بلوچستان کی سرزمین بھی امن کی منتظر ہے

ایمان ملک  جمعرات 15 جولائی 2021
بلوچستان کو وعدوں، دعوؤں اور بیانات کے بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: فائل)

بلوچستان کو وعدوں، دعوؤں اور بیانات کے بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: فائل)

بلوچستان میں سی پیک سے وابستہ ریاست کی ترقی و خوشحالی کا مطلوبہ ہدف ایک طرف، مگر عرصہ دراز سے مذکورہ صوبے میں دشمنوں کی شہ پر سرگرم باغی و مسلح گروہ پاکستان کا دردِ سر بن گئے ہیں۔

گزشتہ برسوں کے دوران، بلاشبہ سیکیورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر پُرتشدد مزاحمت کاروں اور شرپسند تنظیموں پر قابو پایا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ واضح ہے کہ یہ ایک مشکل علاقائی ماحول، جس سے پاکستان تاحال نبرد آزما ہے، میں تشویشناک صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ پیر کو گوادر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے ’’ناراض انتہاپسندوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے ارادے کا اظہار کیا جو بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز کو مزاحمت پیش کررہے ہیں‘‘۔

اگر حکومت پاکستان واقعتاً ان عناصر سے بات چیت پر غور کررہی ہے تو اس کی کامیابی کا دارومدار تمام متعلقہ اداروں اور ذمے داران میں ایک درست اور معقول تشخیص پر مبنی ہے۔ یہ جاننے کےلیے کہ ریاست ماضی میں مذکورہ صوبے کے بارے میں اپنی پالیسیوں میں کہاں غلطی کر بیٹھی ہے یا کہاں کمی رہی اور کہاں اس سے کوتاہی سرزد ہوئی؟

بہرکیف، مذکورہ بالا خودساختہ محاسبے کے نتیجے میں بلوچستان میں روز اول سے اب تک متعدد شورشیں پیدا ہونے کی خاطر خواہ انتظامی وجوہات سامنے آئیں گی۔ لیکن کیا حکومت پاکستان میں ایسی خودکشی کی صلاحیت موجود ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان دشمن غیر ملکی عناصر نے بلوچستان میں تنازعے کو بڑھاوا دینے میں مسلسل جلتی پر تیل ڈالنے کا کردار ادا کیا ہے، اور ابھی تک وہ اپنا یہ گھناؤنا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔

آخری بار جب ’ناراض بلوچوں‘ کے ساتھ بات چیت کرنے کی بات کی گئی تھی، تب نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عبدالمالک بلوچستان کے وزیراعلیٰ تھے۔ انہوں نے اپنے جلاوطنی کے زمانے میں ہی علیحدگی پسند رہنماؤں تک رسائی حاصل کرلی تھی، اور ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے لندن کے دورے پر ان میں سے کچھ سے ملے بھی ہوں۔ بہرحال، تب ان کی کاوشیں نامعلوم وجوہات کی بنا پر ناکام ہوگئی تھیں۔ مگر یہاں میں یہ گوش گزار کرتی چلوں کہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں اس امن کے عمل کو عملی جامہ پہنانے کا عزم ضرور ظاہر کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مایوس بلوچوں اور ریاست کے مابین عدم اعتماد کا وسیع وعریض یہ تنازعہ نا صرف ہر انتخابی وعدے کے نتیجے میں بڑھتا چلا گیا، بلکہ ہر ’ترقیاتی پیکیج‘ جس کا اعلان تو عوامی امنگوں پر کیا جاتا تھا مگر یہ بات غور طلب ہے کہ خودساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والے چند بلوچ سرداروں کی سماجی میڈیا پر وائرل ہونے والی جتنی بھی ویڈیوز موجود ہیں، ان میں ان کے لائف اسٹائل سے تو لگتا ہے کہ ’بلوچستان اسپیشل پیکیجوں‘ کے ثمرات ہمیشہ بلوچستان کے سرداروں اور مذکورہ صوبے کے کرتا دھرتا تک ہی محدود رہے۔ اس لیے میری ناقص رائے میں بلوچستان کی موجودہ زبوں حالی کی ذمے دار ریاست سے بڑھ کر ان کے اپنے چند بڑے بھی ہیں۔ جن کے پاس امریکا، برطانیہ اور کینیڈا کی شہریت ہے، وہاں محل نما گھر ہیں۔ سوال تو بنتا ہے کہ ان نوابوں اور وڈیروں کے حالات کیوں ہمیشہ بہتر سے بہترین جبکہ صوبے کے بدترین ہوتے چلے گئے؟

علاوہ ازیں، پاکستان نے کچھ متضاد اور پاکستان مخالف کرداروں کو بھی ضرورت سے زیادہ ڈھیل دینے کی خطا کی۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان دیگر ریاستوں کی پیروی کرتے ہوئے ایسے شر انگیز عںاصر کو ان کے لانچ ہونے سے قبل غیر فعال بنانے کےلیے ایک باقاعدہ حکمت عملی ترتیب دے۔

بلاشبہ، بھارت ایک عرصے سے بلوچستان میں بدامنی پھیلانے کی کوششوں کی دھن میں محو ہے۔ تاہم ہمارا ازلی دشمن اپنے مذموم مقصد کے حصول میں ناکام رہا۔ کبھی اس نے اپنا کالا دھن استعمال کیا، تو کبھی اس نے اپنے بھیجے ہوئے کلبھوشنوں کے ذریعے پاکستان کے امن کو تار تار کیا۔ اس لیے وطن کی اہمیت کو نظر انداز کرنے والے کچھ بدبخت بھارت کے ہاتھوں کھلونا بنتے بھی رہے۔ لیکن ان تمام سازشوں کے باوجود بھی بلوچستان میں ہمیشہ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے جاتے رہے ہیں، وہاں پاکستان کی جشن آزادی کی ریلیاں نکلتی رہی ہیں۔ البتہ اب گوادر کو دیکھ کر دشمنوں کو آگ لگی ہوئی ہے۔ سی پیک ان کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ جس کے پیش نظر وہ مختلف سازشوں اور نئے کرداروں کے ذریعے پاکستان کےلیے جگ ہنسائی کے اسباب تو پیدا کرتے ہی رہتے ہیں مگر وقت شاہد ہے کہ تاحال پاکستان ان کی ہر چال، ہر ناپاک منصوبے کو شرمندہ تعبیر ہونے سے روکے ہوئے ہے۔

بہرکیف، روز اول سے ہی بلوچستان کو وعدوں، دعوؤں اور بیانات کے بجائے عملی اقدامات کی ضرورت تھی۔ اب جاکر وزیراعظم عمران خان عملی اقدامات کی طرف بڑھے ہیں۔ انہوں نے شاہ زین بگٹی کو وزیراعظم کا معاون خصوصی مقرر کردیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق شاہ زین بگٹی معاون خصوصی برائے مصالحت و ہم آہنگی بلوچستان ہوں گے۔ شاہ زین بگٹی کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر ہوگا۔ فی الحال انہیں ناراض بلوچوں سے بات چیت کا ہدف دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ شاہ زین ڈیرہ بگٹی قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 259 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں، نیز وہ وفاق میں حکمران جماعت کے اتحادی بھی ہیں۔ یہ تقرری اس لحاظ سے تو خوش آئند ہے کہ بلوچستان کو قومی دھارے میں شامل کیا جارہا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ حکومت کو یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ وہاں صرف بگٹی ہی نہیں دیگر قبائل بھی آباد ہیں۔ وہاں جمالی، مینگل، بزنجو سمیت دیگر قبائل رہائش پذیر ہیں۔

میری ناقص رائے میں حکومت پاکستان کو ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے ’بلوچ سرداروں‘ کا ایک جرگہ تشکیل دینا چاہیے تاکہ سب مل کر ایک جھنڈے تلے ملک و قوم کی بہتری کےلیے کام کرسکیں۔ اس وقت جب بلوچستان میں سی پیک عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے تو بلوچ سرداروں کو متحد کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ بلوچستان کے لوگوں میں موجود احساسِ محرومی کو ختم کرنے کےلیے بھی ہنگامی بنیادوں پر کام کرے۔ انہیں معاشی طور پر مستحکم کرے۔ گزشتہ چند برسوں میں بلوچستان اور پاکستان کے امن کو ہدف بنا کر ملک دشمنوں نے جو ناپاک کھیل کھیلا اب اس کے اختتام کا وقت آن پہنچا ہے۔ پاکستان نے پہلے بھی کڑی مشکلات کے باوجود دشمن کے ایجنڈے/ بیانیے کا تدارک کیا، اور آگے بھی کرتا رہے گا۔

مزید برآں، وزیراعظم عمران خان کو بلوچستان صرف نئے منصوبوں کا سنگِ بنیاد رکھنے یا افتتاح کرنے کےلیے جانے کے بجائے اس دورے کو اپنے معمول کی ترجیحات میں شامل کرنا چاہیے۔ اور ہر مہینے وہاں جانا چاہیے، تاکہ لوگوں میں اپنائیت کا احساس پیدا ہو۔ نیز اس وقت وہاں بلوچوں اور مذکورہ صوبے میں آباد دیگر قومیتوں کو ایک ساتھ بٹھا کر ملکی ترقی کےلیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو مستقبل میں اس سے بھی زیادہ کڑے وقت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، کیونکہ جس طرح افغانستان میں تیزی سے تبدیلی رونما ہورہی ہے اور افغان طالبان وہاں زور پکڑ رہے ہیں، اندیشہ ظاہرکیا جارہا ہے کہ اس کے مضر اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔ اس لیے ہمیں پہلے سے زیادہ متحد اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ نیز ہمیں اندرونی غداروں اور بیرونی دشمنوں پر نگاہ رکھتے ہوئے بروقت فیصلوں کی ضرورت بھی ہے۔

المختصر، مزاحمت کاروں تک پہنچنے کی کسی بھی سنجیدہ کوشش کےلیے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ سویلین حکومت کا آپس میں بھی اتفاق رائے ہونا ناگزیر ہے۔ اور اس اتفاق رائے کو ہر صورت میں بلوچستان کو مراعات دینے کی رضامندی پر مبنی ہونا چاہیے۔ نیز یہ کہ ریاست کو بلوچستان کے وسائل پر اپنا کنٹرول قدرے کم کرکے اس منافع سے کسی حد تک صوبے میں لوگوں کو بنیادی ضروریات زندگی اسپتال، اسکول، روزگار اور سب سے بڑھ کر انہیں امن فراہم کرنے پر براہِ راست خرچ کرنا ہوگا۔ کچھ تجزیہ نگاروں کی رائے میں اس تصفیے کا وقت بہت طویل عرصہ پہلے ہی گزرچکا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک خوش آئند حقیقت ہے کہ بہت سارے بلوچ سردار نا صرف امن کے خواہاں ہیں بلکہ وہ خود کو علیحدگی پسندوں اور ریاست کے مابین پھنسا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ بس پاکستان نے اپنی ان پرامن کاوشوں سے انہی محب وطن بلوچوں کی طرف اپنا ہاتھ پھر سے بڑھانا ہے اور یاد رہے حکومت پاکستان کو اس بار ماضی کی طرح صرف نوابوں اور سرداروں کو نہیں نوازنا بلکہ یہ تسلی کرنی ہے کہ غریب بلوچ عوام کو بھی سکھ کا سانس ملے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایمان ملک

ایمان ملک

بلاگر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد پاکستان سے پیس اینڈ کانفلیکٹ اسٹڈیز میں ایم فل ڈگری کی حامل اور دفاعی امور سے متعلق ایک تھنک ٹینک میں بطور ریسرچ ایسوسی ایٹ آفیسر خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ یونیٹار، اوسی، یوسپ، یونیورسٹی آف مرڈوک آسٹریلیا جیسے نامور اداروں سے انسداد دہشت گردی اور سیکیورٹی اسٹڈیز میں متعلقہ کورسز کر رکھے ہیں۔ ان کی مہارت کی فیلڈز میں ڈیفنس اینڈ اسٹرٹیجک اسٹڈیز اور پیس اینڈ کانفلیکٹ اسٹڈیز شامل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔