الزامات کی سیاست کے بجائے جمہوری روایات کو فروغ دینے کی ضرورت

ارشاد انصاری  بدھ 28 جولائی 2021
پاکستان میں بھی داخلی وخارجی سطح پر سرگرمیوں میں تیزی آرہی ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی متحرک ہوگیا ہے۔فوٹو : فائل

پاکستان میں بھی داخلی وخارجی سطح پر سرگرمیوں میں تیزی آرہی ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی متحرک ہوگیا ہے۔فوٹو : فائل

 اسلام آباد:  پاکستان کے بعد آزاد کشمیرمیں بھی تبدیلی آگئی ہے پاکستان مسلم لیگ(ن)کے بڑے بڑے جلسے کام دکھا سکے اور نہ ہی پیپلز پارٹی کے جیالے کوئی رنگ جما سکے دونوں جماعتیں آزاد کشمیر میں کئی روز بھرپور عوامی طاقت کا مظاہرہ کرتی رہیں اور تحریک انصاف کے سربراہ و وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ازبکستان کے دورے سے واپسی پر آزاد کشمیر کا رخ کیا اور نوازشریف مخالف بیانہ سے بھرپورجذباتی تقاریر میں کشمیر کے انتخابات میں خوب پذیرائی حاصل کی۔

وزیر اعظم عمران خان نے آزاد کشمیر میں اپنی پارٹی کی انتخابی مہم کے دوران جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر میں دو الگ الگ ریفرنڈم کروانے کا عندیہ دیا اور کہا کہ پہلا ریفرنڈم اقوام متحدہ کے تحت ہو گا، جس میں کشمیری عوام فیصلہ کریں گے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔ دوسرا ریفرنڈم تحریک انصاف کی حکومت کرائے گی، جس میں کشمیری عوام یہ فیصلہ کریں گے کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا آزاد ریاست کے طور پر رہنا چاہتے ہیں۔

وزیر اعظم کے اس بیان پر اپوزیشن سمیت دیگر مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید بھی کی گئی اور بھارت نے بھی اسے پاکستان کے خلاف پراپیگنڈے کیلئے خوب توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی مگر کشمیری عوام کی طرف سے اس بیانئے کو سراہا گیا اس بیانئے نے یقینی طور پر تحریک انصاف کو آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھی بھرپور فائدہ پہنچایا اورآزاد کشمیر کے عام انتخابات میں حسب توقع پاکستان تحریک انصاف نے پچیس نشستوں پر میدان مار لیا ہے۔

پیپلز پارٹی دوسرے اور ن لیگ تیسرے نمبر پر رہی ہے انتخابات کے بعد وہی ہو رہا ہے جو قیام پاکستان سے ہوتا چلا آرہا ہے وہی دھاندلی کے الزامات ،نتائج تسلیم نہ کرنے کے اعلانات ہیں اور الیکشن کمیشن کے پاس شکایات ہیں تو کہیں احتجاج اور دھرنا ہے اور تینوں بڑی جماعتیں ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات لگا رہی ہیں۔

پیپلز پارٹی نے ن لیگ پر اور ن لیگ تحریک انصاف پر دھاندلی کا الزام لگا رہی ہے اور تحریک انصاف فتح کا جشن منا رہی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کی بیان بازی اور ایک دوسرے کے خلاف لفظی گولہ باری جاری ہے پیپلز پارٹی نے تو راجہ فاروق حیدر کو جتوانے کیلئے دھاندلی کا الزام لگا کر ووٹون کی دوبارہ گنتی کیلئے دھرنا بھی دیدیا ہے۔

ان سطور کی اشاعت تک اس بارے ہونیوالی پیشرفت سامنے آجائے گی، مگر پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بھی کمر کس لی ہے ۔ آزاد کشمیر انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی پر ردعمل دیتے ہوئے مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے2018 کے پاکستانی عام انتخابات کی طرح آزاد کشمیرعام انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا ہے البتہ دھاندلی پر کیا لائحہ عمل ہو گا۔

جبکہ پی ٹی آئی کے رہنما وں کی جانب سے 2023 کے پاکستان کے عام انتخابات میں بھی میدان مارنے کے دعوے کئے جا رہے ہیں اور وزیر داخلہ شیخ رشید کا تو کہنا ہے کہ اگلے پانچ سال بھی تحریک انصاف کے ہیں اور 2023 میں بھی اپوزیشن اسی طرح دھاندلی کا رونا دھونا کرتی رہے گی اور پی ٹی آئی کامیابی حاصل کر کے حکومت بنائے گی۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے حسب روایت میاں نوازشریف پر بھی خوب تنقید کے نشتر چلائے انکا کہنا تھا کہ نوازشریف کا ایک ہی ایجنڈا ہے، اینٹی آرمی، اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی عمران خان، ہم ان کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔

چارٹرڈ جہاز دینے کو تیار ہیں، وہاں بیٹھ کر اینٹی اسٹیٹ اور اینٹی عمران خان تقریریں نہ کریں۔ دوسری جانب انتخابی نتائج پر سیاسی جماعتوں کی بیان بازی اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے ساتھ ساتھ ساتھ آزاد کشمیر اسمبلی کی 45 عمومی نشستوں پر انتخابات کے بعد اب سیاسی جماعتوں نے مخصوص نشستوں کے لیے صف بندی کرنا شروع کر دی ہے۔ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی 53 ارکان پر مشتمل ہوتی ہے، جن میں سے 45 عمومی نشستیں ہیں جن پر براہ راست پولنگ ہوتی ہے ۔

ایوان میں خواتین کے لیے 5 جب کہ علماء و مشائخ، ٹیکنو کریٹ اور اوورسیز کشمیریوں کی ایک ایک نشست ہے۔ خواتین کی 5 نشستوں پر انتخاب کے لئے 9 ، 9 ارکان اسمبلی کے پینل بنیں گے ، عددی اعتبار سے پی ٹی آئی خواتین کی 3 جب کہ پیپلز پارٹی کم از کم ایک نشست پر کامیاب ہو جائے گی، خواتین کی ایک نشست پر اگر پیپلز پارٹی ، (ن) لیگ ، مسلم کانفرنس اور جے کے پی پی اتفاق کر لیں تو ایک سیٹ جیت سکتی ہیں ، اسمبلی میں علماء و مشائخ، ٹیکنو کریٹ اور اوورسیز کشمیریوں کی ایک ایک نشست ہے، جن پر پورا ایوان ووٹ دے گا۔

اس بات کا قوی امکان ہے کہ عددی اکثریت کی بنیاد پر تحریک انصاف تینوں نشستیں بھی جیت لے گی۔ آزاد کشمیر اسمبلی کے نئے قائد ایوان کیلئے تحریک انصاف کے تگڑے امیدواروں کے درمیان بھی مقابلہ سخت ہے ۔ وزارت عظمی کیلئے سردار تنویر الیاس اور بیرسٹر سلطان محمود کے نام سامنے آ رہے ہیں اور سردار تنویر الیاس کو زیادہ تگڑا امیدوار سمجھا جا رہا ہے ۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ آزاد کشمیر کی وزارت عظمی کا ہما سردار تنویز الیاس کے سر بیٹھنے جا رہا ہے تاہم حتمی فیصلہ وزیراعظم عمران خان ہی کریں گے اور جو ہوگا اگلے چند روز میں واضح ہو جائے گا ۔

ادھر پاکستان میں بھی داخلی وخارجی سطح پر سرگرمیوں میں تیزی آرہی ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی متحرک ہوگیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سیاسی جماعتوں کے سربراہان سے ممنوعہ فنڈنگ سے متعلق بیان حلفی مانگ لیا ہے، رجسٹرڈ سیاسی جماعتیں آمدنی، اخراجات اور واجبات کی تفصیلات بھی 29 اگست تک جمع کرائیں گی۔

الیکشن کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوں کو یاددہانی کا مراسلہ ارسال کر دیا ہے۔دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کے اراکین کے عہدے کی مدت پوری ہو گئی تاہم نئے اراکین کی تعیناتی کے لئے تاحال کوئی پیشرفت نہیں کی گئی۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق اس سے قبل سندھ اور بلوچستان سے الیکشن کمیشن کے اراکین کے تقرر کا معاملہ ایک سال تک حل نہیں ہو سکا تھا حالانکہ ای سی پی اراکین کا تقرر قانون کے مطابق ان کی ریٹائرمنٹ کے 45 دن کے اندر ہونا چاہیے۔ پنجاب سے جسٹس (ر) الطاف ابراہیم قریشی اور خیبر پختونخوا سے جسٹس (ر) ارشاد قیصر پیر کے روز ای سی پی کے اراکین کی حیثیت سے 5 سالہ مدت ملازمت پوری کر چکے ہیں۔

طریقہ کار کے تحت وزیر اعظم قائد حزب اختلاف کے ساتھ مشاورت سے ای سی پی کے ہر عہدے کے لیے تین نام پارلیمانی پینل کو تصدیق کے لیے بھیجتے ہیں اور اگر وہ اتفاق رائے تک نہیں پہنچ پاتے تو حتمی فیصلے کے لیے الگ الگ فہرستیں پینل کو ارسال کی جاتی ہیں۔ موجودہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں سندھ اور بلوچستان سے ای سی پی اراکین کے تقرر کا معاملہ ایک سال تک حل نہیں ہو سکا تھا۔ اس کے علاوہ خارجی سطح پر افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء سے پیدا ہونیوالی صورتحال کے تناظر میں سرگرمیاں جاری ہیں۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی مسلسل سفارتکاری میں مصروف ہیں اور چین کے حالیہ دورہ سے واپسی کے بعد اب سعودی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کے دوران اہم امور پر تبادلہ خیال ہونے جا رہا ہے ، اورسعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی کی دعوت پر پاکستان آرہے ہیں، اس دورے کے دوران دونوں وزرائے خارجہ دوطرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں سمیت علاقائی و بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔

وزرائے خارجہ دونوں ممالک کی قیادت کے وژن کے مطابق دوطرفہ تعاون میں پیشرفت کا جائزہ بھی لیں گے، جبکہ سعودی وزیر خارجہ دورے کے دوران دیگر اعلیٰ حکام سے بھی ملاقات کریں گے‘ دورے کے دوران سعودی حکومت کے سینئر حکام پر مشتمل وفد بھی شہزادہ فیصل بن فرحان کے ہمراہ ہوگا اور ان سطور کی اشاعت تک اس دورے کی تفصیلات بھی سامنے آجائیں گی ۔

عالمی سطح پر جو حالات بن رہے ہیں اس میں یہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ افغانستان کی صورتحال پوری دنیا کو متاثر کئے ہوئے ہے اور تمام سفارتی سرگرمیاں اسی تناظر میں ہو رہی ہیں۔ افغانستان کی صورتحال اس وقت انتہائی نازک دور سے گزر رہی ہے اور افغانمستان کے حالات کا مثبت اور منفی دونوں پہلووں سے پاکستان پر براہ راست اثرات مرتب ہوتے ہیں اس لئے حکمران جماعت سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کو اس اہم ایشوء پر بیان بازی کرتے وقت احتیاط سے کام لینا چاہیئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔