رہتا ہے کہ اعتدال تقاضائے فطرت ہے۔ کیوں کہ اﷲ تعالیٰ کی ہر بنائی ہوئی چیز میں اعتدال ہے اور اس کارخانۂ حیات کا نظام میانہ روی پر ہی قائم ہے۔

اس لیے اﷲ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے لیے بھی اعتدال کی راہ پسند فرمائی ہے۔ کیوں کہ اعتدال سے ہر کام میں استحکام پیدا ہوتا ہے، دنیا و آخرت کی بھلائی حاصل ہوتی ہے، خوش حالی اور سکون کی دولت میسر رہتی ہے، اعتدال سے بے شمار تکالیف سے نجات ملتی ہے، اس لیے زندگی کے ہر کام میں میانہ روی کو اپنانا چاہیے۔ کیوں کہ حضور ﷺ کا راستہ یہی ہے اور اِسی راستے کو حضور اکرم ﷺ نے ہر مسلمان کے لیے پسند فرمایا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے ہاں بھی اعتدال کی بہت فضیلت ہے۔

ارشاد ِ باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ’’اور اپنی چال میں اعتدال کیے رہنا اور بولتے وقت آواز نیچی رکھنا کیوں کہ (اونچی آواز گدھوں کی سی ہے اور کچھ شک نہیں کہ) سب سے بُری آواز گدھوں کی ہے۔‘‘ (لقمان) حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی کہ چلنے میں اعتدال اختیار کرو اور گفت گُو کرتے وقت اپنی آواز کا لہجہ نرم رکھو، بہ ظاہر یہ فرمان رفتار اور گفتار میں میانہ روی کے متعلق ہے مگر اس سے یہ بات اخذ ہوتی ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں اعتدال اختیار کرنے سے بے شمار پریشانیاں دور ہو جاتی ہیں اور آسانیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔

قرآن حکیم کی سورہ بنی اسرائیل میں راہ نمائی فرمائی گئی ہے، مفہوم: ’’اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کشادہ کرلے کہ انجام یہ ہو جائے کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ جاؤ۔‘‘ بخل کرنے کو ہاتھ باندھنا کہا جاتا ہے اور ضرورت سے زیادہ کشادہ کرنا فضول خرچی ہے اور دونوں کے درمیان میانہ روی ہے۔ اعتدال کا مطلب یہ ہے کہ بخیل بن کر دولت کو روکیں اور نہ فضول خرچ بن کر اپنی مالی حالت کو خراب کریں۔

مفہوم: ’’کہہ دو کہ تم (خدا کو) اﷲ (کے نام سے) پکارو یارحمٰن (کے نام سے) جس نام سے پکارو اس کے سب نام اچھے ہیں اور نماز نہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ آہستہ بلکہ اس کے بیچ کا طریقہ اختیار کرو۔‘‘ (بنی اسرائیل) نماز باجماعت کی تلاوت جہری کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ قرأت کرنے میں میانہ روی اختیار کرو یعنی نہ اتنی بلند آواز سے پڑھو کہ طبیعت پر گرانی محسوس ہو اور نہ اتنی مدھم آواز سے پڑھو کہ پڑھنے کا مقصد ہی حاصل نہ ہو۔ اس سے مراد یہ ہے کہ تلاوت میں بھی اعتدال کی راہ اختیار کرو۔

مفہوم: ’’اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بیجا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں بل کہ اعتدال کے ساتھ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم ۔‘‘ (سورہ الفرقان) اﷲ کے بندوں میں بہت سی خوبیاں ہوتی ہیں اُن خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ نہ فضول خرچ اور بخیل ہوتے ہیں بل کہ اعتدال کی راہ اختیار کیے رہتے ہیں۔ فضول خرچی میں دولت ضایع ہو جاتی ہے جو بعد میں پریشانی کا باعث بنتی ہے اور بخل میں مال خرچ کرنے کے باوجود مقصد حاصل نہیں ہوتا، اس لیے اعتدال ہی صرف وہ طریقہ ہے جس کو اپنانے سے پریشانی بھی پیدا نہ ہوگی اور مقصد بھی حاصل ہوگا۔

حضرت جابر بن سمرہؓ سے روایت ہے کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ نمازیں پڑھا کرتا تھا، آپؐ کی نماز میانہ ہوتی اور خطبہ بھی درمیانہ ہوتا۔ (مسلم) حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا کہ تکلّف کرنے والے ہلاک ہوئے۔ (مسلم)

حضرت وہب بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حضرت سلمانؓ اور ابوالدرداءؓ کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا۔ (ایک مرتبہ) حضرت سلمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضرت ابوالدرداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاں گئے تو اُم ِ درداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو پھٹے پرانے کپڑوں میں دیکھا اور فرمایا کہ یہ کیا حالت ہے ؟ اُم ِ درداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا: بھائی! ابودرداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو دنیا کی کچھ حاجت نہیں۔ (پھر جب) ابودرداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آئے تو حضرت سلمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لیے کھانا تیار کیا اور فرمایا: کھائیے میں روزہ دار ہوں۔ حضرت سلمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: جب تک تم نہیں کھاؤ گے، میں نہیں کھاؤں گا۔ چناں چہ انہوں نے بھی کھایا۔

جب رات ہوئی تو ابودرداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ عبادت کے لیے چل پڑے۔ حضرت سلمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: سوجاؤ۔ وہ سوگئے پھر اُٹھ کر چل دیے۔ حضرت سلمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا: سوجاؤ۔ رات کا آخری حصہ ہوا تو حضرت سلمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اب اٹھو۔ چناں چہ دونوں نے اکٹھے نماز ادا کی۔ حضرت سلمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: بے شک! تمہارے پروردگار کا تم پر حق ہے، تمہارے نفس کا تم پر حق ہے، تمہارے گھر والوں کا تم پر حق ہے لہٰذا ہر حق دار کو اُس کا حق دو۔ حضرت ابودرداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا واقعہ سنایا تو آپ ﷺ نے فرمایا: کہ سلمانؓ نے سچ کہا۔ (مفہوم حدیث بخاری)

حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اے لوگو! کوئی چیز ایسی نہیں جو تمہیں جنّت سے قریب اور دوزخ سے دور کردے مگر وہی چیزیں جن کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اور کوئی چیز ایسی نہیں جو تمہیں دوزخ سے قریب اور جنت سے دور کردے مگر وہی چیزیں جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے، بے شک روح الامین (اور دوسری روایت میں ہے کہ روح القدس) نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ کوئی شخص اپنا رزق پورا کیے بغیر نہیں مرتا، آگاہ ہو جاؤ اور اﷲ سے ڈرو اور رزق کے لیے درمیانی راستہ اختیار کرو اور رزق کی تاخیر تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ اس کو اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی میں تلاش کرنے لگو کیوں کہ جو اﷲ تعالیٰ کے پاس ہے وہ نہیں حاصل کیا جاسکتا مگر اُس کی اطاعت سے۔‘‘ (بیہقی، شرح السنتہ)

حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ کا معمول یہ رہتا تھا کہ آپؐ مہینہ بھر تک افطار کرتے اور ہمیں یہ خیال ہونے لگتا کہ اب آپ ﷺ روزہ نہ رکھیں گے لیکن جب روزے رکھنے شروع کرتے تو یہ خیال ہونے لگتا کہ اب تھوڑے دن کے لیے بھی افطار نہ کریں گے۔ اور سرکار یہ نہیں چاہتے تھے کہ تم انہیں رات میں مصروف ِ نماز دیکھو مگر دیکھتے تھے اور نہ یہ چاہتے تھے کہ تم انہیں سوتا دیکھو مگر دیکھتے تھے آپ ﷺ شب میں سوتے بھی تھے اور نماز میں مشغول بھی رہتے تھے۔ (بخاری)

حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے فرمایا کہ میانہ روی اختیار کرنے والے کی یہ شان ہے کہ میانہ روی اختیار کرنے والا کبھی محتاج نہیں ہوتا، اس لیے اعتدال کی راہ اختیار کرو ہمیشہ باعزت رہوگے۔

اِن پانچ چیزوں میں میانہ روی آرام اور سکون کا باعث بنتی ہے: کھانے میں اعتدال صحت کا ضامن ہے۔ خرچ میں اعتدال خوش حالی کا ضامن ہے۔ محنت میں اعتدال درازیٔ عمر کا ضامن ہے۔ گفت گو میں اعتدال وقار کا ضامن ہے۔ سوچ میں اعتدال خود اعتمادی کا ضامن ہے۔

آج امت ِ مسلمہ تعلیمات اسلام سے دور ہوچکی ہے، ہر آدمی ضرورت سے زیادہ اپنے اخراجات کو بڑھا رہا ہے، چاہے ارباب ِ اختیار ہوں یا عام آدمی، اگر ہم ملکی استحکام چاہتے ہیں تو ہمیں اور ہمارے حکم رانوں کو اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہوگا، بیرونی قرضوں سے نجات بھی اعتدال اور میانہ روی کی راہ اپنانے سے ممکن ہوسکتی ہے۔ حاصل کلام یہ کہ ہمیں ہر کام میں میانہ روی اختیار کرنی چاہیے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔