سیاسی قصائی

راؤ منظر حیات  ہفتہ 24 جولائی 2021
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

آزادکشمیر میں الیکشن ہونے والے ہیں۔ مختلف جماعتوں کے اکابرین کی تقاریر سن کر لگتا ہے کہ یہ مقابلہ سیاسی نہیں بلکہ ادنیٰ فقروں کا ہے۔ پھر ہماری اجتماعی شعور کی پختگی کا یہ عالم ہے کہ جتنے بڑے ذو معنی فقرے ہوں گے اتنا ہی جلسہ میں موجود بہادر سامعین خوشی سے تالیاں بجائیں گے ۔ منفی مقابلے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ کئی تقاریر تو اتنی غیر معیاری ہیں کہ سرحد پار مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کا سر شرم سے جھک گیا ہو گا۔

کہ یہ ہیں پاکستان کے سیاسی رہنما ۔ غرض میں بندھے ہوئے پارٹی کے کارکنان کی اکثریت کو تو شاید اپنی قیادت کی باتیں بری نہ لگیں‘ مگر مجموعی طور پر ہمارے  مقررین گری ہوئی تقاریر کرنے میں مصروف ہیں۔ ویسے ایک اندازہ تو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ’’جئے بھٹو‘‘ کے نعرہ کا اب آزاد کشمیر میں بھی چل چلاؤ نظر آ رہا ہے۔ زرداری صاحب نے ایک عظیم سیاسی جماعت کو شخصی خوف کے زور پر جس طرح چلایا ہے اس کی بدولت اب یہ پارٹی دراصل سیاسی جماعت کے درجہ سے کم ہو کر چند لوگوں کے شخصی مفادات تک محدود ہو چکی ہے۔

سندھ کی صوبائی حکومت غیر فعال اور نحیف ہے۔ اس کا وجود صرف پریس کانفرنسوں کی بدولت ہے۔ کیا فریال تالپور صاحبہ کی کشمیر میں موجودگی سے کوئی بھی جیالا سنجیدگی سے اپنی ہی پارٹی کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ ہو گا۔ باقی آصفہ زرداری کے متعلق کوئی بھی بات کرنا مناسب نہیں۔کیونکہ ابھی تو وہ میدان میں طفل مکتب بھی نہیں۔ سفید دوپٹہ اوڑھ کر بے نظیر بھٹو نہیں بنا جاسکتا۔ عظمت اگر وراثت میں تھوپ دی جائے تو اس میں سے جہاں دیدہ بصیر ت جنم نہیں لے سکتی۔ یہی قانون قدرت ہے۔ کبھی برگد کے درخت کے نیچے پودے اور درخت نہیں اگتے۔ سیاست میں بھی یہی ہے۔

بلکہ انسانی حیات میں بھی یہی کلیہ موجود ہے۔ نیلسن منڈیلا ایک ہی تھا۔ اس کے بعد پورے خاندان میں اس جیسا عظیم لیڈر جنم نہیں لے سکا۔ قائداعظم کے کئی بھائی تھے‘ مگر کوئی بھی ان کی ذہانت اور سیاسی فکر کے پاسکو بھی نہیں تھا۔ یہی حال برصغیر میں دوسرے قائدین کا تھا۔ گاندھی کے بیٹوں کے نام تک کوئی نہیں جانتا۔ ہمارے بڑے سیاسی خاندان‘ اس قانون قدرت کی مخالفت کر رہے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ  سیاسی عظمت سے دور اولاد کو اتالیق رکھ کر لیڈر بنایا جا رہا ہے۔

کشمیر کے الیکشن میں ان کی باتین سن کر تعجب ہوتا ہے کہ یہ ملک کے عام شہریوں کو کتنا بے وقوف سمجھتے ہیں۔ اب افسوس نہیں ہوتا بلکہ ہنسی آتی ہے۔ اپنی پرانی باتوں کے متضاد ایسی باتیں کرتے ہیں کہ شاید انھیں احساس نہ ہو، مگرسننے اور دیکھنے والے بہر حال اندر ہی اندر اسے محسوس کرتے  ہیں۔ اب گمان ہے کہ ندامت کا احساس بھی ہمارے سیاسی کلچر سے جا چکا ہے۔

تحریک انصاف کے ایک مرکزی وزیر جو شہد کی بوتلوں کی وجہ سے ’’لازوال سچائی‘‘ کے علمبردار ہیں۔ آزاد کشمیر کی سیاست میں سرعام پیسے دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اتنی ڈھٹائی ہے کہ فرمایا جا رہا ہے کہ ذاتی جیب میں سے خرچ کر رہا ہوں۔ مگر واقف حال جانتے ہیں کہ پیسہ کس ادارے کا ہے۔

آپ آزاد کشمیر کے الیکشن کمشنرکی بے بسی دیکھیے کہ فرماتے ہیں کہ انھیں کشمیر کی انتخابی مہم سے نکال دیا جائے۔ صاحب ‘ کتنا کمزور سا حکم ہے۔ اگر یہ لندن کے کسی الیکشن میں ہو رہا ہوتا تو اُس شخص کو نہ صرف وزارت سے نکالا جاتا بلکہ تاحیات کسی طرح کے انتخاب میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار پاتا۔ مگر یہ تو پاکستان ہے۔

بھلا ہمارا میرٹ سے کیا تعلق؟ یقین فرمائیے کہ ہم تمام لوگ اب پوری دنیا سے الٹی سمت میں دوڑ رہے ہیں۔ دنیا کا ہر ملک ہم سے خوف زدہ ہے اور ہم اپنے حال میں بد مست ہیں۔ اگر ہم آج بھی ہوش میں نہ آئے‘ تو جان لیجیے کہ دنیا کے طاقت ور ملک ہماری موجودہ جغرافیائی حیثیت کو بدلنا چاہتے ہیں۔ شاید میری گزارش کو اہمیت نہ دیں مگر جو خاکسار کو نظر آ رہا ہے ۔ وہ یہی ہے کہ ہماری سالمیت شدید خطرے میں ہے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعت  کے قائدین جلسے میں وہ وہ کچھ فرما رہے ہیں کہ ہنسنا بھی دشوار اور رونا بھی مشکل۔ فرمایا گیا کہ بھائیو‘ آزاد کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنایا جا رہا ہے ۔

یہ مکمل طور پر حقائق کے خلاف ہے۔ آزاد کشمیر ایک الگ ملک ہے اور اسے کسی طور پر بھی پاکستان کا صوبہ نہیں بنایا جا سکتا۔ پھر یہ فرمانا کہ فلاں ’’سلیکٹڈ‘‘ ہے۔ یہ بیانیہ بھی حد درجہ نقصان دہ ٹھہرا ہے۔ ن لیگ کے ایلچی‘ اسٹیبلشمنٹ  کے گیٹ نمبر 4 کے سامنے سجدہ ریز ہیں کہ خدارا ہم پر نظر کرم ڈالیے۔ ہم بھی تو راہوں میں پڑے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ مسئلہ ’’سلیکٹڈ‘‘ کا نہیں‘ بلکہ یہ ہے کہ ہم ’’کیوں سلیکٹ‘‘ نہیں ہو پا رہے۔

ایسی ایسی منتیں اور تاولیں کہ خدا کی پناہ۔ یہاں تک فرما چکے کہ ’’میں تو پیر پکڑنے کے لیے بھی تیار ہوں‘‘۔ طالب علم کو کوئی اعتراض نہیں کہ طاقت ور حلقوں سے کسی بھی سیاسی جماعت یا گروہ کی مفاہمت ہو۔ الجھن اس وقت ہوتی ہے جب اس خواہش کو چھچھوری اخلاقیات کا لباس پہنا کر صریحا جھوٹ بولا جاتا ہے۔ ن لیگ اگر اس طرح کی دو عملی سے اجتناب کرتی تو آج معاملات اور ہوتے ۔

دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے ۔ کیا ہندوستان کا وزیراعظم‘ آزاد کشمیر میں ہمارے سیاسی قائدین کے الجھے ہوئے بیانات سن کر قہقہے نہیں لگاتا ہو گا۔ کیا مقبوضہ کشمیر میں پاکستان سے نسبت رکھنے والے لوگ جزبز نہیں ہو رہے ہونگے۔ شایدشدید ذہنی تناؤ کا شکار ہو رہے ہیں۔ مگر ہم اور ہمارے دانشور کھل کر جگ ہنسائی کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ اب تو صورت حال یہ ہے کہ کسی بھی انیکر پرسن یا دانشور کی صرف شکل دیکھ کر معلوم ہوجاتا ہے کہ موصوف کس سیاسی قائد کی شان میں قصیدہ پڑھینگے اور کس مخالف کے لتے لینگے ۔

ٹی وی ٹاک شوز اب اتنی یکسانیت کا شکار ہو چکے ہیں کہ لوگ دیکھنا چھوڑ چکے ہیں۔ امریکا میں ایک غیرمتعصب لکھاری سے بات ہوئی تو وہ ہمارے ملک کی اشرافیہ‘ ان کی ایک دوسرے سے تلخی اور ابتر سیاسی صورت حال سے کافی بددل تھا۔ کہنے لگا کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان بڑی تیزی سے ہر طرح کی حمایت کھو رہاہے۔ اس کے بقول وائٹ ہاؤس کو آج بھی یقین نہیں ہے کہ پاکستان‘ دراصل افغانستان میں کس فریق کے ساتھ ہے۔ صدر اشرف غنی کے بیانات اور افغان سفیر کی پاکستان سے واپسی حد درجہ منفی صورت حال کو جنم دے چکی ہے۔

مگر ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔ سیاسی جماعتیں آزاد کشمیر کے الیکشن میں کامیابی کے لیے ہر غیر معیاری حربہ اور نعرہ استعمال کریں گے بلکہ کر رہی ہیں۔ جھوٹ کے اس کاروبار میں پاکستان کے مستقبل کی کس کو فکر ہے‘ کسی کو بھی ادراک نہیں۔ کون اس ملک کے زخموں پر مرہم رکھے گا‘ دور دور تک کوئی مسیحا موجود نہیں ہے۔ ہاں مختلف دل کش روپ میں سیاسی قصائی موجود ہیں اور ان کا کاروبار خوب چل رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔