سیّدنا عثمان ذو النورین ؓ

پروفیسر تفاخُر محمود گوندل  جمعرات 29 جولائی 2021
نطق احمدؐ سے ملی تھی جن کو جنت کی نوید ہاں! وہ داماد شہہ ابرار ؐ ، ذو النورین ؓ ہیں ۔  فوٹو : فائل

نطق احمدؐ سے ملی تھی جن کو جنت کی نوید ہاں! وہ داماد شہہ ابرار ؐ ، ذو النورین ؓ ہیں ۔ فوٹو : فائل

اسلامی تاریخ مہر و وفا، خُلوص و ایثار اور جُود و سخا کے ایسے ایسے ایمان افروز اور ولولہ انگیز واقعات سے بھری پڑی ہے جن کی تابانیت سے اوراقِ تاریخ ابد الاباد تک جگمگاتے رہیں گے۔

جہاں مجاہدین اسلام کی برق پاش تلواروں نے دشمنان دین اسلام کو مختلف جنگوں میں فنا کے گھاٹ اتار کر اشاعت اسلام کا راستہ ہم وار کیا وہاں متّمول اہل اسلام نے اپنے اموال راہ خدا میں بے دریغ خرچ کر کے مجاہدین اسلام کے پائے ثبات کو ایسی تقویت بخشی کہ ان کے حوصلوں کو ایک نیا ولولہ اور ہم ہمہ عطا ہوا اور ان کو تسخیر کے نئے افق عطا ہوئے۔

اگر یہ سعادت مند ہستیاں اپنی متاعِ دنیا راہِ خدا میں نہ لٹا دیتیں تو شاید عالم کفر کے پھنکارتے ہوئے ناگ کو کچل دینا ممکن نہ ہوتا۔ یہ ارفع و عظیم الشان روایت اب بھی چلی آ رہی ہے۔ جدید ترین ہتھیاروں کے اس دور میں بھی اسلام پر اگر کڑا وقت آجائے تو جیوش اسلام اس وقت تک کام رانی سے ہم کنار نہیں ہوسکتیں جب تک صاحبان ثروت اس کی کامل معاونت نہ کریں۔

دامادِ رسول کریم ﷺ، نازش اقلیمِ جُود و سخا سیّدنا عثمان ذوالنورینؓ بھی انہی خوش مقدر اور سعادت مند ہستیوں کی صف اول میں شمار ہوتے ہیں، جنہوں نے قبول اسلام کے بعد اپنا تمام اثاثۂ حیات احیاء و بقائے اسلام پر قربان کر دیا اور پھر اس عدیم المثال ایثار پر نازاں اور فرحاں بھی تھے اور رضائے خدا و مصطفی کریم ﷺ کے حصول کے لیے ہر وقت بے قرار رہتے۔

سب کچھ لُٹا کے راہِ محبّت میں اہلِ دل

خُوش تھے کہ جیسے دولت کونین پاگئے

سیرت مشاہیر اسلام میں تمام اہل قلم اس بات پر متفق ہیں کہ سیّدنا عثمان ذوالنورینؓ ان مقربین خدا و رسول کریم ﷺ میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے قبول اسلام سے قبل بھی گمراہی و شراب نوشی کو قریب نہیں پھٹکنے دیا۔

وہ ان متلاشیان صراط مستقیم میں شمار ہوتے تھے جن کو بقائے حیات کے لیے کسی راہ حق کی تلاش تھی مگر ریگستان عرب پر ظلمات فروش پوری طرح قلوب اذہان آدمیت کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھے، وہ شب ماہتاب میں بھی ظُلمت کو حسین تر کہنے پر تلے ہوئے تھے۔ اس کش مکش اور عالم تذبذب میں جب آقائے گیتی پناہ، خاتم الانبیاء حضور سیّد المرسلین ﷺ نے بعثت کا اعلان فرمایا تو جن سعید فطرت ہستیوں نے اوّل اوّل قبولِ حق کی سعادت حاصل کی ان میں مزاج شناس نبوت سیّدنا صدیق اکبر ؓ بھی شامل تھے۔

حضرت ابوبکرؓ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ خود حلقہ بہ گوش اسلام ہونے کے ساتھ جن دیگر نمایاں ہستیوں کے قبول اسلام کا باعث بنے ان میں سب سے متّمول اور نجیب النفس انسان پیکر عفّت و عصمت سیّدنا عثمان غنیؓ بھی شامل تھے۔ حضرت عثمانؓ کا شجرہ نسب پانچویں پشت میں حضور سرور کائناتؐ کی ذات والا صفات سے جا ملتا ہے۔

یہ اتصال نسب یوں ہے کہ آپؐ کی نانی حضور سرور کائناتؐ کی پھوپھی تھیں۔ قبول اسلام کے بعد دیگر حق پرستوں کے ساتھ آپؓ کو بھی شدید مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا۔ آپؓ کا چچا جو معاندین اسلام میں پیش پیش تھا آپؓ کو بُری طرح زد و کوب کرتا آپؓ کے اوپر لحاف ڈال کر چارپائی کے نزدیک آگ کا الاؤ روشن کر دیتا تاکہ دھوئیں کی وجہ سے آپؓ کا دم گھٹنے لگے اور غایت حبس سے گھبرا کر آپؓ تابش چراغ حق سے دل کو منوّر کرنے سے باز آجائیں۔ مگر یہاں تو بڑھتا ہے ذوق جُرم یہاں ہر سزا کے بعد۔ آپؓ کا چچا نہیں جانتا تھا کہ روح اسلام میں وہ لذّت و لطافت پائی جاتی ہے جس سے دست کش ہونا بہت مشکل بل کہ ناممکن ہوتا ہے۔

حضرت عثمان غنیؓ کے اسلام لانے سے اہل ایمان کو بہت تقویت ملی۔ آپؓ نے اپنی دولت اشاعت اسلام کے لیے بے دریغ خرچ کرنا شروع کر دی جس سے نادار اور مفلوک الحال مسلمانوں کے پژمردہ جذبوں کو بڑی طمانیت و توانائی عطا ہوئی۔ حضور سرور کائناتؐ حضرت عثمان ؓ سے اس قدر راضی اور خُوش تھے کہ اپنی لخت جگر سیّدہ رقیہؓ کا نکاح جناب عثمانؓ سے کر دیا۔

دونوں میاں بیوی میں اس قدر محبّت تھی کہ غزوۂ بدر کے موقع پر سیّدہ رقیّہؓ بیمار پڑیں تو سیّدنا عثمان ؓ واحد شخصیت تھے جنہیں رسول اﷲ ﷺ نے غزوۂ بدر میں شرکت سے محض اس لیے روک دیا کہ وہ اپنی اہلیہ کی تیمارداری کریں۔ اس کا ثمر آپؓ کو یہ عطا ہوا کہ شریک معرکہ نہ ہونے کے باوجود آپؓ کو بدری صحابہ جیسی عظمت و ثواب کا مستحق گردانا گیا۔ جب سیّدہ رقیہؓ کی وفات ہوئی تو حضرت عثمانؓ کی زبان سے یہ حسرت انگیز جملہ نکلا کہ افسوس! آج خاندان نبوتؐ سے میرا تعلق ختم ہوگیا۔

جب رحمۃ للعالمین ﷺ کو سیّدنا عثمانؓ کے اس یاس انگیز تذبذب اور احساس محرومی کا پتا چلا تو حضورؐ کو عثمانؓ کا یہ حزن و ملال گوارہ نہ ہوا۔ آپؐ نے اپنی دوسری صاحب زادی سیّدہ ام کلثومؓ کا عقد آپؓ سے کر دیا، اسی وجہ سے آپؓ کو ذوالنورین کا دل پذیر اور حسین لقب ارزانی ہوا۔ حضور کریم ﷺ کی حضرت عثمانؓ کے ساتھ غایت محبّت کا عالم یہ تھا کہ جب سیّدہ ام کلثومؓ بھی راہی ملک عدم ہوئیں تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: اﷲ رب العزت کے جلال کی قسم! اگر میری کوئی اور بھی صاحب زادی ہوتی تو وہ بھی عثمان کے نکاح میں دے دیتا۔

نطق احمدؐ سے ملی تھی جن کو جنّت کی نوید

ہاںٍ! وہ داماد شہہ ابرارؐ، ذوالنورینؓ ہیں

آپؓ کی شان فیاضی اور وسعت قلبی ضرب المثل بن چکی ہے۔ جب بھی اسلام و اہل ایمان پر کڑا وقت آیا آپؓ کے بحر جُود و سخا کی موجیں کشت اسلام کو سیراب کرتی چلی گئیں۔ ایک مرتبہ پانی کی شدید قلّت پیدا ہوگئی اور مدینہ کے قرب و جوار میں میٹھا پانی ناپید ہوگیا، جب تشنہ لبی سے مسلمانوں کی بے قراری حد سے بڑھی تو آپؓ نے ایک یہودی سے منہ مانگی قیمت ادا کر کے مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔

ایک بار اطلاع ملی کہ رومی ایک لشکر جرار کے ساتھ حملہ آور ہونا چاہتے ہیں، حضورؐ نے اطلاع ملتے ہی جنگی تیاریاں شروع کر دیں اس وقت لشکر اسلام کو مالی استعانت کی زبردست ضرورت تھی۔ اقلیم سخاوت کے تاج دار سیدنا عثمان غنیؓ نے مسلمانوں کے اس احساس محرومی کو شدت سے محسوس کیا اور فوری طور پر جیش اسلام کے ایک تہائی مصارف کی ذمے داری قبول کرنے کے ساتھ اونٹوں کی ایک لمبی قطار اور ستّر گھوڑے بھی پیش کیے، حضورؐ جناب عثمان غنیؓ کی اس لامثال شان فیاضی اور استغناء سے اس قدر خوش ہوئے کہ بے ساختہ ارشاد فرمایا: آج کے بعد عثمان کا کوئی عمل اسے گزند نہیں پہنچا سکتا۔

آپؓ کا دور خلافت تقریباً بارہ برس پر محیط تھا، پہلے چھے برس کامل سکون سے گزرے شاید ابھی سیّدنا عمر فاروقؓ کی سطوت و جلالت کا کوئی اثر باقی تھا کہ تخریب کاروں کو سر اٹھانے کا موقع نہ مل سکا مگر چھے برس کے بعد سیدنا عثمانؓ کی فطری بردباری، عجز و انکسار اور حلم و مسکنت کے باعث شر پسندوں کی ریشہ دوانیاں شروع ہوگئیں۔ ان موقع پرستوں نے آپؓ کی نجابت و تحمل سے فائدہ اٹھا کر آپ پر الزامات کی بوچھاڑ کردی، اگرچہ آپؓ نے ان بے سرو پا الزامات کا شافی جواب دیا مگر شرپسند کسی عظیم المیے کے بپا کرنے کا عزم صمیم کیے ہوئے تھے۔ ان دشمنان عثمانؓ کا ایک اصرار یہ بھی تھا کہ آپؓ خلافت سے دست بردار ہو جائیں۔

کچھ بہی خواہوں نے مشورہ دیا کہ آپؓ اسلامی افواج کے ذریعے بغاوت کو کچل دیں مگر آپؓ کے قلب اقدس میں شہر رسول کریم ﷺ کا احترام اس قدر جاگزیں تھا کہ فرمایا: میں مدینۃ النبیؐ کو خون سے لالہ زار نہیں کرنا چاہتا۔ بلوائیوں کی شدت حد سے بڑھ گئی اور انہوں نے قصر خلافت کو گھیرے میں لے لیا، سیّدنا عثمانؓ کو لمحات کی سنگینی کا ادراک ہوگیا۔

آپؓ نے وضو فرمایا اور تلاوت قرآن حکیم میں مصروف ہوگئے۔ آپؓ کی اہلیہ حضرت نائلہؓ قریب ہی بیٹھی ہوئیں تھیں، باغیوں نے پہلا وار کیا تو حضرت نائلہؓ نے اپنے ہاتھ پر روکا، جس سے ان کی انگلیاں کٹ گئیں، دوسرا وار گردن عثمانؓ پر پڑا تو خون کا فوارہ ابلا اور اوراق قرآن پر پڑا جس آیت کریمہ پر وہ خون گرا اس کا مفہوم ہے: ’’یقیناً! تجھے اﷲ ہی کافی ہے اور اﷲ تعالی خُوب سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘

اس درد ناک اور جگر فگار شہادت کے بعد امام مظلومؓ کی لاش تین دن تک بے گور و کفن پڑی رہی۔ باغیوں کا خوف و وحشت اس قدر تھی کہ رات کی تاریکی میں داماد رسول کریمؐ، مجسمہ غیرت و حیاء، سرخیل اسخیا، ہم دست مصطفیؐ، ہم زلف مرتضیؓ، جامع القرآن، سفیر رسولؐ، امام امن و آشتی، صاحب ہجرتین مدینے سے کابل و مراکش تک کے اسلامی فرماں روا کا جنازہ صرف سترہ آدمیوں نے پڑا اور عصمت و عفت کے اس پیکر کو جنّت البقیع میں آسودہ خاک کر دیا گیا۔

گریاں تھے تری موت پہ قرآن کے اوراق

داماد محمدؐ تھے، بہت بے سرو سامان

کرتے تھے ملائک بھی حیاء جس سے تفاخُر

تادیر ملے گا نہ کوئی آپؓ سا انسان

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔